ہوم << امریکی سعودی تعلقات میں اوپیک پلس حائل-اویس چوہدری

امریکی سعودی تعلقات میں اوپیک پلس حائل-اویس چوہدری

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج شدت اختیار کر گئی۔ یہ تمام صورتحال تب سامنے آئی جب امریکی مخالفت کے باوجود پانچ اکتوبر کو تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کی نمائندہ تنظیم ’اوپیک پلس‘ نے اعلان کیا تھا کہ وہ تیل کی پیداوار میں دو ملین بیرل یومیہ کمی کریں گے۔ امریکہ نے تیل کی پیداوار میں کمی نہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن سعودی عرب سمیت اوپیک پلس ممالک نے امریکہ کی منشا کے خلاف فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں امریکی صدر نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔

اوپیک پلس تیل برآمد کرنے والے 23 ممالک کا ایک گروپ ہے۔ یہ گروپ مل کر فیصلہ کرتا ہے کہ تیل کی کتنی پیدوار کرنی ہے اور عالمی منڈی میں کتنا تیل بیچنا ہے۔ ماضی پر نظر دہرائیں تو اوپیک کا قیام 1960 میں ہوا تھا۔ دنیا کا تقریباً 30 فیصد خام تیل اوپیک ممالک سے آتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل کی پیدوار کرنے والا ملک ہے جو روزانہ 10 ملین بیرل تیل کی پیدوار کرتا ہے۔

جب سنہ 2016 میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی تھی تو اوپیک نے تیل پیدا کرنے والے مزید 10 ممالک کو اس گروپ میں شامل کیا اور اوپیک پلس گروپ تشکیل دیا تھا، اس وقت روس بھی اوپیک پلس کا حصہ بن گیا تھا۔ روس بھی روزانہ تقریباً 10 ملین بیرل تیل پیدا کرتا ہے۔ اس گروپ میں 13 ممالک بہت اہم ہیں جن میں زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک ہیں۔ اوپیک پلس ممالک مل کر دنیا کا 40 فیصد خام تیل پیدا کرتے ہیں۔

اوپیک پلس کے اس فیصلے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی نیوز چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 'اس فیصلے کے سعودی عرب پر کچھ نہ کچھ اثرات مرتب ہوں گے'۔ بائیڈن کے انٹرویو سے صرف ایک دن قبل سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین اور با اثر ڈیموکریٹک سینیٹر باب مینینڈیز نے کہا تھا کہ ’امریکہ کو سعودی عرب کے ساتھ تمام تعلقات کو فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔‘ امریکی صدر کا مزید یہ کہنا تھا کہ ’جو کچھ سعودی عرب نے روس کے لیے کیا ہے اس کے کچھ نتائج ہوں گے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں اور میرے ذہن میں کیا ہے۔ لیکن اس کے نتائج ہوں گے۔‘ امریکہ اوپیک ممالک کے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کا تعلق روس سے جوڑتا ہے۔

سعودی وزارت خارجہ نے اس بیان کے جواب میں ردعمل دیا کہ یہ فیصلہ تیل کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے کیا گیا ہے، قیمتوں میں اضافے کے لیے نہیں۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اوپیک پلس کے فیصلے کے بعد سعودی عرب کے بارے میں بیانات میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی تنازعات میں فریق بن رہا ہے اور سیاسی طور پر امریکہ کے خلاف متحرک ہے۔ ’سعودی عرب ان بیانات کو سختی سے مسترد کرتا ہے، جو حقائق پر مبنی نہیں ہیں اور اوپیک پلس کے فیصلوں کو معاشی تناظر سے ہٹ کر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ گروپ کے تمام رکن ممالک نے متفقہ طور پر کیا ہے۔ یہ فیصلہ کسی ایک ملک کا نہیں ہے۔ یہ فیصلہ معاشی بنیادوں پر لیا گیا ہے تاکہ تیل کی منڈی میں طلب اور رسد میں توازن قائم رہے۔‘

دریں اثنا روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھی اوپیک پلس کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان روس کے دورے پر ہیں۔ صدر پوتن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں متحدہ عرب امارات کے صدر سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’ہم نے یہ فیصلہ طلب اور رسد کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے کیا ہے۔ ہمارا فیصلہ کسی ایک ملک کے خلاف نہیں ہے۔‘

