یہ سن 1299ء کے اواخر تھے۔ علا الدین خلجی نے کوتوالِ دلّی علا الملک کے مشورے کو رد کرتے ہوئے منگولوں کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ اگر وہ دشمن کا آگے بڑھ کر خود مقابلہ نہیں کرے گا تو اپنے ساتھیوں بلکہ حرم کی نظر میں بھی اُس کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی۔
پھر دلّی کے شمال میں کیلی کے میدان پر ہندوستانی اور منگول افواج آمنے سامنے تھیں۔ ظفر خان دشمن سے لڑنے کے لیے بہت بے چین تھا، قتلغ خواجہ کے طعنے نے اس کے جوش کو مزید بڑھا دیا تھا، جس نے ظفر خان سے یہ کہہ کر لڑنے سے گریز کیا کہ "بادشاہ صرف بادشاہوں سے لڑتے ہیں۔"۔
جنگ کا آغاز ظفر کی پیش قدمی سے ہی ہوا، اس کا دستہ سب سے پہلے آگے بڑھا اور منگولوں پر ٹوٹ پڑا۔ یہ حملہ اتنا زبردست تھا کہ منگولوں کا بایاں بازو مکمل طور پر پسپا ہو گیا۔ ہندوستانی سپاہی اُن کے تعاقب میں دوڑے اور جوش میں اپنے لشکر سے دُور ہوتے چلے گئے۔ اس صورت حال کا پورا فائدہ دیگر منگول دستوں نے اٹھایا۔ وہ گھات لگا کر ظفر خان کے لشکر کی واپسی کے منتظر ہو کر بیٹھ گئے اور جب وہ واپس آئے تو ہر طرف سے گھیر لیے گئے۔ جبکہ ہندوستانی فوج کا کوئی دستہ اُن کی مدد کرنے یا بچانے نہیں آیا۔
یہاں ظفر خان نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ایسا لڑا کہ خود قتلغ خواجہ بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے ظفر خان کو پیشکش کی کہ وہ منگول فوج کا حصہ بن جائے، یہاں اُس کو کہیں زیادہ عزت و احترام ملے گا لیکن ظفر ایک خود دار جرنیل تھا، باوجود اس کے کہ اسے علا الدین اور اُلغ خان سے کمک اور امداد نہیں مل رہی تھی، پھر بھی اُن سے وفاداری کا اعلان کیا اور لڑتے لڑتے اپنی جان دے گیا۔
منگول اس ابتدائی خطرے سے نمٹ تو گئے، لیکن انہیں ہندوستانی لشکر کی طاقت کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا۔ اس لیے رات کی تاریکی میں ہی پسپائی اختیار کر لی اور اپنی سرحدوں پر جا کر ہی دم لیا۔ اس اچانک پسپائی کی اصل وجہ ظفر خان کے خلاف لڑتے ہوئے قتلغ خواجہ کا زخمی ہو جانا تھا اور وہ وطن پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دم توڑ گیا۔
کہتے ہیں ظفر خان کی ہیبت عرصہ دراز تک منگولوں کے دلوں پر طاری رہی۔ جب اُن کا کوئی جانور پانی نہیں پیتا تھا تو وہ محاورتاً کہتے تھے کہ کیا ظفر خان کو دیکھ لیا ہے جو پانی نہیں پیتے؟
اور دلّی بال بال بچ گیا
اس شکست کے بعد منگول کچھ عرصہ تو خاموش بیٹھے رہے، لیکن آخر کب تک؟ 1303ء میں پھر ہندوستان میں تھے۔ اس مرتبہ چغتائی جرنیل نویان طرغی تھا، جس نے دیکھا کہ علا الدین خود چتوڑ کے محاصرے میں مصروف ہے اور شاہی فوج کا ایک حصہ جنوبی ہند میں وارنگل فتح کرنے کی کوشش میں ہے، تو دلّی پر قبضہ کرنے کے لیے نکل پڑا۔
علا الدین کو چتوڑ کی فتح کے چند دن بعد ہی منگول پیش قدمی کا علم ہوا، لشکر سر پر پیر رکھ کر دلّی پہنچا اور حقیقت یہ ہے کہ ابھی تیار ہی نہیں ہو پایا تھا کہ منگول لشکر سر پر پہنچ گیا۔ وارنگل سے آنے والا لشکر تو دلّی پہنچ ہی نہیں پایا کیونکہ منگولوں نے شہر کے تمام راستے بند کر دیے تھے۔ دلّی ہر طرف سے گھر چکا تھا۔ شہر میں ضروریات زندگی کی چیزوں کی سخت قلت تھی۔ نواحی علاقے منگولوں کے چھاپوں کی زد میں تھے اور بُری طرح لوٹے جا رہے تھے، لیکن دلّی ڈٹا رہا۔ شہر کی خندقیں سخت پہرے کی وجہ سے پار کرنا منگول لشکر کے لیے ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ تقریباً دو مہینے کے محاصرے کے بعد منگول لشکر واپس لوٹ گیا۔ شاید دلّی کی گرمی برداشت کرنا اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ محاصرہ ختم کرنے کی ایک وجہ اُدھر چغتائی سلطنت میں سیاسی معاملات کا بگڑ جانا تھا، جس کی وجہ سے طرغی کو فوراً وطن واپس جانا پڑا۔
