ہوم << کشمیر الیکشن: سیاسی چورن پھانکیں لیکن۔ ۔ ۔ !!! - سید بدر سعید

کشمیر الیکشن: سیاسی چورن پھانکیں لیکن۔ ۔ ۔ !!! - سید بدر سعید

badr saeeddکشمیر الیکشن فوج کی نگرانی میں ہوئے لہٰذا شکست کے بعد بھی عمران خان مسلم لیگ ن کو مبارک باد دینے پر مجبور تھے۔ ہمارے یہاں اکثر سینئر تجزیہ نگار بھی خواہشات کے بل پر تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ چند ایک البتہ حقائق کو مد نظر رکھتے ہیں ۔ مجھے سینئر اینکرز کی نسبت نوجوان صحافی زیادہ جان مارتے نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کی زیادہ تر محنت انہی اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔
کشمیر میں جو انتخابی نتائج سامنے آئے یہ پہلے سے متوقع تھے۔ یہ بات بھی شاید بہت سے دوست قبول نہ کریں کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر ہونے کا اعزاز کھو بیٹھی تھی۔ یہ اعزاز مسلم لیگ ن نے 2013 میں اپنے نام کرلیا تھا ۔ ملک میں 2013ء کے نتائج کی رو سے مسلم لیگ ن پہلے، پیپلز پارٹی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر تھی۔ پیپلز پارٹی نے کسی حد تک اس بات کو مد نظر رکھ کر اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کی اور پنجاب میں کافی حد تک تحریک انصاف سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔ بنیادی طور پر یہ کوشش نمبر ون بننے کی ہے۔ تحریک انصاف کے دوستوں نے حقائق کو نظر انداز کر دیا اور تیسری قوت یا تیسری بڑی جماعت کا نشہ چڑھالیا۔
تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں دوسری اور تیسری بڑی جماعتیں پہلی بڑی جماعت سے بہت پیچھے تھیں۔ عمران خان 4 حلقوں کو روتے رہے لیکن سچ یہ تھا کہ 50 حلقوں کے نتائج تحریک انصاف کے پاس آ جاتے اور ن لیگ کی 50 سیٹیں چلی جاتیں تب بھی حکومت اسی کے پاس تھی۔
ذرا ایک نظر انتخابی رزلٹ کو دیکھئے ۔ 2013 الیکشن میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پاس 188 سیٹیں ہیں۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی ہے جس کے پاس مقابلے میں صرف 46 سیٹیں ہیں ۔ تیسرے نمبر پر تحریک انصاف ہے جس کے پاس پورے ملک سے صرف 34 ایم این اے ہیں۔ مقابلہ 188 اور 34 کا ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مل کر بھی 80 سیٹیں بنا پاتے ہیں جبکہ اس صورت میں بھی ن لیگ کے پاس 108 سیٹیں زیادہ ہیں۔ یاد رہے کہ انتخابات سے قبل حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور سرکاری دھاندلی عموما حکمران جماعت کے حق میں ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے سیٹ اپ بنا جاتی ہے۔ علاقائی دھاندلی میں ہر جماعت ملوث ہوتی ہے کیونکہ جہاں جس کے امیدوار کا پلا بھاری ہو وہ ذاتی حیثیت میں دھاندلی کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ عمران خان کو معلوم تھا کہ وہ 34 ایم این ایز کے ساتھ قومی اسمبلی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ نہ اپوزیشن لیڈر بن سکتے تھے اور نہ ہی کوئی بل منظور کروانے کی طاقت رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے ابتدا ہی میں پارلیمنٹ سے باہر گیم کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ تیسری وقت اور ایمپائر کی انگلی کے بل پر وزیر اعظم بننے کے چکر میں نکل کھڑے ہوئے، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ان کے اس فیصلے کو سنجیدہ حلقوں نے قبول نہیں کیا۔۔۔
اب ایک نظر باقی صوبوں پر بھی ڈال لیں۔ تحریک انصاف کے پاس سب سے زیادہ نشستیں کے پی کے میں ہیں۔ وہاں وہ لگ بھگ 121 سیٹیوں میں سے 60 سیٹیں رکھتے ہیں۔ یہاں دوسری بڑی صوبائی جماعت جمعیت علمائے اسلام ہے جس کے پاس 17 سیٹیں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس 15 ، جماعت اسلامی کے پاس 7 اور پیپلز پارٹی کے پاس 6 سیٹیں ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے پاس 90 سیٹیں ہیں، ایم کیو ایم دوسری بڑی جماعت ہے جس کے پاس 49 سیٹیں ہیں، یہاں تحریک انصاف کے پاس پورے صوبے میں محض 4 سیٹیں ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس 8 سیٹیں ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے پاس 310 سیٹیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں صوبے کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف کے پاس صرف 31 ایم پی اے ہیں۔ یعنی پنجاب میں بھی تحریک انصاف 310 کے مقابلے میں صرف 31 سیٹوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسے اگلے الیکشن میں پنجاب سنبھالنے اور مسلم لیگ ن کی جگہ آنے کے لیے 279 سیٹیں مزید درکار ہیں، لیکن پنجاب میں تحریک انصاف کی نسبت پیپلز پارٹی تیزی سے اپنی جگہ بنانے کے لیے متحرک نظر آتی ہے۔
