ہوم << ایک گھر میں جشن دوسرے میں خاموشی- محمد اکرم چوہدری

ایک گھر میں جشن دوسرے میں خاموشی- محمد اکرم چوہدری

چودھری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ظہور الٰہی روڈ پر واقع ایک گھر میں جشن ہے تو دوسرے میں خاموشی ہے۔ یہی سیاست ہے کاش ایسا نہ ہوتا اور یہ بڑا سیاسی خاندان متحد ہو کر سیاست کرتا رہتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ بہرحال حالات بہت بدل چکے ہیں کل تک ایک ساتھ نظر آنے والے شاید اب نظر نہ آئیں۔

چودھری شجاعت حسین ایک تجربہ اور وضع دار سیاست دان ہیں اس سیاسی کھیل میں جو کچھ ہوا ہے وہ یقینی طور پر تعلق میں کشیدگی اس حد تک نہیں چاہتے ہوں گے۔ بہرحال وقت رکتا نہیں ہے۔ آج چودھری پرویز الٰہی کامیاب ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں میاں حمزہ شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی ہے اور پرویز الٰہی دوسری مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بنے ہیں۔ یہ فتح تو بنیادی طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کی ہے کیونکہ ضمنی انتخابات میں پندرہ نشستیں جیتنے کے بعد پی ٹی آئی کی طاقت کا ایک نیا رخ سامنے آیا گوکہ حالات عمران خان کے حق میں نہیں تھے لیکن ضمنی انتخابات میں واضح کامیابی کے بعد یہ ثابت ہوا کہ پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے ناصرف سڑکوں پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا بلکہ ووٹ کے ذریعے بھی اپنی طاقت ثابت کی ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملک میں سب کو یہ پیغام دیا کہ اصل میں یہی جمہوریت ہے اور یہی بہترین انتقام ہے۔

وہ شخص جو اپنی ڈائری اٹھا کر اکیلا وزیراعظم ہاؤس سے نکلا اس کی حکومت ختم ہوئی وہ عوام میں گیا، اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں رکھا وہاں جیتا اور پھر عدالت گیا وہاں بھی اسے کامیابی ملی۔ عوام نے اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈالا اور دہائیوں سے حکومت کرنے والوں کو مسترد کر دیا۔ عوام نے روایتی سیاست دانوں اور روایتی طرز سیاست کو مسترد کر کے پی ٹی آئی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ گوکہ عدالتی فیصلے کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے مسترد کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کو ایک تماشہ بنا دیا گیا ہے، تینوں جج صاحبان کو سلام۔

مریم نواز شریف نے بھی عدالتی فیصلے کو تسلیم نہیں کیا انہوں نے "جوڈیشل کو" جیسے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انہوں نے انصاف کا قتل نامنظور بھی لکھا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ "متنازع فیصلے کے ذریعے عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کو گھر بھیجا گیا، کیا اسمبلی کی حیثیت ایک ربڑ سٹیمپ کی رہ گئی ہے۔مشکلات کے باوجود آٹے پر سبسڈی، مفت ادویات کی فراہمی کا راستہ اپنایا، سدا بادشاہی اللہ تعالی کی ہے، مشن پاکستان کو بچانا ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔" پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی غصے میں ہیں وہ عمران خان پر زمین تنگ کر رہے تھے آج کی اتحادی حکومت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔"

مولانا کہتے ہیں "تین ججز کے بینچ کے اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے جمہوریت کا عدالتی قتل کیا ہے۔ ہم نے کبھی فوجی آمریتوں کو قبول نہیں کیا تو عدالتی مارشل لاؤں کو بھی کسی صورت قبول نہیں کریں گے"۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے تو مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں، عدلیہ کو سلام پیش کیا جا رہا ہے، اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے۔ یہ تعریف صرف اس لیے ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آیا ہے ورنہ چند دن پہلے تک ہم یہی سنتے رہے ہیں کہ میں نے کیا کر دیا کہ رات بارہ بجے عدالتیں کھول دی گئیں۔ یہی حالات ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے ہیں وہ کل تک کچھ اور کہتے تھے آج عدلیہ کو مختلف الفاظ میں یاد کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدانوں کا یہی رویہ عوامی سطح پر بیچینی کا باعث ہے۔

جہاں تک پرویز الٰہی کا تعلق ہے وہ بھی ایک کامیاب ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ لوگوں کو ساتھ ملا کر چلنے اور سیاسی راستہ نکالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ دو ہزار اٹھارہ سے اب تک سپیکر تھے پنجاب حکومت کے تمام معاملات کو بہت قریب سے دیکھ رہے تھے اور مسائل سے بخوبی واقف تھے۔ بحثیت وزیر اعلیٰ ایک مرتبہ پانچ سال مکمل بھی کر چکے ہیں اس دور میں بھی صوبہ ترقی کر رہا تھا۔ عوامی فلاح کے منصوبوں کی بدولت پارٹی بھی مضبوط ہوئی تھی لیکن کچھ طاقتیں ناخوش تھیں ورنہ وہ دوبارہ بھی اقتدار میں آ سکتے تھے۔ ان کے تجربے کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جتنا بھی وقت ملتا ہے وہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔

گو کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن عوامی مسائل پر توجہ دینے سے وہ اپنی جماعت کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ اس ذمہ داری سے ان کی جماعت بھی مضبوط ہو سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک حکومت کرتے ہیں اور اس دوران ان کی حکمت عملی کیا ہوتی ہے لیکن اگر وہ عوامی مسائل حل کرنے کی طرف لگے رہے تو یقینی طور پر بہتر الفاظ میں یاد رکھے جا سکتے ہیں۔

اسمبلی کے اندر ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مضبوط اپوزیشن ہو گی جب کہ وفاق میں میاں شہباز شریف کی موجودگی بھی چھوٹا مسئلہ نہیں ہو گی انہیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہے۔ تنازعات سے بچتے ہوئے اور انتقامی کارروائیوں سے گریز ہی وقت کے بہتر استعمال کا بہترین نسخہ ہے۔

Comments

Click here to post a comment