ہوم << عصرحاضر اور علماء کی ذمہ داریاں - سید وجاہت

عصرحاضر اور علماء کی ذمہ داریاں - سید وجاہت

(RNS1-dec22) The students of Institute of Islamic Sciences study during a library class. For use with RNS-PAKISTAN-MADRASSA, transmitted on December 22, 2014, Religion News Service photo by Naveed Ahmad.

سید وجاہت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر تمام مخلوقات میں سے چن کر اپنی نیابت اور زمین پر نظام خلافت کے قیام کے لیے منتخب فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ''ولقد کرمنا بنی اٰدم وحملنٰھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبت وفضلناھم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلا'' ترجمہ:اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور انہیں خشکی اور تری دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا اور ان کو اپنی بہت سے مخلوقات پر فضیلت دی ۔انسان کو زمین پر خلافت کی ذمہ داری سونپنا، اس کو مختلف مخلوقات پر فضیلت دینا درحقیقت یہ علم کا ثمرہ ہے، علم خدا تعالیٰ کی صفت اعلیٰ ہے، اسی لیے زمین پر خلافت و نیابت کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی جو اس صفت علم میں دیگر مخلوقات سے ممتاز حیثیت پر فائز ہیں۔
اہل علم کی فضیلت ان کا مقام و مرتبے کے بیان میں قرآن کی متعدد آیات اور بےشمار احادیث وارد ہوئی ہیں، کبھی ان کے سونے کو جہلاء کی عبادت پر فضیلت دی گئی تو کبھی انہیں انبیاء کا وارث بتلایا گیا، کبھی برملا اعلان کردیا گیا کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔ جس قدر اہل علم کا مقام بلند ہے اسی مرتبہ کے لحاظ سے ان پر ذمہ داریوں کا بھی عظیم بوجھ ہے، اگر یوں کہہ دیا جائے کہ امت کی کشتی کے ناخدا یہی حضرات علمائے کرام ہیں تو بےجا نہیں ہوگا۔
اس وقت امت مسلمہ کو بڑے کٹھن حالات کا سامناہے، ایک طرف کفار ممالک کی مجتمع ہوکر عالم اسلام پر حملہ آور ہونے اور مسلمان ممالک پر وحشیانہ مظالم کی خون آلود داستان ہے تو دوسری طرف فکری ارتداد اور تشکیک جیسے مہلک امراض ہیں جو امت مسلمہ کے وجود میں سرطان کی طرح پھیلائے جارہے ہیں. امت کے نوجوان اس وقت الحاد اور تشکیک جیسے مسائل کا شکار ہیں، اس نازک وقت میں علمائے امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اہم مسائل کی طرف توجہ دیں. بدقسمتی سے اس وقت ایک بہت بڑے طبقے کی صلاحیت فروعی مسائل اور آپسی جھگڑوں میں لگ رہی ہے، فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین جیسے مسائل میں الجھنا اور آپسی افتراق کا یہ وقت بالکل متحمل نہیں۔ فروعی مسائل میں یوں الجھنے سے نوجوان نسل علماء سے دور ہو رہی ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ علماء خاص کر نوجوان علماء غور و فکر کریں اور سوچیں کہ وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر امت کے لیے نفع مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک عالم کی خوبصورتی اس کے لباس، پوشاک اور سواری میں نہیں بلکہ ایک عالم کا حسن وجمال اس کی سادگی، تقوی اور اخلاص میں ہے. یہ وہ ہتھیار ہیں جس کے بغیر وہ کوئی معرکہ سر نہیں کرسکتا ۔
حالات اور ماحول سے بے خبری ٹھیک نہیں. اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ دین خانقاہوں، مساجد اور مدارس تک محدود ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ شریعت اسلامی میں روز قیامت تک آنے والے تمام مسائل و مشکلات کا حل موجود ہے. یاد رکھیے! اسلامی نظام اس کی تعلیمات کوئی ناقص و محدود نہیں کہ جس پر عمل پیرا ہونے کے لیے معاشرے سے کٹنا پڑے اور رہبانیت کی طرف جانا پڑے ، ہمارے اسلاف نے سلطنتیں بنائیں، قاضی القضاۃ بنے، عہدے حاصل کیے اور ساتھ ساتھ اپنے فرائض و واجبات بلکہ مستحبات کی رعایت بھی رکھی، وہ بیک وقت گورنری کے فرائض بھی انجام دیتے اور خلق خدا کے اخلاق و اعمال کی بھی ایک داعی کی حیثیت سے اصلاح کرتے۔ عصر حاضر میں علماء کا معاشرے سے کٹنا اور مساجد اور خانقاہوں تک محدود ہوجانا امت کے لیے خصوصا نوجوان نسل کے لیے انتہائی مضر ہے. ایک ماہر طبیب وہی ہے جو مرض کی تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہو، علماء اس امت کے روحانی طبیب ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نسل نو اس وقت کن روحانی امراض کا شکار ہے، وہ تشکیک، الحاد، بے دینی اور مغربی تہذیب سے متاثر ہیں، جب تک علماء اور عوام میں فاصلے کم نہیں ہوتے اس وقت تک معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔
فکری یلغار کا علمی محاسبہ
اس وقت عالم اسلام پر ایک طرف تومغرب کی عسکری یلغار ہے، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے عالیشان شہر قبرستان کا منظر پیش کررہے ہیں. عراق، افغانستان، شام، لبنان، یمن ، فلسطین، کشمیر، برما کتنے اسلامی ممالک ہیں جو کفار کے نرغے میں ہیں، اور جہاں کشت و خون کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف ان اسلامی ممالک میں مغرب کی طرف سے فکری یلغار ہے، جس کے نتیجے میں مسلمان گھرانوں میں خصوصا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ارتداد کو عام کیا جارہا ہے. اگر نوجوان نسل کی دینی تربیت کا انتظام نہیں کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ وہ اسلام چھوڑ کر کفر والحاد کی طرف نکل جائے. یہ بات تو طے ہے کہ اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے، اسلام نہ ختم ہوسکتا ہے اور نہ مغلوب ہوسکتا ہے. اللہ کے رسول نے فرمایا :الاسلام یعلوا ولا یُعلیٰ (اسلام مغلوب نہیں بلکہ غالب ہوگا) نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : لا یزال اللہ یغرس فی ھذا الدین غرسایستعملھم فیہ بطاعتہ الی یوم القیامۃ (اللہ تعالیٰ قیامت تک دین اسلام میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو اس کی اطاعت کرتے رہیں گے۔ (ابن ماجہ) اب علماء جو انبیاء کے وارث اور نائب ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عصرحاضر کے اس عظیم فتنے کے مقابلے کے لیے تیار ہوں، وہ اس فکری یلغار کا علمی محاسبہ کریں، وہ مغرب اور دشمنان اسلام کے اعتراضات کا علمی جائزہ لے کر ان کے دجل کو امت پر آشکارا کریں. یہ اس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے علمائے وقت کے لیے کہ وہ امت کو اس فکری گمراہی سے بچائیں۔
اصل مسئلہ ارتداد کا مقابلہ ہے
مفکراسلام سید ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ علماء سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بھائی! اگر آپ کو ترمذی کی شرح لکھنی ہو اور مشکوۃ کی شرح لکھنی ہو اور کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرنا ہو، اس کو آپ اردو میں لکھیے یا عربی میں لکھیے، اگر آپ کو عوام میں باتیں کرنی ہوں تو عوام کی سطح پر بات کیجیے، میں آپ کو صاف کہتا ہوں کہ ہندوستان، پاکستان میں بہت کام ہوچکا ہے، کتب حدیث کی شرحیں لکھی جاچکی ہیں، مذہب حنفی کو حدیث کے مطابق ثابت کیا جاچکا ہے، اس کے لیے نئی بڑی کوشش کی ضرورت نہیں ہے. حضرت مولانا انور شاہ صاحب اور حضرت مولانا ظہیر احسن نیموی یہ سب کام کرچکے ہیں، انہوں نے ثابت کردیا کہ یہ دعوی ٰ کہ حنفی حدیث کے خلاف کہتے ہیں، غلط ہے، اور ان سے پہلے طحاوی نے معانی الاثار میں، زیلعی نے احادیث ہدایہ کی تخریج نصب الرایۃ میں اور دوسرے حضرات نے بھی یہ کام بڑے اعلیٰ پیمانے پر کیا ہے. اب نیا میدان ہے جس کی طرف آپ کو توجہ کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ عوام آپ کے اثر سے نکلنے نہ پائیں، وہ آپ کو یہ نہ سمجھیں کہ آپ اس ملک میں رہ کر کے بھی غیر ملکی اور پردیسی ہیں، آپ کو تو اس ملک کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنا چاہیے ۔ یقینا سوچنے اور سمجھنےکی بات ہے کہ امت کے نوجوان الحاد اور تشکیک جیسے مہلک روحانی امراض کا شکار ہوں اور علماء فروعی مسائل پر بحث و تکرار میں مصروف ہوں.

Comments

Click here to post a comment