اس تمام تنازعے کو تجزیاتی نظر سے دیکھیں تو اوپیک پلس کے اس فیصلے سے امریکہ کو دوہرا نقصان پہنچا ہے۔ اگر روس اس سے کچھ منافع کماتا ہے تو وہ اس رقم کو یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں استعمال کرے گا، دوسری جانب امریکہ میں تیل کی قیمت بڑھنے کی صورت میں اس کا براہ راست اثر نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات پر پڑے گا۔ امریکہ میں آئندہ ماہ آٹھ نومبر کو پارلیمنٹ، ریاستی اور گورنرز کے لیے انتخابات ہوں گے۔ صدر بائیڈن کا ان انتخابی نتائج سے براہ راست تعلق نہیں ہے لیکن اگر ریپبلکن پارٹی ایوان میں اپنی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو بائیڈن کے لیے کوئی بھی بل منظور کروانا مشکل ہو جائے گا۔ وہ اپنی پارٹی کے اندر بھی کمزور ہو جائیں گے اور اس کا براہ راست اثر 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخاب پر پڑے گا۔

لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ سعودی عرب نے جان بوجھ کر ایسا فیصلہ روس کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا ہے۔ جب سے روس یوکرین جنگ شروع ہوئی ہے تب سے امریکہ عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ یوکرین اور یورپ کی خاطر قربانیاں دیں۔ یورپ کے کئی ممالک اب بھی روس سے تیل خرید رہے ہیں، اس لیے دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی درست نہیں۔ سعودی عرب کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امریکہ کے دائرہ اثر سے باہر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سعودی عرب کو یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ امریکہ اب آہستہ آہستہ مشرق وسطیٰ سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور اس کی پوری توجہ ایشیا پیسیفک پر ہے۔ سعودی عرب کو لگتا ہے کہ اوپیک پلس کے اس فیصلے سے اس کی معاشی حالت بہتر ہو گی اور اس کا براہ راست تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔

سعودی عرب اپنے روایتی حریف اسرائیل اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سعودی عرب کے اس فیصلے سے امریکہ ناراض ہے لیکن ایک سوال یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے غصے کا سامنا کرنے کی ہمت کہاں سے اکٹھا کر رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اب اتنا طاقتور نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔ دس پندرہ برس پہلے جب امریکی صدر صرف فون کرتا تو سعودی عرب وہی کرتا تھا جو امریکہ چاہتا تھا۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات اب بہتر ہو رہے ہیں۔ اگر امریکہ نے سعودی عرب پر کسی قسم کی پابندیاں لگانے کی کوشش کی تو اسرائیل اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تیزی سے کام کر رہا ہے اور ایسا کوئی اقدام اس عمل کو سست کر دے گا۔ امریکہ میں اسرائیل کے مفاد کو ہمیشہ امریکی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے۔

امریکہ اور خاص طور پر بائیڈن انتظامیہ کا سارا غصہ آٹھ نومبر کو ہونے والے الیکشن کی وجہ سے ہے۔ اگر نومبر کے پہلے ہفتے میں تیل سمیت ہر چیز کی قیمت بہت زیادہ بڑھنے لگتی ہے تو ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی نتائج بری طرح متاثر ہوں گے۔ اگر ڈیموکریٹک پارٹی وسط مدتی الیکشن جیتتی ہے یا ایوان میں اپنی برتری برقرار رکھتی ہے تو کچھ نہیں ہوگا، اگر صدر بائیڈن چاہیں تو وہ خود سعودی عرب کے خلاف بہت سے فیصلے کر سکتے ہیں لیکن انھوں نے اس کو ٹالنے کے لیے پارلیمنٹ پر سب کچھ ڈال دیا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ اس فیصلے کے ردعمل میں سعودی عرب کے خلاف اور خاص طور پر ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف بہت زیادہ بیان بازی ہو گی۔ امریکی میڈیا میں ولی عہد محمد بن سلمان کو ولن کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ لیکن امریکہ کوئی بڑا قدم نہیں اٹھائے گا۔

اگر صدر بائیڈن کی پارٹی ایوان میں اپنی اکثریت کھو دیتی ہے تو 2024 کا صدارتی انتخاب ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے بہت مشکل ہو سکتا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ مضبوط دعویدار کے طور پر الیکشن میں سامنے آ سکتے ہیں۔ صدر بائیڈن سعودی عرب کے خلاف کچھ سخت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ سعودی عرب پر بھی کسی قسم کی پابندیوں کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ صدر بائیڈن سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ نائن الیون حملوں کے متاثرین کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کا معاملہ دوبارہ اٹھایا جا سکتا ہے اور سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب کے خلاف امریکی انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کو دوبارہ منظر عام پر لایا جائے اور سعودی عرب پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا جائے۔

Comments

Click here to post a comment