’’معذرت‘‘ عربی لفظ ہے،اس کے معنی ہیں: ’’الزام سے بری ہونا ، عذر قبول کرنا‘‘، اعتذار کے معنی ہیں: ’’عذر بیان کرنا‘‘، پس معذرت واعتذار کے مرادی معنی ہیں:’’اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کا عذر یا جواز (Justification)پیش کرنا، اسی کو ’’عذر تراشنایا بہانے بازی‘‘ کہتے ہیں۔
قرآنِ کریم منافقین کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:’’اور اُن میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا :اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں (مال) عطا فرمائے گاتوہم ضرور صدقہ کریں گے اور ہم ضرور نکوکاروں میں سے ہوجائیں گے، پھر جب اُنھیں اللہ نے اپنے فضل سے مال عطا فرمایا تو انھوں نے بخل کیا اوراپنے عہد سے پھر گئے اور وہ روگردانی کرنے والے تھے، (التوبہ75-76)‘‘۔
منافقین ہر حال میں مومنوں پر طعن کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ (منافق) اللہ کی راہ میں صدقات دینے والے مومنوں کو طعنہ دیتے ہیں اوراُن پر بھی جو(صدقہ دینے کے لیے) اپنی مزدوری کے سوا کچھ نہیں پاتے ، تو یہ منافق اُن کا مذاق اڑاتے ہیں ،اللہ انھیں اُن کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے، (التوبہ:79)‘‘، یعنی جو صحابۂ کرام اللہ کی راہ میں وافر مال دیتے ، اُن پر ریاکاری کا طعن کرتے اور جو صحابۂ کرام نادار ہونے کے سبب اپنی روز کی مزدوری میں سے کچھ حصہ دیتے ،تو اُن پر طعن کرتے کہ ایک دو کلو کھجوروں سے کیا حاصل ہوجائے گا،الغرض مخلص مؤمنین کی کوئی بھی خصلت انھیں پسند نہ تھی اور اُن پر طعن کرنا اُن کا شعار تھا۔
جومخلص اہلِ ایمان جہاد میں نہ جانے کے لیے معقول اور مقبول عذر رکھتے تھے، اُن کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ کمزوروں، بیماروں اور اُن پر جو خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، (جہاد میں شریک نہ ہونے پر)کوئی حرج نہیں ہے ،جبکہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کے لیے اخلاص سے عمل کریں اورنکوکاروں پر بھی کوئی ملامت نہیں ہے اور اللہ نہایت بخشنے والا، بہت مہربان ہے اوراُن پر بھی کوئی الزام نہیں ہے ،جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کے لیے سواری کا بندوبست کردیں، تو آپ فرماتے ہیں:’’ میرے پاس تمہاری سواری کا کوئی بندوبست نہیں ہے،‘‘ تو وہ اس حال میں لوٹتے ہیںکہ غم کے مارے اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں کہ وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، البتہ وہ لوگ قابلِ ملامت ہیں جو مالدار ہوتے ہوئے آپ سے (ترکِ جہاد کی)رخصت طلب کرتے ہیں، وہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ( گھروں میں) رہیںاور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے ،پس وہ کچھ نہیں جانتے، (التوبہ:91-93)‘‘۔
غزوۂ تبوک کو ’’جیشُ العسرۃ‘‘بھی کہاجاتا ہے، یعنی ایسا لشکر جو نہایت عُسرت اور تنگی کے زمانے میں ترتیب دیا گیا ،اس کا پس منظر یہ ہے: ’’یہ خبر آئی کہ قیصر نے مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر ترتیب دیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام کو جہاد کی ترغیب دی اور مدینۂ منورہ میں رہ کر دفاع کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی اور دشمن کو مقابلے میں آنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
