ہوم << اقتدار کی جنگ اور معیشت کی تباہی - ظہور دھریجہ

اقتدار کی جنگ اور معیشت کی تباہی - ظہور دھریجہ

پی ڈی ایم کی طرف سے فل کورٹ کا مطالبہ مسترد ہونے کے بعد حکومتی اتحاد نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور مریم نواز نے عدلیہ پر تنقید شروع کر دی، مجھے یاد ہے کہ اسی سال 7 اپریل کو یہی سپریم کورٹ تھی ، یہی جج صاحبان تھے اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی تعریفوں کے پل باندھنے والوں میں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، مریم نواز سب شامل تھے ، ہمارے دیس کا عجب چلن ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو جج ایماندار اور خلاف آئے تو تنقید شروع ہو جاتی ہے.

عمران خان بھی یہی کچھ کرتے آ رہے ہیں۔ شہباز شریف جس مسند پر بیٹھے ہیں یہ انہی ججوں کے فیصلے کے نتیجے میں ان کو ملی، ان کو انصاف دلانے میں بارہ بجے عدالت کھلی اُس وقت تو وہ خوش تھے ، اس روش کو ختم ہونا چاہئے۔ سیاستدانوں کو خود احتسابی کا عمل شروع کرنا چاہئے اور اداروں کو بھی اپنی حدود میں رہ کر فرائض سر انجام دینے چاہئیں۔ منحرف ارکان کے فیصلے کے موقع پر جسٹس مندو خیل کا اختلافی نوٹ آج سمجھ آ رہا ہے، معروف تجزیہ نگار ارشاد عارف کا یہ کہنا درست ہے کہ فل کورٹ کا مطالبہ کر کے (ن) لیگ وقت لینا چاہتی ہے، پنجاب حکومت ان کو جان سے بھی پیاری ہے کہ تین صوبوں کا اقتدار ایک طرف اور اکیلے پنجاب کا اقتدار ایک طرف ۔

پنجاب کی حکومت جاتی ہے تو مرکز کی حکومت خود بخود ختم ہو جائے گی، اسی بناء پر ہم بار بار کہتے آ رہے ہیں کہ وسیب پر مشتمل صوبہ بنا کر وفاق پاکستان کو متوازن کیا جا سکتا ہے اور ہمیشہ کے لئے سیاسی بحرانوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اقتدار کی جنگ میں معیشت تباہ ہو گئی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے، خزانہ خالی ہے ، تمام حکومتوں کا قرضوں پر انحصار ہے، 2021-22ء میں پاکستان نے تقریباً 20 ارب ڈالر کے ریکارڈ غیر ملکی قرضے لئے جبکہ حاصل کردہ غیر ملکی قرضوں کا حجم مالی سال 2021-22ء کے مقابلے میں 27 فیصد رہا۔ اب گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی کیلئے چھ نام وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو بھجوا دئیے گئے ، نیب کا ادارہ بھی سربراہ کے بغیر چلایاجاتا رہا اور پی ٹی وی کا چیئرمین بھی کوئی نہیں ہے۔

قرضوں کے معاملے میں عمران خان نے اپنی تقریروں اور اپنے وعدوں کے برعکس عمل کیا اور موجودہ حکومت کی حالت تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ منظور ہونے پر جشن منایا جاتا ہے حالانکہ قرضوں پر ماتم ہونا چاہئے۔ غریبوں کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں ، ایک طرف بارشوں نے غریبوں کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے دوسری طرف بجلی کے بھاری بلوں نے غریب کا سکون چھین لیا ہے۔ سیاسی بحران کے ساتھ معاشی بحران بھی بدترین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، غربت اور بیروزگاری سے سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو چکا ہے، ڈاکہ اور چوری کی وارداتوں میں اضافے کے ساتھ اغوا کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

گزشتہ روز سانحہ ماچھکہ کے شہداء کی تعزیت کیلئے جانا ہوا تو کچے کے علاقے میں اغوا کی وارداتوں کا ذکر ہو رہا تھا کہ ڈاکوئوں نے روجھان کے چار آدمیوں کو اغوا کر لیا ہے ، تاوان کے ساتھ ملزمان کی رہائی کے بھی مطالبے کئے جا رہے ہیں۔ امن و امان کی صورت حال بدتر ہوتی جا رہی ہے ، حکمرانوں کو کرسی اور اقتدار کی لڑائیوں سے فرصت نہیں، جیسا کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ ایک طرف معاشی بحران ہے دوسری طرف حکومت نے قومی اثاثوں کی فروخت کیلئے آرڈیننس جاری کیا ہے، ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ خزانے پر بوجھ سبسڈی والے اداروں کی نجکاری کی جائے گی مگر عملی طور پر منافع بخش ادارے جیسا کہ مسلم کمرشل بینک، ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری جیسے درجنوں اداروں کی نجکاری کی گئی، پی ٹی سی ایل جیسے منافع بخش اداروں کے حصص فروخت ہوئے۔

ریاست کے اداروں کی فروختگی ریاست بیچنے کے مترادف ہے۔ حکمرانوں کو قوم پر ترس کھانا چاہئے۔ غربت ختم کرنے کی بجائے غریب مکائو پروگرام سے حکومت کو احتراز کرنا چاہئے، میں نے سانحہ ماچھکہ کا ذکر کیا، ہم ماچھکہ سے جائے حادثہ بستی دولت پور کیلئے روانہ ہوئے تو نہ کوئی سڑک نہ راستہ ، نہ سکول نہ ہسپتال، غربت سے مرجھائے چہرے حادثہ سے مزید غمناک نظر آئے، ہمارے وفد میں وفدمیں سرائیکی رہنما راشد عزیز بھٹہ ،سینئر صحافی عبدالغفار مہر، رئیس مجتبیٰ ترہیلی، کبیر سولنگی، حماد اللہ خان، بختو جان، غلام مصطفی دھریجہ، جام رفیع دھریجہ اور آصف دھریجہ شامل تھے، راستے میں تاحد نگاہ لہلہاتے کھیت نظر آئے، کماد کے ساتھ آم کے باغ بہشت کا منظر پیش کر رہے تھے، میں نے صدر پریس کلب مہر عبدالغفار سے کہا کہ کرنسی نوٹ دولت نہیں اصل دولت یہ ہے جو میرے وسیب میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے.

سوال یہ ہے کہ زرخیز ترین خطے کے لوگ محرومی اور پسماندگی کا شکار کیوں ہیں؟۔ لواحقین میں سے حاجی غلام حسین سولنگی، غلام اکبر خان سولنگی، رئیس اکبر سولنگی نے کہا کہ ہم آبائو اجداد سے اس علاقے میںزندگی بسر کر رہے ہیں مگر کبھی اتنا بڑا سانحہ پیش نہیںآیا، قدرت کو جو منظور تھا مگر حکمرانوں کی بے حسی کا بہت دکھ ہے، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور کوئی وزیر یا مشیر نہیںآیا، صرف کمشنر صاحب آئے تھے۔خطے کے جاگیرداروں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ سماجی اور انسانی حقوق کے ادارے بھی خاموش ہیں، اس سے بڑھ کر قیامت کیا ہوگی کہ وسیب میں بارات کی کشتی ڈوب گئی اور حکومت و اپوزیشن اقتدار کی جنگ لڑرہے ہیں۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ فوری طور پر ماچھکہ پہنچیں اور اپنی آنکھوں سے آکر دیکھیں کہ کائنات کے زرخیز ترین خطے میں رہنے والے لوگ کس طرح بدترین زندگی گزار رہے ہیں.

سڑکوںکا نام و نشان نہیں، نہ سکول نہ ہسپتال اور نہ ہی بنیادی زندگی کی سہولتیں، کیا وسیب میں رہنے والے لوگ انسان نہیں؟۔ شہداء کی یاد میں دریائے سندھ پر ماچھکہ اور کھڑوڑ کے درمیان پُل تعمیر کریں۔ بعد ازاںہم نے نور شاہ قبرستان پہنچ کر دریائے سندھ میں کشتی حادثہ سے جاں بحق ہونیوالوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھی اور مغفرت کیلئے دعا کی، اس موقع پرہم نے پڑھے لکھے افراد اور نوجوانوں میں ادارہ جھوک کی طرف سے سرائیکی کتابیں تقسیم کیںتاکہ پسماندہ علاقوں میں علم اور آگاہی میں اضافہ ہو۔

Comments

Click here to post a comment