بلوچستان میں بدقسمتی سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کے پاس ایک بھی سیٹ نہیں ہے۔ یہاں مسلم لیگ کے پاس 20 سیٹیں ہیں۔ یہی وہ پوائنٹ ہے جس کی بنیاد پر کہا تھا کہ پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے بعد چاروں صوبوں کی زنجیر ہونے کا اعزاز کھو بیٹھی ہے جبکہ مسلم لیگ ن یہ اعزاز اپنے نام کر چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کی نمایندگی چاروں صوبوں میں ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تین صوبوں تک محدود ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں اب بھی بلوچستان میں دلچسپی نہیں دکھا رہیں۔ ۔۔ مختصر کریں تو قومی اسمبلی میں پہلی اور دوسری جماعت کے درمیان 142 سیٹوں کا فرق ہے۔ سندھ میں پہلی دونوں جماعتوں کے درمیان 41 سیٹوں کا فرق ہے۔ یہ جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں۔ کے پی کے میں تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان 43 سیٹوں کا فرق ہے جبکہ تحریک انصاف و جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن و جمعیت علمائے اسلام کے اتحاد کے درمیان بھی 35 سیٹوں کا فرق موجود ہے۔ پنجاب میں پہلی دونوں جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان 279 سیٹوں کا فرق موجود ہے جبکہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی 20 سیٹیں ہیں، لیکن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی سرے سے کوئی سیٹ نہیں ہے۔ اس صورت حال سے خود ہی واضح ہو جاتا ہے کہ فی الوقت مقبولیت کا ہما کس کے سر بیٹھا ہوا ہے۔
یہی صورت حال کشمیر میں بھی نظر آئی۔ یہاں مسلم لیگ ن کی 32 سیٹیں ہیں جبکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو دو دو سیٹیں ملیں۔یہاں بھی پہلی اور دوسری جماعت کے درمیان فرق 29 سیٹیوں کا ہے۔ کشمیر الیکشن نے یہ بھی واضح کردیا کہ خان صاحب کی دھرنا پالیسی درست نہیں ہے اور اس سے ان کا ووٹ بنک کم ہوا ہے۔ ابھی انتخابات میں کافی وقت باقی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان اگلے انتخابات میں نمبر ون بننے کا مقابلہ ہوگا اور دونوں جماعتیں یہ کوشش کریں گی کہ ن لیگ کی برتری ختم کردیں۔ اس کا سب سے بہتر راستہ عوامی خدمت ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ بدل دیا تو تاج اس کے سر پر پورا آئے گا۔ اگر تحریک انصاف نے کے پی کے بدل دیا تو اسے نمبر ون بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔
عوام الزامات اور دھرنا سیاست کو مسترد کرچکے ہیں۔ اگر آپ کے پاس اپنے ہم خیال لوگ ہی سوشل میڈیا پر ایڈ ہیں تو آپ کو اپنی من پسند دنیا نظر آئے گی لیکن سچ یہ ہے کہ ووٹرز کی اکثریت سوشل میڈیا پر نہیں ہے۔ گائوں دیہات کے ووٹ بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے پرویز مشرف بھی دھوکا کھاچکے ہیں لہٰذا اب ہر سیاسی جماعت کو اگلے الیکشن تک کی مدت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ کے پی کے میں میٹرو سروس شروع کرنے کے باوجود یہ الزام یا کریڈیٹ ن لیگ کو ہی ملے گا کہ میٹرو بس اس نے چلائی حالانکہ یہ منصوبہ ق لیگ کے دور میں تیار ہو رہا تھا لیکن وہ اپنے دور حکومت میں شروع نہ کرواسکی۔ اسی طرح اگر سندھ اور کے پی کے میں کوئی بڑا کام نہ ہو سکا اور مسلم لیگ ن میٹرو ٹرین چلانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر اسے ایک بڑا مارجن مل جائے گا۔ سچ کہوں تو میٹرو ٹرین کی راہ میں حائل رکاوٹیں مصنوعی ہیں۔ اس پر ڈھول بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ن لیگ اپنی پالیسی کے تحت یہ منصوبہ الیکشن سے کچھ پہلے ہی مکمل کرے گی تاکہ ووٹرز کی آنکھوں میں اترنے والی حیرت کو کیش کرواسکے ۔ باقی آپ کے یا میرے تجزیے اس کے لیے کوئی معانی نہیں رکھتے۔مسلم لیگ ن کو کشمیر الیکشن مین کامیاب ہونا ہی تھا کیونکہ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اور بلوچستان میں وہ پہلے ہی نمبر دو سے بہت آگے کھڑی تھی۔
یہ زمینی حقائق سوشل میڈیا کے تجزیوں سے زیادہ اہم تھا کہ عوامی مقبولیت ابھی ن لیگ کے ہاتھ میں ہے، اوپر سے انتخابات سے قبل خان صاحب نے ایک بار پھر فوج کو دعوت دے کر اپنی ساکھ خراب کرلی تھی۔ ساسی راہنمائوں کا کھٹا چورن ضرور پھانکیں، لیکن سوشل میڈیا پر اپنے پاس ایڈ ہم خیال لوگوں کے کمنٹس کو حرف آخر نہ جانیں۔ خواب سبھی بیچ رہے ہیں لیکن اعداد و شمار پر بھی نظر رکھیں۔ مسلم لیگ ن مقبولیت کھو رہی ہے تب بھی اسے 188 سیٹوں سے 46 سیٹوں تک لانے کے لیے اتنا ہی وقت درکار ہوگا جتنا اگلے انتخابات تک ہے ۔ اس سے قبل کسی قسم کی مہم جوئی اسے نقصان سے زیادہ وہی فائدہ پہنچائے گی جو مظلومیت کا ووٹ ملنے سے ہوتا ہے۔ ہماری خواہشات اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق پر نگاہ رکھنا بھی لازم ہے۔ اگر انہیں نظر انداز کردیا جائے تو مورخ بتاتا ہے کہ مخالف لشکر احد کے پہاڑ کے پیچھے سے حملہ آور ہوجاتا ہے اور لمحوں میں جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ دیتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment