ہوم << توشہ خانے کی حقیقت -حماد یونس

توشہ خانے کی حقیقت -حماد یونس

سابق وزیر اعظم کو جس توشہ خانہ کیس کے تحت نا اہل کیا گیا، اس کیس کی تفصیلات ایک طرف ، خود توشہ خانہ کے بارے میں کسی کو علم نہیں ۔
توشہ کا مطلب تو ہے مسافر کا سامان ، مگر توشہ خانہ ایک ریاستی ادارہ ہے ، جہاں ریاستی عہدیداران کو ملنے والے تحائف کو جمع کروایا جاتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو مناصب بھی مسافر خانے کی طرح ہی ہوتے ہیں جہاں ملنے والی مراعات یا تحائف کو ذاتی ملکیت نہیں سمجھا جا سکتا ۔
توشہ خانہ کا تصور تو مغلیہ سلطنت کے دور سے چل رہا ہے ، مگر اسے باقاعدہ ایک ریاستی ادارہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنایا۔ مختلف حکمرانوں اور صاحبِ ثروت شخصیات کی جانب سے متحدہ ہندوستان کے گورنر جنرل اور دیگر اعلیٰ افسران کو کو مختلف تحائف دیے جاتے تھے ۔ مگر ایک امریکی Proverb ہے کہ
Nothing in this world is free. Everything has a price.
چنانچہ ان تحائف کا مقصد ان حکومتی عہدیداروں سے کوئی رعایت یا مفادات کا حصول تھا۔ برطانوی سرکار ایسے کسی عمل یا رواج کو پنپنے نہیں دے سکتی تھی لہذا توشہ خانے کو متحرک کیا گیا اور تمام تحائف اس میں جمع کروائے جانے لگے۔ اس حوالے سے مختلف قواعد و ضوابط بھی متعارف کروائے گئے ۔

یہی نظام پاکستان میں بھی چلا آ رہا ہے ۔ مختلف ملکی و غیر ملکی اُمَراء کی جانب سے افسران اور حکمرانوں کو تحائف کا ملنا معمول کی بات ہے ۔ مگر ان کو بر وقت توشہ خانہ میں جمع کروانا اور ان کو ریکارڈ پر لانا البتہ ایک آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے ۔
ان تحائف کی مارکیٹ میں قیمت لگوائی جاتی ہے اور اگر کسی تحفے کی قیمت ایک مخصوص رقم سے کم ہو تو اسے متعلقہ افسر یا عہدیدار خود رکھ سکتا ہے ۔ جبکہ دیگر مہنگے تحائف کو ان کی اصل قیمت کا ایک مخصوص حصہ بیت المال میں جمع کروا کر خریدا جا سکتا ہے۔ سابقہ حکومتوں میں کسی تحفے کی اصل قیمت کا 20 فیصد جمع کروانا لازم تھا ، جسے عمران خان کے دورِ حکومت میں 50 فیصد کر دیا گیا ۔ یعنی کس افسر کو ایک تحفہ ملا ، اور اس کی مارکیٹ میں قیمت ایک کروڑ روپیہ لگی ہے تو وہ افسر ، بیت المال میں 50 لاکھ روپیہ جمع کروا کر اس تحفے کو خرید سکتا ہے ۔
اگر متعلقہ افسر یا عہدیدار اس تحفے کو نہیں خریدتے تو پھر اسٹیٹ بینک کے ذریعے اس تحفے کی دوبارہ قیمت لگوائی جاتی ہے اور یوں اسے اصل مارکیٹ قیمت پر فروخت کر دیا جاتا ہے ۔

یورپی ممالک اور امریکہ میں آفیشل گفٹ ریپوزیٹری ہوتی ہے جس میں تحائف جمع کروائے جاتے ہیں ۔
انگلینڈ میں آفیشلز اور حکام کے لیے 300 پاونڈز سے زیادہ مالیت کے تحائف ریجسٹر کروانا لازم ہے ۔ 28 دن کے اندر اندر ان کا اندراج کروا دیا جاتا ہے ۔

بھارت ، بنگلہ دیش اور ایران میں بھی توشہ خانے قائم ہیں جہاں ریاستی عہدیداران کو ملنے والے تحائف جمع کروائے جاتے ہیں ۔ مگر کبھی کسی گھپلے کی خبر شاید ہی کبھی سامنے آئی ہو۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کو بطورِ وزیر اعلیٰ گجرات جو تحائف موصول ہوئے ، ان سب کی قیمتوں کا تخمینہ لگوانے کے بعد انہوں نے تقریباً سو کروڑ بھارتی روپوں کو طالبات کی تعلیم کی مد میں جمع کروا دیا ۔ جبکہ حال ہی میں بطور وزیر اعظم انہیں جو تحائف ملے ان سے مودی نے گنگا سمیت بھارتی دریاؤں کی صفائی اور صاف پانی کے اہتمام کا کام لیا ۔
اگر ایک افسر ، وزیر یا کوئی بھی ریاستی عہدیدار کسی تحفے کا اندراج ایک مخصوص مدت میں نہیں کرواتا تو اسے ایک آئنی جرم تصور کیا جاتا ہے ۔

Comments

HammadYounas

حماد یونس

حماد یونس کالم نگار اور تحقیق کار ہیں جو مختلف نثری جہتوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان میں غزل ، نظم اور آزاد نظم بھی کہتے ہیں۔ نمل لاہور سے انگریزی لسان و ادب میں ایم اے کر چکے ہیں ۔

Click here to post a comment