ہوم << خضر صورت دوست کے ساتھ ایک دن - محمد عرفان ندیم

خضر صورت دوست کے ساتھ ایک دن - محمد عرفان ندیم

عرفان ندیم ہماری پہلی ملاقات ایک سال پہلے ہوئی تھی. 2015ء میں ایک ورکشاپ میں ہم اکٹھے شریک تھے اور یہ ورکشاپ ہماری دوستی اور پہچان کا سبب بن گئی۔ تین دنوں کی اس ورکشاپ میں، میں اس کا ’’فین ‘‘ ہو گیا تھا ۔ اس کی عادتیں مجھے بڑی عجیب سی لگتی تھیں اور انھی عادتوں کی وجہ سے میری اس میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ ہماری قومی روایت کے مطابق و رکشاپ کا آغاز عموما لیٹ ہوتا تھا اور تمام شرکاء دس کے بجائے بارہ بجے سیمینار ہال میں پہنچتے تھے لیکن میرا یہ دوست ٹھیک دس بجے اکیلا سمینار ہال میں بیٹھا مکھیاں مار رہا ہوتا تھا ۔مغرب کے بعد ایک گھنٹہ ڈسکشن اور مکالمے کے لیے مختص ہوتا تھا جسے ہم سب خوش گپیوں اور قہقہوں میں اڑا دیتے تھے لیکن وہ پورے ’’خشوع و خضوع‘‘ کے ساتھ ڈسکشن میں حصہ لیتا تھا۔ وہ ورکشاپ میں شریک ایک ایسا باغی تھا جو ہمیشہ الٹ چلتا تھا۔ ہم زمین کی بات کرتے وہ آسمان کا نام لیتا، ہم سورج کی بات کرتے تو وہ چاند لے آتا، ہم پڑھنے کی بات کرتے وہ سو جاتا اور جب ہم سوتے تو وہ کتاب لے کے بیٹھ جاتا۔ جب ہم سب خوش ہوتے وہ ناراض ہو جاتا اور جب ہم سب پریشان ہوتے وہ کھلکھلا اٹھتا۔ جب سوال کی بات ہوتی وہ خاموش رہتا اور جب خاموشی ضروری ہوتی وہ چیخ اٹھتا اور چیخ چیخ کر سوال کرتا۔ جب ہم دھوپ کی بات کرتے وہ بارش لے آتا اور جب ہمیں بارش کی خواہش ہوتی وہ دھوپ کی دعا کرنے لگتا. ایک عجیب معما تھا اور اس معمے کی کوکھ سے ہماری دوستی نے جنم لیا۔
ایک دن میں نے اسے چائے کی دعوت دے ڈالی۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے میں نے اس سے سوال کیا ’’ آپ سب سے الگ کیوں چلتے ہیں ، جب ہم بادل کی تمنا کرتے ہیں آپ کو دھوپ چاہیے ہوتی ہے اور جب ہم دھوپ کے لیے گڑ گڑا رہے ہوتے ہیں تو آپ کو بارش کی تمنا ہوتی ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس نے تیکھی نظروں سے مجھے گھورا، ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجائی اور بولا ’’ میں اس کا جواب تمھیں تب دوں گا جب تم میرے گھر یا میرے آفس آؤ گے‘‘۔
میں پچھلے ہفتے اس کے گھر تھا، یہ لاہور کا ایک خوبصورت علاقہ تھا، ہم نے رات کا کھانا اکٹھے کھایا اور کھانے کے بعد باہر نکل گئے۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ میں اس سوال کی تلاش میں آیا ہوں جو میں نے اس سے ورکشاپ کے دوران کیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پے مسکراہٹ چھا گئی اور بولا ’’ اس کے لیے تمھیں ایک پورا دن میرے ساتھ گزارنا پڑے گا ‘‘ میں نے حامی بھر لی اور یوں ہما را اگلے دن کا پروگرام طے ہو گیا۔ اگلے دن صبح آٹھ بجے اس نے گاڑی نکالی اور مجھے ساتھ لے کر نکل پڑا۔ مجھے منزل کی خبر نہیں تھی لیکن میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر پہنچ گئے. سامنے اشارہ تھا لیکن لوگ اندھا دھند بھاگ رہے تھے، شاید وہاں کوئی ٹریفک وراڈن نہیں تھا لہذا اشارے پر رکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور لوگوں نے سوال پیدا ہونے بھی نہیں دیا، لیکن جب یہ اشارے پر پہنچا تو اپنی گاڑی روک لی، رکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی لیکن یہ وہاں رکا رہا اور اشارہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا، پیچھے سے گاڑیاں ہارن پے ہارن بجا رہی تھیں بلکہ ہارن ’’مار‘‘ رہی تھیں، لوگ اسے دو دو کلو میٹر لمبی گالیاں دے رہے تھے لیکن یہ وہاں رکا رہا، اشارہ کھلا تب اس نے اپنی گاڑی آگے بڑھائی. میں نے سوال کے لیے زبان کھولی لیکن اس نے مجھے وعدہ یاد کروا دیا جو صبح گھر سے نکلتے ہوا طے ہوا تھا کہ میں رات گھر واپس آنے تک راستے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ ہم آگے بڑھے اور ایک بینک کے سامنے اس نے گاڑی روک لی، وہ گاڑی سے اتر کر قطار میں کھڑا ہو گیا، لوگوں کی ایک لمبی قطار تھی، اوپر سے جولائی کی گرمی لیکن یہ قطار میں کھڑا رہا، اس سے پہلے چند نوجوانوں کی باری تھی لیکن ان میں کسی بات پر ان بن ہو گئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، وہ لوگ لڑتے ہوئے قطار سے دور چلے گئے، اب پیچھے کھڑے لوگوں کا کہنا تھا کہ آپ آگے بڑھ جاؤ لیکن یہ وہاں سے نہیں ہلا، پچھلے لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوا، تھوڑی دیر بعد وہ لڑکے واپس آگئے اور قطار دوبارہ سیدھی ہوگئی، وہ بینک سے ہو کر واپس آیا تو میں نے پوچھا یار اتنی دھوپ تھی تم نے ان لڑکوں کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا؟ تم آگے بڑھ جاتے اور پچھلے والوں کی باری بھی جلدی آ جاتی۔ اس نے مجھے وعدہ یاد دلایا اور میں خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس کے آفس پہنچ گئے، ہم بیٹھے ہی تھے کہ ایک نوجوان اس کے آفس میں داخل ہوا اور بڑی لجاجت سے معذرت کرنے لگا ، اس نے ’’ کوئی بات نہیں ‘‘ کا جملہ پھینکا اور نوجوان واپس چلا گیا۔
رات کو ہم گھر تھے، میں نے پہلا سوال کیا
’’تم اشارے پر کیوں رکے، لوگ تمھیں گالیاں دے رہے تھے، تم پر پھر بھی کوئی اثر نہیں ہوا، جب سب لوگ گزر رہے تھے تو تمھیں کیا مسئلہ تھا‘‘
اس نے میری طرف دیکھا اور بولا ’’دیکھو یار میں قانون کو فالو کر رہا تھا ، قانون کہتا ہے اشارے پر رکا جائے اور جب میں قانون کو فالو کر رہا ہوں تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں‘‘.
تھوڑا سنبھل کر میں نے اگلا سوال کیا ’’اچھا تو تم قطار میں جگہ ہونے کے باوجود آگے کیوں نہیں بڑھے‘‘
وہ بولا ’’ دیکھو وہ لڑکے اگرچہ قطار سے نکل گئے تھے، اگر وہ واپس آجاتے تو پہلا حق ان کا تھام، اس لیے میں نے ان کا حق برقرار رکھا۔ اب اگر لوگ اس بات پر سیخ پا ہو رہے تھے تو فالٹ لوگوں میں تھا مجھ میں نہیں‘‘.
میں نے پوچھا ’’اچھا وہ نوجوان کی کیا کہانی تھی‘‘
وہ بولا ’’ہاں اس کی کہانی بھی دلچسپ تھی، وہ نوجوان میرا جونیئر تھا، اس نے مجھے مل کر کمپنی میں کرپشن کی آفر کی لیکن میں نے انکار کر دیا، اس نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا اور میں باعزت بری ہوگیا اور اب وہ اس بات کی معذرت کرنے آیا تھا اور میں نے اسے معاف کر دیا۔‘‘
اس نے پہلو بدلا اور بولا ’’ اب ایک سوال میں تم سے کرنا چاہتا ہوں ‘‘
میں نے جواب میں گردن ہلائی تو وہ بولا ’’ تم مجھے بتاؤ ورکشاپ کے دوران میں نے روٹین ، ٹائم ٹیبل اور انتظامیہ کی طرف سے دیے گئے قوانین سے ہٹ کر ایک قدم بھی اٹھایا ؟‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا، وہ بولا ’’ دیکھو میں آرام کے وقت میں آرام کرتا تھا لیکن آپ سب گپیں لگاتے تھے، میں ڈسکشن کے وقت سیمینار ہال میں ہوتا تھا آپ لوگ باہر نکل جاتے تھے، میں دس بجے لیکچر ہال میں ہوتا تھا آپ بارہ بجے آتے تھے، میں لیکچر کے دوران سوال کرتا تھا اور آپ بعد میں سوال کرتے تھے، میں نے اشارے پر گاڑی روکی تو میں برا بن گیا، مجھے گالیاں بھی سننی پڑیں اور طعنے بھی، میں بینک میں قطار میں کھڑا ہوا تو مجھے برا کہا گیا، میں نے کرپشن سے انکار کیا تو مجھ پر الزام لگ گیا، میں ایک عرصے تک سوچتا رہا کہ میں کہاں غلط ہوں لیکن پھر ایک وقت کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا کہ فالٹ مجھ میں نہیں لوگوں میں ہے۔ میں ایک ایسے معاشرے میں رہ رہا ہوں جہاں قانون پر عمل کرنے والوں کو اجنبی اور باغی تصور کیا جاتا ہے اور جہاں امن، قانون اور وقت کی بات کرنے والوں کو طعنے اور گالیاں سننی پڑتی ہیں.
سیدھی بات ہے کہ جب ہم اپنے ملک اور قوم کو ٹھیک کرنے کے وعدے کرتے اور نعرے لگاتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کو ٹھیک کرنا چاہیے اور میں اسی نکتے پر عمل کر رہا ہوں. تمہاری نظر میں، میں باغی ہوں لیکن میرا دل مطمئن ہے اور جب میرا دل مطمئن ہے تو مجھے کسی کے کچھ کہنے اور کوسنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘.
وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہو گیا۔ ٹھیک ایک سال بعد مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا اور اس کے اس جواب نے مجھے لاجواب کر دیا تھا۔

Comments

Click here to post a comment