ہوم << ارطغرل کے شہر میں-شعیب محمد خان

ارطغرل کے شہر میں-شعیب محمد خان

پہلے دن کی تھکان اور احسن بھائی کی شاندار ضیافت اور تواضع کے بعد بھی خلاف توقع میری آنکھ دن تڑکے صبح 6 بجے کے قریب ہی کھل گئی۔ بیدار ہوا تو ذہن میں صرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ جلد اذ جلد سوگت (سووت) پہنچوں اور غازی ارطرل ر ح کو سلام عقیدت پیش کروں اور فاتحہ خواں ہوں۔
سونے سے پہلے ہمارا اور سعد بھائی کا مختلف النوع موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی ہوا جس میں سب سے دلچسپ بات، جس کی بعد میں احسن بھائی نے تصدیق بھی کی، وہ یہ لگی کہ دو قریبی مساجد اذان ادا کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ جب ایک تکبیر کہہ رہا ہوتا ہے تو اتنی دیر تک دوسرا خاموش رہتا ہے، جب دوسرا تکبیر کہتا ہے تو پہلا خاموش ہوجاتا ہے۔ اور ترکی کی مساجد میں اذان بھی کم از کم 5-7 منٹ کی ہوتی ہے، سننے میں ایسا لگتا ہے کہ مقابلہ حسن قراءت چل رہا ہو، ٹھہر ٹھہر کر، آرام آرام سے ایک ایک لفظ ادا کرتے ہیں اور دوسرے کو پورا موقعہ دیتے ہیں کہ وہ بھی اذان مکمل سکون سے ادا کرے۔
لیکن خیر، ہم رات ہی کو یہ پروگرام بنا چکے تھے کہ اگلی صبح جانب سووت کوچ کریں گے اور پھر وہاں سے قونیا۔ چناچہ، علی الصبح بیدار ہونا کوئی اچنبھا نہیں تھا۔ بیدار ہو کر تیار ہوئے تو احسن بھائی نے ہمیں 'استنبول چمن' ہوٹل کا راستہ دکھا دیا، اور ایسا دکھایا کہ غریب ابھی تک میری راہ تک رہا ہوگا۔ ناشتہ میں قیمہ بوریک، پنیر آملیٹ اور سمت (مخصوص ترک بریڈ) سے ناشتہ کی میز سجائی گئی۔ نہایت خستہ اور عمدہ پکا ہوا تازہ 'قیمہ بوریک' ناشتہ میں کھایئے تو مزہ ہی دوبالا ہوجاتا ہے۔ پرت در پت مکھن اور بیچ میں قیمہ، آئے ہائے! توانائی بحال۔ اور اس کے ساتھ پنیری آملیٹ، واہ جی واہ سبحان اللہ۔
خیر جناب نو ساڑھے نو بجے کے قریب ناشتہ وغیرہ کر کے فارغ ہوئے اور مصمم ارادہ لےکر جانب منزل روانہ ہوئے۔
استنبول سے برسا کے راستے میں لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ مسافت پہ ایک چھوٹا سا گاوں 'اورہان غازی' آتا ہے، اس گاوں یا شہر کا قیام عثمانی خلیفہ اورہان اول نے 14 ویں صدی عیسوی کے آغاز میں عمل میں لایا، ویسے تو اس گاوں میں کوئی ایسی خاص چیز نہیں لیکن اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ایک قلعہ ضرور ہے جو کہ فی الحال زیر مرمت ہے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ کسی نا کسی دور میں قلعہ موجود ہوگا جو اپنوں کی بے اعتنائی کی سبب یا کسی قدرتی آفت کی باعث تباہ ہوگیا، تفصیل کیا ہے مجھے نہیں معلوم۔ لیکن اس قلعے سے بھی زیادہ خوبصورت 'عثمان غازی کپروسو(برج)' وہ برج ہے جو 'آبنائے عظمت' پر بنا ہے اور شہر 'گبزی' کو شہر 'یالووا' سے ملاتا ہے۔ یہ دنیا کا چوتھا بڑا سسپنشن برج ہے جس کی کل لمبائی ڈھائی کلومیٹر ہے۔ پہاڑوں کی سرزمین پہ اپنی نوعیت کا منفرد شاہکار ترک قوم کی انا اور خودداری کی منہ بولتی تصویر نظر آتا ہے۔
جیسے انگریزی میں کہتے ہیں ۔۔۔۔
To make a statement.....