یہ اتنا بڑا حملہ تھا کہ مؤرخین کے مطابق دلّی کا حال ایسا تھا کہ اگر یہ محاصرہ مزید ایک ماہ جاری رہتا تو دلّی پکے ہوئے پھل کی طرح منگولوں کی گود میں جا گرتا۔
اس مرتبہ بال بال بچنے کے بعد علا الدین نے نئی فتوحات کے لیے خود میدان میں جانا چھوڑ دیا اور اپنے جرنیلوں اور امرا کو ہی مختلف مہمات پر بھیجتا۔ اس نے سیری کے قلعے کے گرد مضبوط فصیل تعمیر کروائی بلکہ دُور دراز سرحدی قلعوں کی مرمت بھی کروائی تاکہ منگولوں کی آمد کے تمام راستے بند ہو جائیں۔
سیر کو سوا سیر
طرغی نے 1305ء میں ترتاق اور علی بیگ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہندوستان پر حملہ کیا، لیکن خود راستے ہی میں ایک تیر لگنے سے مارا گیا۔ البتہ علی بیگ اور ترتاق آگے بڑھتے رہے اور دلّی کے بجائے اودھ کا رخ کر لیا۔ دسمبر 1305ء میں امروہہ کے قریب جنگ ہوئی، جس میں منگولوں کو پھر شکست ہوئی۔
اس کے بعد منگولوں کے ساتھ وہی کیا گیا، جس کے لیے وہ بدنام تھے۔ وہ انگریزی میں کہتے ہیں ناں کہ Taste of their own medicine۔ علائی لشکر نے فتح حاصل کرنے کے بعد منگولوں کے سروں کے مینار بنائے۔ پھر سیری کے زیر تعمیر قلعے میں پتھروں اور اینٹوں کے ساتھ منگولوں کی کھوپڑیاں بھی لگائی گئی تھیں۔
1306ء میں دووا خان کے بیٹے کبک نے بھی ہندوستان پر حملہ کیا۔ تب اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے علا الدین نے انہیں ایک سال کی اضافی تنخواہ دینے کا اعلان کیا۔ پھر اس کے غلام ملک نائب کافور کی قیادت میں ناگور کے قریب ایک جنگ ہوئی، جس میں ہندوستانیوں نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ کہتے ہیں کہ 50 سے 60 ہزار منگولوں میں سے صرف 3، 4 ہزار ہی زندہ بچے، باقی سب مارے گئے۔ جن کی کھوپڑیوں سے دلی کے بدایوں دروازے کے سامنے ایک مینار بھی کھڑا کیا گیا۔
یوں منگولوں کی ہندوستان میں بڑی جارحیت کا خاتمہ ہو گیا۔ فوج میں علا الدین خلجی کی سرمایہ کاری بالآخر کام آ گئی اور منگول خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا۔ کم از کم علا الدین کے عہد میں تو وہ کبھی سرحدی کار روائیوں سے آگے نہیں بڑھے۔
علا الدین خلجی کی فتوحات کا سبب
منگولوں کے خلاف عظیم کامیابیوں کی وجہ علا الدین خلجی کی زبردست اصلاحات تھیں، فوجی حوالوں سے بھی اور معاشی لحاظ سے بھی۔ اس کی فوج اور افسران کو نقد ادائیگی کی جاتی تھی جبکہ فوج کا کنٹرول خود علا الدین کے ہاتھوں میں تھا، کسی امیر کے ہاتھ میں نہیں۔ علا الدین کی معاشی اصلاحات بھی بہت سخت تھیں۔ ٹیکس اور قیمتوں پر قابو پانے کا ایسا نظام بنایا گیا جس نے اشیائے ضرورت کی قیمتیں کبھی بڑھنے نہیں دیں۔ پھر سب سے اہم تھا علا الدین کا جاسوسی کا نیٹ ورک، جس کی وجہ سے نہ صرف وہ بیرونی خطروں سے آگاہ رہتا اور بغاوتوں کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔
منگولوں کا ہندوستان پر آخری حملہ
ویسے ہندوستان پر منگولوں کا آخری بڑا حملہ خلجی کے بعد حکمران بننے والے تغلق خاندان کے دور میں 1327ء میں ہوا۔ تب دووا تیمور کے بیٹے ترماشرین خان نے پنجاب کا رخ کیا اور لاہور کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ لیکن اس سے آگے وہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پایا۔ بعد میں وہ چغتائی خان بھی بنا اور اُن معروف چغتائی خانوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا کر لیا تھا۔ اس کے مارے جانے کے بعد چغتائی خانیت کی بنیادیں ہل گئیں اور عین انہی دنوں میں ایل خانی حکومت کا بھی عملاً خاتمہ ہو گیا۔ تب وسطِ ایشیا میں وہ افراتفری پھیلی کہ الامان الحفیظ! اس سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے کئی جنگجوؤں نے طبع آزمائی کی، انہی میں سے ایک تھا تیمور، جو بعد میں تیمور لنگ کے نام سے مشہور ہوا۔
تبصرہ لکھیے