ہوم << پنجاب میں کس کی حکومت - عبداللہ طارق سہیل

پنجاب میں کس کی حکومت - عبداللہ طارق سہیل

بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے آنے والی خبریں اور مناظر دلدوز، دردناک اور دل ہلا دینے والے ہیں لیکن چونکہ میڈیا میں اولیت سیاسی سرکس کو ہے اور زیادہ جگہ بھی اسی کو مل رہی ہے اس لیے مناسب ہے کہ یہاں بھی وہی ترتیب رکھی جائے یعنی سرکس فرسٹ، ڈسزاسٹر لیٹر، چنانچہ سیاسی سرکس کا تازہ احوال کچھ یوں ہے کہ ”حقیقی آزادی“ نے تین دن کی ضمانت لے لی ہے اور آج ضمانت کا تیسرا دن ہے، کل اس میں توسیع ہو جائے گی۔

نہ بھی ہوئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حقیقی آزادی نے آزادی کے بیس کیمپ میں ، بعداز ضمانت ، یہ نعرہ لگا دیا ہے کہ ”یہاں موجود ہوں، کسی میں ہمت ہے تو آ کر پکڑ لے“۔ ادھر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے دھان پان نوجوان پرویز خٹک نے اخبار نویسوں سے آمنا سامنا ہونے پر بیان دیا کہ کسی کا باپ بھی حقیقی آزادی کو گرفتار نہیں کر سکتا۔ محض اتفاقی بات سمجھئے کہ کل ہی ایک حریت پسند بلاگر کی ایک وڈیو چلی جو گرفتاری کے بعد روتا ہوا پایا گیا اور یہ فریاد بھی اس نے کی کہ مجھے ”چپیڑیں“ بھی ماری ہیں۔ یہ تو سخت زیادتی ہے۔ چپیڑیں ماریں گے تو بے چارے مجاہدین آزادی انقلاب کیسے لائیں گے۔ اس وڈیو کے ساتھ ہی اس انقلاب کی ایک پرانی وڈیو بھی چلائی گئی جس میں وہ یہ کہہ رہا تھا کہ گھر پر موجود ہوں، کسی کی ہمت ہے تو آ کر پکڑ لے۔ جیسا کہ احتیاطاً اوپر ذکر کر دیا، یہ محض اتفاق کی بات ہے۔

”حقیقی آزادی“ کی نقل و حرکت میں بظاہر کوئی رکاوٹ پڑنے کا اندیشہ نہیں ہے کیونکہ حکومت کو اسے، پابند سلاسل کرنے میں کسی قسم کی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ محض دلچسپی بھی کافی نہیں، اس کے ساتھ دل جمعی کا ہونا بھی ضروری ہے اور وہ تو کہیں ہے ہی نہیں، کسی اور باب میں بھی نہیں۔ وہاں تو ہر طرح سے ”ٹھنڈ“ پروگرام چل رہا ہے، مطلب حکومت خوب مزے میں ہے، فکر نہ فاقہ، بس دھوم دھڑا کا۔

اس مزے کی کہانی بھی خوب مزے کی ہے۔ پنجاب میں جب صوبائی سیٹوں پر الیکشن ہو رہے تھے یا ہونے والے تھے تو تمام میڈیا پرسنز اور تجزیہ کاروں بشمول کالم نگاروں کی امت کا اس امر پر ”اجماع“ تھا (جسے قومی اتفاق رائے بھی کہہ سکتے ہیں) کہ ا س الیکشن میں شکست کی صورت پیدا ہوئی تو پنجاب حکومت تو اتحادیوں کے ہاتھ سے جائے گی ہی، وفاق میں بھی ان کی حکومت ختم ہو جائے گی، چند دن سے زیادہ ٹک نہیں پائے گی۔ وفاق میں ا س وقت حکومت آج گئی، کل گئی، جولائی میں چھٹی، ستمبر میں الیکشن کی خبروں کے ہجوم میں ویسے ہی لڑکھڑاتی نظر آ رہی تھی۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا، وہ یکسر الٹا ہوا۔ وفاق کی حکومت افواہوں کے گھیرے سے نکلنا شروع ہوئی، مستحکم نظر آنے لگی اور آج یہ مضبوط ہے۔ خطرات کے بادل ہوا کے دوش پر کہیں دور نکل گئے۔

