ہوم << ڈیڑھ گز کے کپڑے سے خوف زدہ-حماد یونس

ڈیڑھ گز کے کپڑے سے خوف زدہ-حماد یونس

یہ یکم جولائی 2009 کی بات ہے ۔ جرمنی کی عدالت میں ایک مقدمے کی کاروائی اور سماعت جاری ہے ۔ مغربی دنیا اپنے انصاف کے نظام اور فرد کے تحفظ کے حوالے سے بہت نازاں ہے ۔ اس بات کا بہت پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یورپ اور شمالی امریکہ جیسے مہذب ممالک ، نہایت روشن خیال اور کشادہ دل ہیں۔ جبکہ یہ نفرتیں ، عصبیتیں ، دشنام طرازی اور اس قبیل کی برائیاں صرف پسماندہ تیسری دنیا کو لاحق امراض ہیں۔

خیر، بات ہو رہی ہے یکم جولائی 2009 کی، جب جرمنی کی عدالت میں الیکس وینز نامی ایک شخص پر الزامات ہیں کہ انہوں نے کسی خاتون پر بلا اشتعال سرِ عام نفرت انگیز کلمات اور گالیوں کی بوچھاڑ کی ہے۔ ان خاتون کے لباس ، عقائد اور نظریات کے حوالے سے توہین آمیز ریمارکس دیے ہیں۔ وہاں موجود راہگیروں نے الیکس وینز کو سمجھانے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنے مغلظات کا رخ ہجوم کی جانب موڑ دیا ۔ یورپ میں کسی بھی انسان کی توہین کرنا ، نسل پرستانہ یا عقائد کے حوالے سے نفرت انگیز بیانات دینا سنگین جرائم میں شامل ہے اور اس کی باقاعدہ سزائیں مقرر ہیں۔

اس مقدمے کی مدعیہ وہی خاتون ہیں، جن کی بلا سبب توہین الیکس وینز نے کی تھی۔ ان خاتون کا نام مروہ شربینی ہے جو 31 سالہ ، مصری نژاد جرمن اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری ہیں، جنہوں نے میڈیسن کی سند حاصل کر رکھی ہے۔ وہ جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں اپنے شوہر میاں علوی علی عکاظ اور اپنے ننھے بیٹے مصطفیٰ کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں ۔
وہ ایک با عمل مسلمان خاتون ہیں جنہیں ادراک ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 میں واضح پردے کا حکم دیا ہے جبکہ سورہ نور تو پردے اور حجاب کے احکامات سے لبریز ہے ۔ وہ صرف ان دینی احکامات کی پابندی کر رہی ہیں اور ان کی ذات سے کسی دوسرے شخص کو کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہنچ رہی ۔ ان کو اپنے عقائد اور نظریات کی پابندی کرنے کی آزادی اقوام متحدہ کا عالمی قانون اور جرمنی کے ملکی قوانین نے دے رکھی ہے ۔

عدالت نے مروہ سے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کا حکم دیا اور مروہ واضح طور پہ بتانے لگیں کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ بازار میں جا رہی تھیں ، انہوں نے حجاب پہن رکھا تھا کہ اچانک الیکس وینز نے ان پر مغلظات کی بوچھاڑ کر دی ۔ ان کے حوالے سے انتہائی قبیح اور نسل پرستی پہ مبنی ریمارکس پاس کیے گئے۔
واضح طور پہ یہاں الیکس وینز ہتکِ عزت کے مجرم ہیں اور مروہ شربینی انصاف کی متلاشی ایک مظلومہ ہیں۔

مگر اچانک الیکس وینز آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے ایک چاقو سے مروہ پر حملہ کر دیا۔ ان پر پے در پے مسلسل چاقو کے وار کیے۔ مروہ کے شوہر اس عدالتی کارروائی میں موجود تھے ، انہوں نے اپنی زوجہ کو بچانے کی کوشش کی تو الیکس وینز نے ان پر بھی چاقو کے تین وار کیے۔
جج نے مخصوص ہنگامی الارم بجایا تو پولیس کمرہِ عدالت میں داخل ہوئی ۔ ایک پولیس اہلکار نے (مبینہ طور پر) مجرم پر گولی چلائی جو مروہ کے شوہر، علوی علی عکاظ کو جا لگی، جو بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ مروہ تو چاقو کے واروں کے نتیجے میں موقع پر شہید ہو گئیں ۔ ان کا ننھا بچہ ، مصطفیٰ جو اس دوران عدالت میں ہی موجود تھا، اس سب کاروائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔

اس مجرم ، الیکس وینز کو گرفتار کیا گیا اور عمر قید سنائی گئی۔ مغربی قانون کی روشنی میں فقط چند برس بعد ہی انہوں نے رہا ہو کر دوبارہ سے نفرتوں کی سوداگری کرنا تھی۔
لیکن یہ مخمصہ تو شاید کبھی حل نہ ہو سکے کہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ مہذب ملک کے کمرہِ عدالت میں ایک ملزم ، چاقو سمیت کیسے داخل ہو گیا۔
"اک مُعمّہ ہے ، سلجھنے کا نہ سلجھانے کا"

خیر یہ تو ایک مروہ شربینی کے بہیمانہ قتل کا قصہ تھا، مگر بلا مبالغہ کروڑوں مسلم خواتین مغربی ممالک کی شہری ہیں، جہاں ان کو آئے روز ان نہایت مہذب اور شائستہ روشن خیال مغربی دنیا میں نفرتوں اور عداوتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آخر یہ نہایت طاقت ور ، ترقی یافتہ ممالک ، اس ڈیڑھ گز کے بے ضرر کپڑے سے کیوں ہراساں ہے؟؟؟
شاید اس لیے کہ یہ حجاب آرا خواتین، وہ کھربوں ڈالرز کی کاسمیٹک، فیشن اور بیوٹی انڈسٹری کو روندتی ہوئی گزر جاتی ہیں؟؟؟ یا شاید اس لیے کہ یہ خواتین، مضبوط عقیدے اور اسلام کی عظمتِ رفتہ کی علامت ہیں؟؟؟
جارج ڈبلیو بش جونیئر نے شاید اسی حوالے سے کہا تھا کہ یہ تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ صلیبی جنگ ہے۔ بش نے کہا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسلمانوں نے امریکہ کے خلاف بندوق اٹھائی یا نہیں ، کیونکہ تمام مسلمان اسی قرآن کو پڑھتے ہیں جس میں جہاد کے احکام ہیں، اور انہی رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے پیروکار ہیں جنہوں نے جہاد کیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ مروہ اور ان جیسی کروڑوں خواتین تو جہاد بھی نہیں کر رہیں ، مگر صلیبی جنگ کا عندیہ دیتے مہذب مغربی حکمران یہ کہاں دیکھتے ہیں ؟

حجاب کا یہ خوف اور حجاب سے یہ نفرت صرف مغرب کو لاحق مرض ہی نہیں بلکہ بھارت ، یعنی دنیا کی مبینہ سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت بھی مکمل طور پہ اس مرض کی جکڑ میں ہے۔ بھارت کی متعدد یونی ورسٹیز اور کالجز نے حجاب کے خلاف اقدامات کیے ہیں اور حجاب پہننے والی طالبات کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنے کے لیے بے شمار کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔
دنیا نے جب آزاد دنیا کی ان مسلم خواتین کو ان کے واضح حق سے محروم رکھنے کی ٹھان لی تو مسلم خواتین نے دنیا کو احساس دلانے کے لیے آگے بڑھنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ 2011 سے ہر برس 4 ستمبر کو عالمی یومِ حجاب کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ حجاب آرا مسلم خواتین ہر شعبے میں اپنا نام پیدا کر رہی ہیں اور عزتوں کی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی مسلمانوں کے لیے باعثِ افتخار بن رہی ہیں۔

Comments

Click here to post a comment