ہوم << شب موم، سحر آہن- عبداللہ طارق سہیل

شب موم، سحر آہن- عبداللہ طارق سہیل

ٹی وی اور اخبارات میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اخبارات ایک سے زیادہ پڑھنے ہوں تو خریدنے پڑتے ہیں۔ یعنی جتنے اخبار پڑھنا چاہیں ، اتنے ہی خریدنا ہوں گے۔ ٹی وی کیبل پر تمام چینل موجود ہیں۔ فیس ایک ہی ہے، چاہے ایک کو دیکھو، چاہے باری باری سب کو۔ فائدہ چنانچہ کیبل کا یہ ہے کہ سب کی رائے معلوم ہو جاتی ہے۔

گزشتہ رات ایک نہیں، دو بھی نہیں، کم سے کم چھ تجزیہ نگاروں کو سنا۔ کچھ اور بھی ان کے ہم آواز ہوں گے لیکن انہیں سننے کا موقع نہیں ملا۔ چھ کے چھ متفق تھے کہ ارکان اسمبلی کی مہار ان کی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ پارٹی سربراہ کو ’’آمریت‘‘ کا اختیار نہیں دیا جا سکتا یہی جمہوریت ہے۔ مزے کی بلکہ بہت مزے کی بات یہ ہے کہ /17 مئی والے عدالتی فیصلے کے موقع پر یہی چھ کے چھ اور ان کے دیگر ہم خیال و ہم آواز کچھ اور بتا رہے تھے۔ یہ کہ پارٹی نام بھی پارٹی سربراہ کا ہے۔ سربراہ کی بات نہ ماننے والا ضمیر فروش اور لوٹا کہلاتا ہے، اسے تو عمر بھر کے لیے نااہل ہونا چاہیے۔ عدالت نے تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے، یہی ضمیر کی آواز ہے۔

عدالت نے اب جو فیصلہ دیا ہے، ان حضرات نے اس کی بھی بھرپور داد دی ہے اور اسے بھی ضمیر کی آواز قرار دیا ہے۔ ان ارکان اسمبلی کے ضمیر اور جمہوری شعور کی تعریف بھی بدرجہ کمال کی ہے جنہوں نے اپنے پارٹی قائد کے تحریری ہدایت نامے کو درخوراعتنا نہ سمجھتے ہوئے پارلیمانی پارٹی کے قائد کی ہدایت پر عمل کیا۔

مزے کی بات تو ہے لیکن دیکھا جائے تو قرین عقل یہی بات ہے۔ قانون ہو یا ضمیر، اسے ’’جمود‘‘ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ حالات کی گرمی سردی کے مطابق اس میں ترمیم و اجتہاد کا در کھلا رکھنا چاہیے۔ شاعر نے اسی ’’سچائی‘‘ کی طرف اشارہ کیا تھا جب اپنے دل کی بات کرتے ہوئے یوں کہا تھا کہ ؎

شب موم کر لیا سحر آہن بنا لیا

اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے لکھا ہے کہ عمران حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان افراتفری اور انارکی کا شکار ہے۔ کچھ اور بھی لکھا ہے لیکن اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ وہ سب اسی مذکورہ بالا فقرے کی ’’آئینی تشریح‘‘ یا ’’تشریح مزید‘‘ ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ خبر کے اسلوب سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ پاکستان سے اظہار ہمدردی ہے یا ’’مثبت نتائج‘‘ پر اظہار مسرت۔ عمران حکومت قائم ہوتے ہی اسرائیل سے ایک طیارہ اسلام آباد آیا تھا اور کئی گھنٹے رکا رہا تھا۔ خبر چھپی ، اس کی تردید ہوئی بعدازاں تصدیق ہو گئی، سرکاری سطح پر نہیں، غیر سرکاری سطح پر۔ خدا جانے وہ کیا سندیسہ لایا تھا؟

بہرحال عرض ہے کہ اگر یہ اظہار ہمدردی ہے تو بھی اور اظہار مسرت ہے تو بھی، ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ مطلب یہ کہ فی الحال ضرورت نہیں۔ آئندہ کا پتہ ’’غیر یقینی‘‘ ہے کہ بہت سے ’’صحت مند‘‘ احباب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی نیک خواہشات پر مبنی سعی مسلسل فرما رہے ہیں۔ کیا نتیجہ نکلے کچھ معلوم نہیں لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں کوئی بھی نتیجہ کسی بھی وقت نکل سکتا ہے اور نکلتا رہا ہے۔ اللہ بھلا کرے۔