اسباب اس ماجرائے منفرد کے الگ مضمون کا تقاضا کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی نے حکومت سازی کر لی۔ مبارک سلامت کا وہ شور اٹھا کہ مردے بھی قبروں میں اٹھ بیٹھے۔ لیکن جب شور تھما، مبارک سلامت کی گرد بیٹھی تو پتہ چلا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی نہیں، پرویز الٰہی کی حکومت ہے۔ حقیقی آزادی کو یقین نہیں آ رہا، آنکھیں مل مل کر دیکھ رہی ہے، مجاہدین آزادی اس خیال بد کو جھٹک کر آنکھیں موند لیتے ہیں لیکن آنکھیں کھولتے ہیں تو سامنے بدستور پرویز الٰہی کی حکومت ہوتی ہے۔ پرویز الٰہی کا محفف پی آئی ہے۔ دیکھو تو پی ٹی آئی اور پی آئی میں فرق محض ایک ٹی T کا ہے لیکن غور کرو، ایک ٹی کے نہ ہونے سے فرق کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔

حالی نے کہا تھا کہ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے ۔

پتہ نہیں اس کاکیا مطلب ہے۔ یقین مانئے، ہمیں واقعی کچھ پتہ نہیں۔ کیونکہ ہم تو کسی اور ہی ماجرے پر حیران ہیں۔ وہ یہ کہ جو عظیم الشان ہستی کل تک امریکہ کے صدر جوبائیڈن کو، اس سے سازباز کرنے والے میر جعفر و میر صادق اور 30 سال سے چوری کرنے میں مصروف مخالف لیڈروں کو دھڑ لے سے للکارتی نظر آ رہی تھی، کل وہ ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دھمکاتی پائی گئی۔ قناعت اسی کو کہتے ہیں۔

ع: انقلابات ہیں زمانے کے

بہرحال، اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز الٰہی خاں صاحب کو مسلسل یہ یقین دلانے میں لگے رہتے ہیں کہ پنجاب حکومت آپ ہی کی حکومت ہے اور انداز بالکل اسی میزبان کا ہوتا ہے جو مہمان سے کہتا ہے، اجی حضور، تکلف مت کیجیے، اس گھر کو بھی اپنا ہی گھر سمجھئے۔ لیکن خان صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے میڈیا سیل سے گفتگو میں صاف کہہ دیا کہ پنجاب حکومت کو چڑیا گھر سے آرڈرز آتے ہیں۔ چڑیا گھر وہ جگہ ہے جہاں چرند پرند یعنی جملہ جانور رہتے ہیں۔

پرویز الٰہی کا جنوبی پنجاب ڈوب گیا ہے اور ملحقہ صوبہ بلوچستان بری طرح غرقاب ہوا۔ سوشل میڈیا پر کلپ وائرل ہیں۔ ابھی ایک بس کا کلپ دیکھا۔ جو کم پانی والے ایک نالے کو عبور کر رہی تھی، جیسے ہی دوسرے کنارے کے قریب پہنچی، ایک بڑے ریلے نے آ لیا اور لمحوں میں جملہ مسافروں کی زندگی ختم۔ لگتا تھا کہ ریلا بس اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ کہیں چار پانچ بچوں کی لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں کیچڑ نے جن کے بے جان چہرے ڈھانپ لیے ہیں، کہیں کسی بدقسمت کے صرف دو آگے کو بڑھے ہاتھ نظر آ رہے ہیں، باقی جسم مڈ سلائیڈ میں چھپ گیا ہے۔ کہیں کوئی بڑھیا آہ و زاری کر رہی ہے، کہیں کوئی اکیلا بچہ سہما ہوا ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس کے سنگی ساتھی کبھی واپس نہ آنے کے لیے جا چکے۔ بستیوں کے نام و نشان مٹ چکے، عمر بھر کی جمع پونجی لُٹ گئی، سینکڑوں افراد بے نام و نشان گور میں جا چھپے، لاکھوں زندہ درگور ہو گئے۔

اتنی ہولناک تباہی کبھی دریاﺅں میں طغیانی سے نہیں آئی جتنی پہاڑی نالوں (رود کوہیوں) سے آئی۔ اور ریاست کی طرف سے اتنی بے حسی اور لاپرواہی بھی کبھی نہیں دیکھی گئی جیسی اب دیکھی گئی۔ پنجاب سرکار قطعی بے پرواہ پختونخواہ سرکار اس سے بھی زیادہ قطعی لاتعلق، بلوچستان میں تھوڑی بہت سرکاری سرگرمی نظر آئی۔ اندرون سندھ بھی بہت بڑی تباہی آئی لیکن وہاں کی حکومت نے بڑی حد تک قابل تعریف کارکردگی دکھائی۔ رہا سوال وفاقی حکومت کا تو جوابی سوال یہ ہے کہ وفاق میں کوئی حکومت ہے بھی؟۔ وہاں تو محض بجلی کے بل بڑھانے کی مشین لگی ہے جو دھڑا دھڑ چل رہی ہے۔

Comments

Click here to post a comment