کچھ لوگ زندگی میں کہانی ہوتے ہیں اور جب رخصت ہو جاتے ہیں تب بھی اپنے پیچھے بہت سی کہانیاں چھوڑ جاتے ہیں۔ عصمت آپا ہمارے درمیان موجود تھیں تو ان کے بارے میں کیسی کیسی کہانیاں تھیں اور اب جب کہ چلی گئی ہیں تب بھی قصوں کے انبار چھوڑ گئی ہیں۔
ان کی تمام زندگی مروجہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے گزری اور چلتے چلتے بھی ان کی منحرف طبیعت نے اپنے سماج کو ایک چٹکی لی اور چین کی نیند سو گئیں۔ وہ زندگی بھر روایت پرستوں کے کلیجے کا ناسور رہیں اور مر کر بھی انھوں نے ایسوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ جس کو دیکھیے وہ اس غم میں مبتلا ہے کہ انھوں نے جلائے جانے کی وصیت کیوں کی۔ کچھ کا خیال ہے کہ ان کا داماد اور چہیتا نواسہ ہندو تھا، اس لیے ان لوگوں نے یہ زیادتی کی۔میں نے جب عصمت آپا کو ان کی تحریروں سے پہچانا تو پھر کبھی ان کے اور پرومی تھیس کے خیال کو ایک دوسرے سے جدا نہ کرسکی۔ کون پرومی تھیس؟
یونانی دیومالا کا ایک کردار تھا جس نے دیوتا زیوس کے حکم سے سرتابی کی اور انسانوں کے لیے کوہ اولمپس سے آگ چرا لایا۔ وہ انسان جو پہلے موسم کی قہر ناکیوں کا نوالہ تھا اور دیوتاؤں کے رحم و کرم پر تھا۔ اسے زندگی کرنے کا سلیقہ پرومی تھیس کے طفیل آیا۔ انسان پر اس عنایت اور دیوتاؤں کے حکم سے سرتابی کی سزا ایسے دی گئی کہ جسے پڑھ کر یقین نہیں آتا۔ تیس ہزار سال تک پہاڑ کی چوٹی سے بندھا رہا۔ ایک گدھ دن بھر اس کا کلیجہ نوچتا اور رات میں شبنم اس کے سارے زخم بھر دیتی۔ اسی لیے تو زمانے بھر کے شوریدہ سر اور زندگی دوست ادیب اس کی بغاوت کے قصیدے پڑھتے اور اس کے نام کی مالا جپتے ہیں۔
عصمت آپا ایسی ہی جیوٹ اور جی دار تھیں۔ بغاوت اور انحراف ان کے ریشے ریشے میں رچا بسا تھا۔ انھوں نے ہوش سنبھالا تو اپنے اردگرد عورت کو ہر ہر لمحہ مرتے اور مر کر جیتے دیکھا۔ وہ شان سے جینے اور ڈنکے کی چوٹ مر جانے کی قائل تھیں۔ انھیں سہمی اور مرجھائی ہوئی، ظلم و ستم سہتی ہوئی عورت ذرا بھی اچھی نہیں لگی۔ سو انھوں نے عقل و دانش کے ہمالہ پہاڑ سے بغاوت، سچائی اور آزادی کی آگ چرائی اور اپنے قلم کی نوک سے یہ آگ برصغیر کی عورت کے سینے میں روشن کردی۔
کہنے کو عصمت آپا موت کی نیند سو گئی ہیں لیکن وہ اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک برصغیر میں وہ عورتیں اور لڑکیاں زندہ ہیں جنھوں نے ان کی کہانیاں پڑھ کر زمانے کے سامنے سر اٹھانا سیکھا ، سماج کے خود ساختہ رہنماؤں کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہنے کے بجائے بحث کرنا اور اپنے حقوق کے لیے لڑ مرنا سیکھا۔ اس بارے میں ہمیں یہ فرض نہیں کرنا چاہیے کہ عصمت آپا کی کہانیوں نے برصغیر کی صرف مسلمان اور اردو پڑھنے والی لڑکیوں اور عورتوں کو ہی متاثر کیا۔
