قصور کے انتہائی المناک سانحے کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ حسب معمول، بحیثیت قوم، اس بار بھی ہم نے اس تلخ تجربے سے کچھ بھی نہ سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے. کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل کو محض قوم لوط کا قصہ سنا کر قائل کر لیں گے؟ میرے محترم ایک بار پھر سوچیے. نعوذباللہ مجھے قوم لوط کے عبرت ناک انجام کے ذکر کی تاثیر سے ہرگز انکار نہیں، لیکن آپ شاید وہ آیت بھول گئے ہیں جس کے مطابق اسی کتاب ہدایات سے کچھ بدنصیب لوگ گمراہی اخذ کرتے ہیں.
اگر آپ نے اپنی اولاد کی ابتدائی تربیت توحید اور تقوی کی بنیادوں پر کی ہے تو پھر تو آپ کو مبارک ہو. لیکن اگر آپ کے بچے سیکولر سکولوں سے تربیت حاصل کرتے ہیں اور ٹی وی اور انٹرنیٹ انھیں اسی طرح بلا روک ٹوک دستیاب ہے جیسے ٹھنڈا پانی،
تو میرے محترم،
رکیے،
ذرا توقف کیجیے،
اور پھر سوچیے،
بلکہ بار بار سوچیے،
کہ آپ کے بچے کے ذہن میں درست اور غلط کا پیمانہ کیا ہے؟
کھرے اور کھوٹے میں تمیز کے لیے اس کی کسوٹی کیا ہے؟
وہ کون سا پیراڈائم ہے جسے وہ فالو کرتا ہے؟
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سیکولر سکولز قران و حدیث سے حق و باطل کی پہچان کرواتے ہوں گے، تو برا نہ مانیے گا، آپ کو خود دوبارہ کسی سکول میں داخلے کی ضرورت ہے. جناب آج کل سائنس ہی معیار ہے، وہی کرائی ٹیریا، وہی پیمانہ. آپ لاکھ کہیں کہ سائنس تو دین کی بہتر تفہیم کا آلہ ہے، لیکن یہ آپ کا ذاتی خیال تو ہو سکتا ہے، عملی حقیقت اس سے کوسوں دور ہے. جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں تو اس قسم کے مسائل کو انگریزی محاورے کے مطابق قالین کے نیچے دبا دینے کا رواج ہے، لیکن جن مغربی آقاؤں کے اشاروں پر ہمارے بچوں کی ذہن سازی ہو رہی ہے اور 'مذہبیت' کے مخصوص سانچے اور نیو اسلامی سیکولرز سائے میں لبرل ازم کی جس راہ پر انھیں گامزن کیا جا رہا ہے، وہاں جواز ہی جواز ہے اور پابندی کا تصور مفقود ہوتا چلا جا رہا ہے.
ناپسندیدہ حمل؟ اسقاط کا جواز
شادی کی ذمہ داری؟ "پارٹنر" کا جواز
ہم جنس سے رغبت؟ اس سے شادی کا جواز
اور ان سارے کاموں کے جائز ہونے کے "فتاوی" باقاعدہ سائنس کے مدرسے سے آتے ہیں. آپ اسے سائنس کا غلط استعمال کہیں یا کچھ اور، پر حقیقت یہی ہے کہ آپ کی تمام کوششوں کے علی الرغم، سائنس کو مذہب کے مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے. بلکہ خاطر جمع رکھیں، عنقریب نابالغ بچوں سے جنسی تعلق (Pedophilia) اور لاعلاج امراض میں آسان موت (Euthanasia) کے جواز کا فتوی بھی انھی سائنسی مفتیان کے ہاں سے آیا ہی چاہتا ہے.
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنسی تلبیسات کا سائنسی رد کیا جائے. مثلاً اگر آپ کسی ہم جنس میں جنسی کشش پاتے ہیں تو سائنسی اعتبار سے اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں. یہ "انفرادیت" (جی بالکل، اس کو" نقص" کہنے کی اب اجازت نہیں) آپ میں پیدائشی طور پر موجود ہے. اور اسی لیے اب تو ہم جنس پرستی کے جین کی تلاش جاری ہے تاکہ اس "ہائی پو تھیسس"(hypothesis) کو ناقابل تردید حقیقت کا روپ دیا جا سکے. لیکن برا ہو گھر کے بھیدی کا جس نے لنکا ہی ڈھا دی. دنیا کی بہترین میڈیکل یونیورسٹی "جانز ہاپکنز" کے، علم جنسیات میں 40 سالہ تجربے کے حامل سائیکاٹرسٹ پروفیسر پال کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستی ماحول اور تربیت کا نتیجہ ہے اور یہ کہ "گے جین"(Gay Gene) نامی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں.
اپنے انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں انھوں نے ایک ریسرچ کے حوالے سے بتایا کہ شہر میں رہنے والے مردوں میں ہم جنس پرستی کا امکان دیہاتی مرد کی نسبت 4 گنا زیادہ ہے اور اسی طرح کالج کی لڑکیوں میں ہم جنس پرست ہونے کے چانسز دوسری لڑکیوں سے زیادہ ہیں. اس کو پیدائشی طور پر "لیفٹ ہینڈڈ" ہونے پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے. انہوں نے مزید کہا کہ 50سال پہلے جس ہم جنس پرستی کو جرم سمجھا جاتا تھا، اب اسی کے فروغ کا یہ عالم ہے کہ انھیں شادی کی قانونی اجازت حاصل ہے اور اس عمل کو برا کہنے والوں کو متعصب سمجھا جاتا ہے. یہ چیز معاشرے کی بےجا چھوٹ کے رجحان کی عکاس ہے نہ کہ قبل از پیدائش کسی بائیولاجیکل تبدیلی کی. مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ہر قسم کے رویے اور طرز عمل کو بلا سوچے سمجھے سند جواز عطا کرنا شروع کر دی ہے جسکے نتائج اب بھگت رہے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ پہلے ایک شخص پر معاشرے کی طرف سے دباؤ ہوتا تھا کہ وہ شادی کرے اور خاندان کی پرورش کرے. پر لبرل" تحریکِ جواز" نے فرائیڈ کے فلسفے کی آڑ میں "محبت" اور "ہوس" کو آپس میں گڈمڈ کر کے اس فطری طرز عمل کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے. اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ آپ
"مجھے اپنی ماں سے محبت ہے"
اور
"مجھے اپنی ماں کی ہوس ہے"
میں کوئی فرق نہ کر پائیں.
حالانکہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے.
اسی لیے، پروفیسر پال کے مطابق، ہم جنس پرستی "محبت" نہیں "ہوس" ہے، اور وہ بھی "ایب نارمل"...!!!
اور یہ حقیقت ہے کہ اس لبرل تحریک کی شیطانی منزل ہی یہی ہے کہ
.. خونی رشتے بھی آپ کی "ہوس" سے، "محبت" کے نام پر "محفوظ" نہ رہیں.
.. خاندان کے ادارے کو نیست و نابود کر دیا جائے.
.. "میری زندگی، میری مرضی" اور "تمھیں کیا؟" کے فلسفے کو فروغ دیا جائے.
اور یوں انسان کو رب العالمین کی عبدیت کے مقام "احسن تقویم" سے گرا کر نفس پرستی کے "اسفل السافلین" میں گرا دیا جائے..
تبصرہ لکھیے