آج کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے، یعنی کہنے والا کہتا ہے:’’اگر میری بات سے کسی کی یا فلاں شخص کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں‘‘، اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی بات کی صحت پر اصرارکر رہا ہے اوراُس کے کلام سے جو معنی ہرسننے اور پڑھنے والے کو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے، اُسے اُن کے فہم کا قصور قرار دیتا ہے، لہٰذا یہ معذرت کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اُسے کہتے ہیں :’’جب انسان اپنی غلطی کا اعتراف کرے ، اُس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر اس کی معافی مانگے‘‘۔
غزوۂ تبوک سے سوائے تین افراد کے اسّی کے لگ بھگ افرادکسی عذرِ معقول ومقبول کے بغیر جان بوجھ کرجہاد سے پیچھے رہ گئے تھے ،یہ لوگ منافق تھے، جب مسلمان سرخرو ہوکر واپس آئے ، تو قرآن نے ان کی بابت رسول اللہ ﷺ کو پیشگی بتادیا:’’(مسلمانو!)جب تم اُن (منافقین) کی طرف لوٹ کر جائو گے تو وہ تمہارے سامنے بہانے بنائیں گے ، آپ کہہ دیجیے: تم بہانے نہ بنائو ،ہم ہرگز تمہاری بات کا یقین نہیں کریں گے،اللہ نے ہمیں تمہارے حالات پرمُطَّلَع کردیا ہے اوراب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھیں گے ،پھر تم اس ذات کی طرف لوٹائے جائو گے جو ہرغیب اور ہر ظاہر کا جاننے والا ہے اورتمہیں ان کاموں کی خبر دے گا جو تم کرتے تھے ، (التوبہ:94)‘‘۔ البتہ غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے،وہ قابلِ تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے، احادیث مبارکہ میں ہے:
’’حضرت جودان بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے سامنے (اپنی کسی غلطی پر) معافی مانگی اوراس نے یہ معافی قبول نہ کی تو اُس پر ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے، (ابن ماجہ: 3718)‘‘،(۲)’’اُمّ المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم پاک دامنی اختیار کرو تاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک دامن ہوں ،تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیک برتائو کرے اور جو (اپنی کسی غلطی پر) اپنے مسلمان بھائی سے معافی مانگے اور وہ اُس کی معافی کو قبول نہ کرے تو وہ میرے حوضِ(کوثر) پر نہیں آئے گا، (المعجم الاوسط:6295)‘‘،(۳)’’حضرت انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو (لوگوں کی پردہ دری سے) روکے رکھا ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے پر قابو پایا ، اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو اُس سے روک دے گا اور جواللہ تعالیٰ کے حضور (اپنی خطائوں پر) معافی کا طلبگار ہوا، اللہ اُس کی معافی کو قبول فرمائے گا، (شُعَبُ الْاِیْمَان: 7958)‘‘، (۴)وکیع بن الجراح کہتے ہیں: سفیان ثوری بیمار ہوگئے ،میں نے اُن کی عیادت میں تاخیر کردی، پھر میں اُن کی عیادت کو آیا اور تاخیر پر معذرت کی تو انھوں نے کہا: بھائی! معذرت نہ کرو، بہت سے معذرت کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں، جان لو! دوست سے کوئی حساب طلبی نہیں ہوتی اور دشمن سے خیر کی توقع نہیں ہوتی، (شُعَبُ الْاِیْمَان:7995)‘‘۔
ابتدائے آفرینش میں ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں : آدم وحوا علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کیاتو اس کی بابت قرآن کریم بیان فرماتا ہے: ’’اور ہم نے فرمایا: اے آدم!تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو ،کسی روک ٹوک کے بغیر کھائو ، ہاں! اس (خاص) درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہوجائو گے، پھر شیطان نے انھیں اُس درخت کے ذریعے پھُسلایا اور اُن نعمتوں سے باہر نکال دیا جن میں وہ رہتے تھے،پھر آدم وحوا جنت سے نکالے گئے ، وہ اپنے کیے پر نادم ہوئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:پھر آدم نے اپنے رب سے (توبہ کے) کلمات سیکھ لیے اور توبہ کی، بے شک وہ بہت توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہے،(البقرہ:36-37)‘‘۔
