ہوم << کراچی میں ہی قتل کیوں ٹارگٹ کلنگ - حبیب الرحمن

کراچی میں ہی قتل کیوں ٹارگٹ کلنگ - حبیب الرحمن

بسلسلہ ملازمت، متعدد بار میری تعیناتی پاکستان کے ایسے علاقے جو پاکستان میں ہونے کے باوجود "ایجنسیاں" کہلاتے ہیں وہاں ہوتی رہی ہے۔ تعیناتی سے قبل مجھے اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ان علاقوں میں بسنے والے قبیلے اتنے جنگ جو ہونگے کہ ذرا ذرا سے اختلاف کی بنیاد پر بندوقوں، راکڈ لانچروں اور میزائلوں جیسے خالص جنگی ہتھیاروں کے دہانے کھولنے میں لمحے بھر کی بھی دیر نہیں لگاتے ہونگے۔

کئی کئی دن اور کئی کئی رات لڑائیوں میں درجنوں افراد کا زخمی ہو جانا یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا معمول ہوگا اور اس ساری صورتِ حال میں کہیں سے کہیں تک حکومتِ پاکستان پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صورت نظر نہیں آتی ہوگی۔ ان علاقوں میں ہر قبیلے نے باقائیدہ سرحدی لکیریں کھینچی ہوئی ہیں اور کوئی سہواً یا قصداً ذرا بھی ان حدود سے اِدھر اُدھر ہوا، موت کا پروانہ پیغام اجل لیکر پہنچ جاتا ہوگا۔ چھپا چوری اگر کوئی مسافر بس میں لوگوں کے درمیان گھس گھسا کے کسی جانب نکلنے کی کوشش کرے تو اسے بلا تکلف بس سے اتار کر وہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہوگا۔ یہ حالت تو آنکھو دیکھی ہے جو قلم بند کر رہا ہوں۔ پورے پاکستان میں خبروں کی زینت بننے والی خبریں کم اذیت ناک تو نہیں۔

کبھی چھوٹو گینگ کہیں سے برآمد ہوتا ہے جو عام لوگ تو عام لوگ، پولیس والوں تک کو اٹھا کر لیجانے کے بعد ان کی لاشوں کے تحفے تھانوں میں ارسال کرکے پیغام دیتا ہے کہ اگر ہمت ہے تو ہمیں ایسی بہیمانہ حرکتوں سے روک کر دکھاؤ۔ اس گینگ کے طاقتور ہونے کا اندازہ لگانے کیلئے یہی دلیل کافی ہے کہ اس پر قابو پانے کیلئے افواج پاکستان کی مدد طلب کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی پہلے بمباری کرکے ممکنا مورچے تباہ و برباد کرنے کے بعد ہی ان پر قابو پانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ انتخابی دنگل سجتے ہیں تو بغیر خون خرابہ، یہ عمل کبھی پایہ تکمیل تک پہنچے نہیں دیکھا گیا۔

شہروں گاؤں دیہاتوں سے آئے دن یہ خبریں آنا ایک معمول ہے کہ کبھی زمین کے تنازعوں کی صورت میں، کبھی پرانی دشمنیوں کے نتجے میں، کبھی مال مویشیوں کے کسی دوسرے کے کھیتوں میں چرنے نکل جانے پر، کبھی غیرت کے نام پر اور کبھی جائیداد کی تقسیم پر درجنوں افراد لہو لہان کر دیئے گئے۔ وکلا، جج صاحبان، مقدمہ دائر کرنے والے، عدالت میں اپنی صفائیاں پیش کرنے والے، سیاسی مخالفین، اور نہ صرف عام شہری بلکہ کہ کئی وزرائے اعلیٰ، اعلیٰ سول و عسکری شخصیات محض اس لئے قتل کر دی جاتی ہیں کہ ان سب کا تعلق کسی نہ کسی گروہ کی حمایت یا مخالفت سے جڑا ہوتا ہے۔