برسا، اورہان غازی سے مزید لگ بھگ چالیس سے پچاس منٹ کی مسافت پہ ہے۔ یہاں سارے ہی 'دریلیس ارطغرل' کے شیدائی ہیں تو 'برسا' شہر کی تاریخی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں گے لیکن جو نہیں جانتے ان کیلیے عرض ہے کہ برسا عثمانیوں کے قبضے میں آجانے کے بعد سے ہمیشہ انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ خواہ سیاسی معاملات ہوں، انتظامی یا معاشی ۔برسا کی حیثیت عثمانیوں کے نزدیک از رگِ جاں والی تھی۔ عظیم سلطان کے عظیم سپوت سلطان محمد فاتح کی فتح قسطنطنیہ کے بعد سیاسی، معاشی اور انتظامی مرکز قسطنطنیہ چلے جانے کے باعث برسا کی انتظامی اہمیت کم ہوگئی۔ آج بھی اگر کسی کو عثمانی فن تعمیر دیکھنے کا شوق ہو تو اسے اس حوالے سے استنبول سے زیادہ تاریخی مقامات برسا میں مل جاتے ہیں جس میں سر فہرست ہے سلطان بایزید اول کی قائم کردہ 'اولو جامی' یا 'عظیم الشان مسجد' ہے۔ اس کے علاوہ یلدرم بازار، کوزہ خان، امیر خان، مرادیہ مسجد اور خداوندگار مسجد سر فہرست ہیں۔
وقت کی قلت کے باعث برسا کی اکثر جگہیں ہم نہیں دیکھ سکے لیکن اولو جامی کہ کشادہ صحن میں بیٹھ کر جو مزہ جمعہ پڑھنے کا آیا، اچھی سے اچھی مسجد میں بھی وہ تسکین نہیں ملی۔ ایسا لگتا تھا کہ جمعہ کیلیے پورا شہر امڈ آیا ہو، کوئی دھکم پیل نہیں، ضد بحث نہیں، جسے جیسے جگہ ملی بیٹھ گیا، مکمل خاموشی سے خطبہ جمعہ سنا، سنتیں ادا کیں فرض ادا کیئے اور چلتے بنے۔ ہم چونکہ جلدی میں تھے لہٰذا برسا شہر کی ہواؤں سے اس وعدے کہ ساتھ رخصت مانگی کہ اگلی دفعہ، باِذن اللہ ، پورا برسا دیکھے بغیر کہیں نہیں جایئنگے ۔
سووت برسا سے مزید ڈیڑھ دو گھنٹے کی دوری پر ہے، یوں تو فاصلہ سو سوا سو کلومیٹر کا ہے لیکن تقریباً اسی کلومیٹر جنوب مشرقی سمت میں ڈی 200 موٹروے پر سفر کریئے تو 'مراد ڈیرے' کے آس پاس سے چڑھائی شروع ہوجاتی ہے، ڈی 200 کے 'بوزویوک' انٹر چینج سے بایئں ہاتھ مڑیئے تو سامنے ایک پتلی سی روڈ پہاڑوں میں جاتی غائب ہوجاتی ہے، آس پاس چھوٹے چھوٹے پسماندہ گھر بنے ہوئے ہیں، کسی کا دروازہ لٹک رہا ہے، کسی کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی ہے، کہیں خالی چٹیل میدان ہے جس پہ تاحد نگاہ برف ہی برف بکھری پڑی ہے۔ برفانی پہاڑ پر لہراتی، منڈلاتی بل کھاتی اس سڑک اور اس کی راہداری میں تاریخ کے بیش بہا راز چھپے ہوئے ہیں، اس کے محافظ جبال اس راہداری پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، اور اسی سڑک پر میں اور سعد بھائ احسن بھائی کی ظریفانہ حس سے محظوظ ہوتے ہوئے مسلسل جانب منزل گامزن ہیں۔ کاش کہ میں ان پہاڑوں کی سرگوشیاں سن سکتا، صدہا سال سے ہوا، برف، بارش اور کڑی دھوپ سے متاثر ہونے والے پتھروں سے بات کرسکتا، پوچھ سکتا، یا حال دل بتا سکتا۔
جیسے جیسے منزل قریب پہنچتی جارہی ہے گاڑی کی رفتار بھی بڑھتی جارہی ہے، دو ایک بار اللہ کا خاص کرم ہوا، لیکن کانٹا ابھی بھی نیچے نہیں آیا۔۔۔ بالاخر احسن بھائی کو ٹوکنا ہی پڑا ۔۔۔۔'میرے بھائی ، آپ گاڑی ذرا آرام سے چلایئں جو نکل گیا آگے اسے جانے دیں-'

اور بالاخر منزل مقصود پر پہنچ گئے۔

'ارطغرل غازی' کا مقبرہ اور ان کے قریبی ساتھیوں، بیویوں، بھایئوں کے مدفن بھی انہی کے ساتھ واقع ہیں۔ ہاں البتہ یقین سے کہنا ذرا مشکل ہے، کیونکہ ہمارے احسن بھائی نے ہمیں بتایا تھا کہ ترکی میں پچھلے دور میں ایک شدید زلزلہ آیا تھا جس کی باعث اکثر و بیشتر مقامات ضائع ہوگئے تھے یا شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے تھے۔
'بے' کے مزار کے باہر ایک کافی اونچی داخلی محراب ہے اور اس کے دونوں جانب پانی کے نلکے لگے ہیں اور ترک زبان میں، فارسی رسم الخط میں، قصائد لکھے ہیں (جس کا ایک لفظ ہمیں پلے نہیں پڑا)۔ محراب سے گزریئے تو سامنے سوختہ حالت میں 'حلیمہ سلطان کی قبر ہے، وہاں سے ذرا آگے بڑھیں تو دو لمبے لمبے چاق و چوبند 'الپ' مزار کے داخلی دروازے پر پہرہ دے رہے ہیں، دروازہ کھول کر داخل ہوں تو 'بے' کی قبر کی داخلی محراب آتی ہے، وہاں بھی دو 'الپ' سلامی کے لیے ہمہ تن موجود رہتے ہیں۔ قبر کو کالی چادر جس پہ قرانی آیات کشیدہ کی ہوئی ہیں، سے ڈھانپا گیا ہے جب کہ سرہانے پر ایک ترک پگڑی رکھی ہوئی ہے۔ اور قبر کہ سرہانے کی طرف قبیلہ قائی اور موجودہبترکی ریاست کے لال جھنڈے آویزاں ہیں۔ اسی کے ساتھ، قبر کی چاروں طرف خاک سوڈان، قبرص، بلغار، تیونس، صقلیہ، عربستان وغیرہ کے نمون شیشیوں میں بند کر کہ سجائے گئے ہیں۔ قبر کی بایئں جانب تمام ترک ریاستیں بشمول'ترک ریاست شمالی قبرص' جھنڈے آویزاں کیے گئے ہیں اور پوری عمارت کو اندر سے پھول بوٹوں، قرانی آیات اور خلفاء راشدین کہ ناموں سے سجایا گیا ہے۔ مزار کہ باہر تین باغات میں ان کے قریبی دوست اور جانثار الپ 'ترگت الپ'، 'بھائی دندار'، 'عبدالرحمان الپ'، 'بیٹا گندوز' وغیرہ کی مقابر ہیں۔ ان کے چھوٹے بیٹے غازی عثمان کی قبر کا کتبہ بھی انہیں کی قبر کے احاطہ میں موجود ہے۔ مقبرے کے باہر ایک میدان بنایا گیا ہے جہاں تماش بینوں کے بیٹھنے کا پورا انتظام ہے، غالبان جشن نوروز پہ وہاں گھڑ سواری وغیرہ کے مقابلے ہوتے ہیں۔
ہم تھوڑی دیر تو یونہی ادھر ادھر احاطہ قبر میں گھومتے رہے، ٹامک ٹویئاں مارتے رہے، اس دوران جو قلبی سکون کی کیفیت حاصل تھی اس کا بیان ممکن نہیں۔ شاید میرے ترکی کے سفر کا اصل مقصد بھی 'ارطغرل بے' کی قبر پر حاضری تھا، جو بالاخر پورا ہوچکا تھا۔
گذرتا ہوا وقت، اور بڑھتی ہوئی ٹھنڈک اس احساس میں نمایاں پختگی پیدا کر رہے تھے کہ چاہت کے باوجود اب ہمیں چلنا چاہیے ۔ چناچہ بوجھل دل لیکن گرمئی احساس اور مضبوط ارادے کے ساتھ ساتھ اس دعا سے کہ اللہ امت مسلمہ کے اندر ایک اور پہاڑوں کا بیٹا، ایک اور سائبان، ایک اور 'ارطغرل بے' ہم میں سے پیدا کرے جو امت مسلمہ کو پستیوں سے نکال کر اوج ثریا تک پہنچائے، ہم نے واپسی کا قصد کیا۔ اللہم امین

Comments

Click here to post a comment