اُن کلماتِ توبہ کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ان دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے، (الاعراف:23)‘‘۔ الغرض حضرت آدم وحوا علیہما السلام نے اپنی خطائے اجتہادی کو تسلیم کیا اور اس پراللہ تعالیٰ سے غیر مشروط معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی،اس کے برعکس شیطان نے بھی آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے ازراہِ تکبر واستکبار اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی ،تو اللہ تعالیٰ نے اُس سے بھی جواب طلبی فرمائی : ’’جب میں نے تجھے (آدم کو سجدہ کرنے کا )حکم دیا تھاتوتجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا،ابلیس نے کہا: میں اُس سے بہتر ہوں ،تو نے مجھے آگ سے اور اُسے مٹی سے پیدا کیا ہے، (الاعراف:12)‘‘۔
الغرض ابلیس نے اپنے جوہرِ تخلیق کو افضل قرار دیتے ہوئے آدم علیہ السلام پر اپنی برتری ثابت کی ، منطق اور دلیل کا سہارا لیا، اللہ تعالیٰ کے حکم کو بلا چون وچرا تسلیم نہ کیااور قیامت تک کے لیے راندۂ درگاہ اور ملعون قرار پایا۔پس اپنی خطائے اجتہادی کو تسلیم کر کے غیر مشروط طور پر معافی مانگنا آدمیت ہے اور آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کو قصداً تسلیم نہ کر کے اس کا جواز پیش کرنا اورعقلی دلیل کا سہارا لینا یہ ابلیس کا وتیرہ ہے اور اسی بنا پر ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ٹھہرا۔ آج کا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ اپنی غلطی کو غیر مشروط طور پر تسلیم کر کے معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہوتے ، ان کا عُجب واستکبار انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا ، وہ بودے دلائل کا سہارا لے کر اپنے نفسِ امّارہ اور اپنے چاہنے والوں کو تسکین پہنچاتے ہیںاور وہ بھی اُن کی پیروی میں اسی روش کو آگے بڑھاتے ہیں، یہی شعار تمام خرابیوں کی جڑ ہے، جبکہ آدمیت عَجز وانکسار کا نام ہے ۔ غلطی کو تسلیم کر کے اس کا ازالہ کرنا شِعار آدمیت ہے ، افتخارِ آدمیت ہے ، وسیلۂ نجات ہے اور اسی سے بغض وعداوت اور نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں ’’اَلْعَفُوُّ‘‘ہے، یہ ’’عَفْو‘‘ سے فَعُول کا وزن ہے جو مبالغہ کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی ہیں: ’’گناہ سے درگزر کرنا اور اُس پر سزا نہ دینا‘‘،اس کے لغوی معنی ہیں:’’مٹادینا‘‘، (لسان العرب،ج:15،ص: 72)‘‘۔اس کے برعکس صَفْحٌ کے معنی ہیں: ’’کسی کی خطا سے منہ موڑ لینا ،یعنی اُسے بھلادیناکہ نہ اُس کا ذکر کرے، نہ اُسے یاد دلائے ، نہ اُس گناہ پر اُسے عار دلائے اور نہ سختی سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرم ﷺ سے فرمایا:’’آپ ان کو معاف کیجیے اور درگزر کیجیے بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے،(المائدہ:13)‘‘، یہ بھی ذہن میں رہے کہ شیطان ہمیشہ خیرخواہ کے روپ میں حملہ آورہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور شیطان نے کہا: تمھارے رب نے تمھیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے بن جائو یا دائمی زندگی پالواوراُن دونوں کوقسم کھاکر کہا : میں تمھارا خیرخواہ ہوں، (الاعراف:20-21)‘‘۔
تبصرہ لکھیے