کسی ماں نے اپنی بیٹی کو محض شک کی بنیاد پر گلا گھونٹ کر مار دیا، کسی باپ نے کاری جان کر بیٹی کو آگ لگادی، شادی کے بیسیوں برس بعد مرد کو بیوی کے کردار پر شک کیا گزرا کہ اپنی ہی اولاد سمیت سب کے گلے کاٹ دیئے جیسے واقعات دیکھ اور سن کر یوں لگتا ہے جیسے یہ سب معمولاتِ زندگی کا حصہ ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک شقی القلب بھائی اپنی سگی بہن کا گلا کاٹنے کے بعد گلی میں تڑپتی بہن کے روح پرواز کرنے کے منظر کی فلم بندی اتنے اطمینان سے کر رہا ہے جیسے وہ قربانی کیلئے ذبح کی جانے والا کوئی جانور ہو۔ پھر یہی نہیں بلکہ پکڑے جانے پر اسے ذرہ برابر بھی کوئی پشیمانی نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جب اس کے باپ کو پکڑ کر بیٹے کی اس سفاکی کے متعلق پوچھ گچھ کی جاتی ہے تو اس کا جواب بھی بیٹے کے حق میں یہی آتا ہے کہ اس کے بیٹے نے، اپنی بے شرم و بے غیرت بہن (میری بیٹی) کو جان سے مار کر کوئی غلط بات نہیں کی۔

ایران جانے اور آنے والے زائرین کو بسوں سے اتار کر بعد از شناخت کہیں اور لیجاکر مارنے کی بجائے وہیں دیگر مسافروں کے سامنے نہایت بیدردی سے گولیوں مار کر قتل کردیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں جاری بہت سارے منصوبوں پر مزدوری کرنے والے نہایت غریب اور مسکین ایسے مزدور جن کا تعلق پاکستان کے دیگر صوبوں سے ہوتا ہے، ان کو قتل کر دینا جیسی واداتیں نہایت عام ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک جج کو محض اس لئے گولی ماردی گئی کہ اس نے خلافِ شرع قوانین کے خلاف کامیابی کے ساتھ مقدمہ لڑا تھا۔ کئی علما جن میں مولانا سمیع الحق جیسے عالم دین بھی شامل ہیں، ان کا قتل سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کیا گیا۔

میں مذکورہ بالا واقعات پر کبھی اس لحاظ سے روشنی نہیں ڈالوں گا "قبیلوں" کے پاس اعلیٰ قسم کا جنگی ساز و سامان کہاں سے آتا ہے جبکہ ننانوے فیصد ایجنسیوں کی سر حدیں کسی دوسرے ملک سے سیکڑوں میل کے فاصلوں پر ہیں۔ میں یہ بھی نہیں پوچھونگا کہ ان سب کو آرم لیس کرنا کن کا کام ہے اور نہ ہی یہ سوال کرونگا کیا پاکستان کے قانون کی کسی شق میں ان سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ کر لیا گیا ہے کہ قبائل اپنی باقائدہ آرمی بھی رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپس کی دشمنیوں، قبیلہ جاتی بنیادوں، سیاسی نفرتوں، جائیداد کی تقسیم، کار و کاری قرار دیکر، زمینوں اور جائیدادوں کی تقسیم کو جواز بنا کر گلوں پر گلے کاٹ پیٹ کر رکھ دینے پر متعلقہ ادارے اپنے ہاتھ پیروں پر مہندی لگائے کیوں بیٹھے نظر آتے ہیں۔

میرا سوال ان سب واقعات کو قلم بند کرنے کے بعد صرف اتنا ہے کہ پورے پاکستان کی طرح کراچی میں بھی جو قتل و غارت گری ہوتی ہے ان سب کے وجوہ میں بھی یہی ساری کارستانیاں موجود ہوتی ہیں۔ اگر مذکورہ تمام خون خرابہ ٹاگیٹڈ کلنگ نہیں تو صرف کراچی میں ہونے والی ہر قسم کے قتل کو ٹاگیٹ کلنگ کا نام کیوں قرار دیا جاتا ہے؟۔

Comments

Click here to post a comment