موجودہ حکومت تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس کے بارے میں یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اسے حزب اقتدار کہا جائے یا حزب اختلاف۔ اس کا وزیر اعظم ہے، وفاقی کابینہ ہے، اس لحاظ سے یہ حزب اقتدار ہے لیکن حالات کی داد اور حکومت کی فریاد سے لگتا ہے کہ یہ اپوزیشن ہے اور حکومت عمران خان کی ہے۔

بہرحال، تین رکنی بنچ کے فیصلوں کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے اس مبینہ حکومت نے کہا ہے کہ تین افراد کو آئین میں ترمیم یا اسے ’’ری رائٹ‘‘ کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ ’’حق پارلیمنٹ اور صرف پارلیمنٹ‘‘ کا ہے۔

اس لیے کہ ماضی میں کم سے کم چار افراد نے ، فرد واحد کے طور پر الگ الگ ادوار میں آئین میں ترامیم کیں، اضافے کئے بلکہ عملاً پورے کا پورا آئین ہی ازسرنو لکھ ڈالا اور اصحاب عدل کی طرف سے اسے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت درست بھی قرار دیا۔ اگر ایک فرد آئین ساز ہو سکتا ہے تو ایک سے زیادہ کیوں نہیں۔

وہ ادوار نظریہ ضرورت کے لیے، آج تو بہت زیاد ہ بحران ہے اور اسی لیے یہ دور نظریہ ضرورت کا نہیں، نظریہ اشد ضرورت کا ہے۔ اللہ پھر بھلا کرے۔ مبینہ حکومت کی ’’رٹ‘‘ کمزور ہے۔ معاشی بحران حل نہیں ہو رہا، گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ معیشت ایسا جنگل ہے جسے لگا کے آگ ’’میر کارواں‘‘ روانہ ہوا

براہ کرم معترض نہ ہوئیے کہ مصرعہ ترمیم کے بعد بے وزن ہو گیا ہے۔ عرض ہے کہ آگ بے قابو ہے تو مصرعے کا وزن بھی قابو سے باہر ہو گیا۔ تو میر کارواں روانہ ہو گیا لیکن اس کی ’’آتشزنی‘‘ زدفزد ہے اور قابو میں نہیں آ رہی۔ ملبۂ وقت کے ولی شیخ رشید کی پیش گوئی کے عین مطابق اس مبینہ حکومت پر پڑ گیا ہے اور وہ اس میں دبتی چلی جا رہی ہے اور صورتحال نے اسے یوں قابو کر رکھا ہے کہ اب دن گنے جانے لگے ہیں۔

جو بھی ہوا، اس کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا اور ساتھ ہی الگ طور سے وزیر اعظم شہباز شریف کو ذاتی طور پر بھی۔ ایسے کہ مسلم لیگ کی ساکھ عوامی سطح پر متاثر ہوئی، بطور جماعت اور شہباز شریف کی اس شہرت کو بھی خاصا وسیع و عریض داغ لگا کہ وہ اچھے سیاستدان نہ سہی، اچھے ایڈمنسٹریٹر ضرور ہیں، خادم اعلیٰ ہیں۔

ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو ایک طرف کرتے ہوئے شہباز شریف نے خدمت کو عزت دو کا متبادل بیانیہ دیا۔ افسوس وہ چلا نہیں۔ اب مسلم لیگ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی طرف پھر سے پلٹ جانے کا سوچ رہی ہے۔ دیکھئے کب تک سوچتی رہے گی۔ بہرحال یہ پلٹ جانا بھی خاصا بھاری پتھر ثابت ہو سکتا ہے۔ لندن میں نواز شریف زبان حال سے یہ شعر پڑھ رہے ہوں گے کہ

کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق

ہے مکرّر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد

مبینہ حکومت کی صفوں میں دھیمی آنچ کا اضطراب، بے چینی، غصہ اور احتجاج ہے۔ مبینہ اپوزیشن (پی ٹی آئی بشمول اصحاب پرویز) کی صفوں میں بے قابو جشن مسرّت۔ یہ آمیزہ خطرناک موسم کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ آسمانوں سے رحم کی التجا اور دعا ہے لیکن رسائی مشکل، بیچ میں بے مہر بادلوں کے پرے چھائے ہوئے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment