ہوم << امید کی کرن - نسرین غوری

امید کی کرن - نسرین غوری

نسرین غوری حال ہی میں عالمی یوم آبادی کے حوالے سے اپنے محکمے کے لیے 13 سے 19 سال تک کی بچیوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اس سال عالمی یوم آبادی کا عنوان نو عمر بچیوں کی حمایت کرنا اور ان کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ جس کی مناسبت سے اقوام متحدہ کے آبادی سے متعقلہ ادارے UNFPA نے نو عمر بچیوں کی ضروریات جاننے کے حوالے سے نو عمر بچیو ں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا ، جس کا مقصد بچیوں کے لیے کسی قسم کے اقدامات کرنے سے پہلے خود بچیوں سے معلوم کیا جائے کہ وہ کیا چاہتی ہیں، ان کی ضروریات کیا ہیں اور مستقبل کے حوالے سے ان کے کیا خواب ہیں اور وہ اپنے والدین یا سرپرستوں سے کیا امید رکھتی ہیں؟
ان انٹرویوز میں ان بچیوں سے تین سوالات کیے گئے۔
۱۔ آپ اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے اپنی زندگی میں کیا تبدیلی چاہتی ہیں؟
۲۔ دیگر نو عمر بچیوں / اپنی سہیلیوں یا ساتھی لڑکیوں کی زندگی میں کیا بہتری آنی چاہیے اور اس کے لیے کیا تجویز کریں گی؟
۳۔ اس بہتری یا تبدیلی کے لیےآپ اپنے والدین، اساتذہ یا حکومت سے کیا مدد چاہتی ہیں؟
کراچی میں خصوصاً نچلے طبقے کی نو عمر بچیوں سے یہ سوالات کیے گئے۔ کراچی کے تین علاقوں لیاری، اورنگی ٹائون اور فیڈرل بی ایریا میں پیالہ ہوٹل کے پیچھے قائم گوٹھوں کی بچیوں سے انٹرویوز کیے گئے۔ بچیوں کو پہلے سے کوئی بریفنگ نہیں دی گئی تھی کہ ان سے کیا سوالات کیے جائیں گے۔
کچھ بچیاں پڑھ رہی تھیں، کچھ نے اپنی تعلیم وسائل کی کمی کے باعث چھوڑ دی تھی۔ کچھ بچیوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی تھی اور کچھ نے پہلی مرتبہ ایک خیراتی اسکول میں سلسلہ تعلیم کی ابتدا کی تھی۔ دو ایک بچیاں گھروں پر بیٹھ کر بیوٹی پارلر یا مہندی لگانے اور سکھانے کا کام کر رہی تھیں۔ ایک بچی نہ صرف خود پڑھ رہی تھی بلکہ اپنے پارلر میں کام سیکھنے والی لڑکیوں کو مزید تعلیم بھی دے رہی تھی اور انہیں پرائیویٹ امتحان کی تیاری کروا رہی تھی۔ دو بچیوں نے الٹراسائونڈ کا کورس کیا ہوا تھا اور نوکری کی طالب تھیں۔
چند ایک بچیاں شادی شدہ بھی تھیں۔ اور خود بھی ایک سے چار بچوں تک کی ماں تھیں۔ شادی شدہ لڑکیوں نے تو اپنے بجائے اپنے بچوں کی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے خواہشات کا اظہار کیا۔ یا اپنے شوہر حضرات کی نوکری یا کرائے کے بجائے اپنے مکان کی خواہش ظاہر کی۔ جبکہ دیگر بچیوں نے اپنے والد کی مستقل ملازمت یا کسی مستقل ذریعہ آمدن کی خواہش کی۔
کراچی کے یہ تینوں علاقے ایسے ہیں کہ جہاں مسائل کا انبار ہے، خاص کر پانی، (صاف پانی کی تو بات ہی نہ کریں)، بجلی، صحت کی سہولیات کے شدید مسائل ہیں، کچرے کے پہاڑ کھڑے ہیں، سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان تمام بچیوں کی اکثریت نے ان مسائل کی بات کرنے کے بجائے اپنی اور دیگر بچیوں کے لیے تعلیم کی ضرورت پر زور دیا، قطع نظر اس کے کہ وہ خود تعلیم حاصل کر رہی ہیں یا انھیں تعلیم چھوڑنی پڑی۔ 90 فیصد سے زائد لڑکیوں نے صرف دو باتوں پر زور دیا۔
۱۔ لڑکیوں کو تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے جتنا وہ چاہیں۔
۲۔ لڑکیوں کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھنا چاہیے کہ ضرورت کے وقت کام آسکے۔
حکومت سے بھی لڑکیوں نے تعلیم کے سلسلے میں ہی مدد کی درخواست کی، جب ان سے کہا گیا کہ حکومت کیا مدد دے تو انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں مالی مدد یا وظیفے یا کتابوں کے خرچے کی بات کی۔ دو تین لڑکیاں جو دیگر لڑکیوں کی نسبت بڑی تھیں، انہوں نے کہا کہ حکومت لڑکیوں کے لیے ماحول بہتر بنائے۔ ان سے پوچھا کہ ماحول سے ان کی کیا مراد ہے ، لوگوں کا رویہ یا باہر پھیلا ہو ا کوڑا کرکٹ، تو ان کا جواب تھا کہ جب ہم باہر اسکول یا کالج کے لیے نکلتے ہیں تو لوگ ہمیں گھورتے ہیں یا بسوں میں سفر میں پریشان کرتے ہیں اس لیے حکومت ہماری مدد کرے۔ یعنی ٹرانسپورٹ کے لیے انتظامات بہتر بنائے۔ ایک بچی نے کہا کہ اس کا بھائی اسے اسکول جانے سے منع کرتا ہے تو حکومت اس کے بھائی کو سمجھائے۔
خیراتی اسکول میں پہلی مرتبہ تعلیم سے آشنا ہونے والی سب بچیاں مستقبل میں ٹیچر بننا چاہتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا کہ آپ سب کی سب ٹیچر کیوں بننا چاہتی ہیں تو جواب آیا کہ ہم ٹیچر بن کر دوسرے بچوں کو جو تعلیم حاصل نہیں کرسکتے انہیں پڑھانا چاہتی ہیں۔ یقینی طور پر ان کی زندگی میں علم کی روشنی لانے والی استانیاں ان کا آئیڈیل ہیں اور وہ انہی کی طرح دوسروں تک تعلیم کی روشنی پہنچانا چاہتی ہیں۔ ایک بچی کا کہنا تھا کہ ٹیچر بن کر اسے اپنی والدہ کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام نہیں کرنا پڑے گا۔
لیاری میں رہنے والی بچیوں سے جب کہا گیا کہ تعلیم تو اچھی بات ہے لیکن باہر پھیلا ہوا کوڑا اور گندا پانی آپ اس ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتیں ، حکومت سے اس کے لیے آپ کو کوئی مدد نہیں چاہیے، تو ان کا جواب تھا کہ حکومت کیا کیا کرے، لوگ بھی تو خود اپنی ذمہ داری پوری کریں، جب کوڑا اٹھانے والا آتا ہے تو اس کو کوڑا نہیں دیتے اور بعد میں گھر کا کوڑا باہر گلی میں پھینک دیتے ہیں۔ صحت، صاف پانی یا بجلی کی بات کسی نے بھی نہیں کی، جب ان کی توجہ ان مسائل کی طرف دلائی گئی تو کہا کہ ہاں بجلی اور پانی کا بھی مسئلہ ہے اور حل ہونا چاہیے۔ اسی طرح گھر میں بہن اور بھائی کے درمیان تفریق پر کسی نے تبصرہ نہیں کیا۔
ان انٹرویوز سے ایک طرف تو ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ابراہام میسلو کے "نظریہ درجہ بندی ضروریات" کے مطابق جب تک بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، ضروریات کے اگلے ترقی یافتہ درجات کی طرف نظر نہیں جاتی، ان بچیوں کی بھی بنیادی ضرورت یعنی وسائل برائے غذا، رہائش اورتعلیم ہی ابھی تک پورے نہیں مل سکے، ان کے والدین کے وسائل ابھی تک غذا اور رہائش کے لیے ہی بمشکل پورے ہوتے ہیں تو تعلیم یا اس سے بڑھ کر ضروریات اور خواہشات کی باری آنے میں بہت دیر ہے۔
دوسری جانب یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اب ہم نے بجلی ، صاف پانی اور صاف ماحول کی عدم فراہمی سے سمجھوتہ کر لیا ہے، یعنی یہ طے ہے کہ اب ہم ان یوٹیلیٹیز کے بغیر ہی رہیں گے، سو ان کی عدم فراہمی کو اب ہم مسائل میں شمار ہی نہیں کرتے۔
تیسری اور سب سےامید افزاء بات جو ان انٹرویوز سے سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ بچیوں کی غالب اکثریت تعلیم نسواں کی اہمیت سے واقف ہے اور خواتین کے معاشی طور پر بااختیار ہونے کے حق میں ہے۔ میں پر امید ہوں کہ یہ تمام بچیاں جب کل کو بچیوں کی ماں بنیں گی تو ان کی حمایت سے انکی بیٹیاں ان کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہونگی، زیادہ پر اعتماد ہوں گی اور کسی نہ کسی ہنر سے بہرہ مند ہوں گی یا کسی نہ کسی حد تک معاشی طور پر خود کفیل ہوں گی۔ ان شاء اللہ

Comments

Click here to post a comment