47ء کے فوراً بعد سے ہندوستان کے دوسرے ادیبوں کی طرح عصمت آپا کی تمام تحریریں دیوناگری لپی میں منتقل ہونے لگی تھیں اور اس طرح دیکھا جائے تو ان کے حلقہ اثر میں برصغیر کی صرف مسلمان عورت ہی نہیں آئی تھی بلکہ ہندی مادری زبان کے علاوہ تامل ، مراٹھی ، سندھی، پنجابی اور بنگالی پڑھنے والی لڑکیاں اور عورتیں بھی ان کے قلم کی کاٹ کی قائل تھیں۔ انھوں نے برصغیر کی لاکھوں عورتوں کے ذہنوں پر اپنے اثرات مرتب اور مرتسم کیے اور اسی لیے پنجابی کی مشہور ادیب امرتا پریتم اپنے آپ کو عصمت چغتائی کا اکسٹنشن قرار دیتی تھیں۔ میں اپنے آپ کو خوش نصیب خیال کرتی ہوں کہ میں ان کے دور میں زندہ رہی اور صرف زندہ ہی نہیں رہی، میں نے انھیں جلوت اور خلوت میں دیکھا، ان کی محبتیں سمیٹیں اور ان کی باتیں سنیں، انھیں سطر سطر پڑھا اور ان سے قدم قدم سیکھا، میرے افسانوں کا مزاج ان کے طرز تحریر سے قطعاً مختلف تھا لیکن جرأت اظہار میں نے ان ہی سے سیکھی۔ کسی نئے افسانہ نگار کے لیے زندگی میں ہی داستان بن جانے والے ایک بہت بڑے افسانہ نگار کی سماعت کا مہیا ہونا ایک بڑا اعزاز ہوتا ہے اور یہ اعزاز میرے حصے میں آیا کہ میں ان کی صدارت میں افسانہ سناؤں۔
جس رات اقبال حیدری کے گھر پر شب افسانہ منعقد ہوئی تھی، اس رات پو پھٹنے سے پہلے ہمارے ایک معروف صحافی ایاز سموں اور ناصر بلوچ کو پھانسی ہونے والی تھی، میں نے اس رات اپنا افسانہ ’’ تتلیاں ڈھونڈنے والی‘‘ سنایا تھا۔ اسے سن کر جب انھوں نے ساڑھی کے پلو سے اپنی آنکھیں خشک کی تھیں اور میری پیٹھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ اس ہاتھ سے مجھ میں بہت سی طاقت، بہت سا حوصلہ منتقل ہو رہا ہے۔
عصمت آپا نے اکیاسی برس کی عمر پائی اور یہ ساری زندگی انھوں نے جہد مسلسل میں گزاری۔ منافقت سے انھیں بغض ہلی تھا۔ مزاج ان کا تیکھا، قلم تیغ براں، شمشیر بے نیام تھی۔ ان کے اجداد چنگیز خان، ہلاکو خان، چغتائی خان شہر فتح کرتے تھے۔ شہریوں کو تہ تیغ کرتے تھے۔ عصمت آپا اشہب قلم پر سوار ہوئیں تو اسے ایسی ایڑ لگائی کہ قدامت پرستوں، عقل دشمنوں اور عورتوں کو کم تر سمجھنے والوں کے پرلے الٹ دیے۔ انھوں نے ایک طرف عورتوں کو حقیر جاننے والوں کو اپنی دھار دار تحریروں سے چو رنگ کاٹا تو دوسری طرف ان عورتوں پر بھی اپنے خیالات کے تازیانے لے کر پل پڑیں جو اس بات پر مصر تھیں کہ عورت ذات کی عقل ایڑی میں ہوتی ہے۔
انھوں نے اپنے اردگرد سانس لیتے ہوئے کرداروں کے چہرے اپنی کہانیوں میں ابھارے۔ ’’ننھی کی نانی‘‘ کے ڈپٹی صاحب جیسا کردار فرضی ہرگز نہیں۔ یہ ہمارے ہی قریبی رشتوں کے مکروہ چہرے ہیں۔ معصوم بدن اور ذہن جن کا کھاجا ہیں۔ ان ہی کی عفونت زدہ زہریلی سانسیں ہیں کہ ’’ننھی‘‘ جیسے نرم و نازک پودے کو چھو جائیں تو وہ کملا جائے۔ اسی طرح ’’چوتھی کا جوڑا‘‘ ہو یا ’’زہر کا پیالہ‘‘، ٹیڑھی لکیر، معصومہ‘‘ ان کہانیوں اور ناولوں میں سانس لینے والے کردار، دوسرے ناموں کے ساتھ ہمیں ہندوستان کے طول و عرض میں نظر آتے ہیں اور جہاں تک ’’ضدی‘‘ کا تعلق ہے تو وہ تو تھی ہی اونچی جاتی کے ایک مال دار ہندو گھرانے کی کہانی۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ترک ناولٹ سے ماخوذ تھی۔
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے