ہوم << غیرت کے نام پر قتل: دو باتیں - زاہد مغل

غیرت کے نام پر قتل: دو باتیں - زاہد مغل

زاہد مغل - بے نظیر کے قتل پر بے نظیر سے محبت کرنے والوں نے ملک میں کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا اور سینکڑوں کو موت کے گھات اتار دیا
- سیاسی ریلیوں، دھرنوں و احتجاجوں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا روز مرہ کا معاملہ ہے
- محلے میں کوئی ڈاکو ھاتھ چڑھ جائے تو لوگ مار مار کر اس کا حشر کردیتے ہیں
- ہر معاملے کے احتجاج میں لوگ سڑکیں بند کرکے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردیتے ہیں
یہ صرف چند مثالیں۔ بتائیے کیا یہ سب کام کسی مذہبی دلیل کی بنا پر کیے جاتے ہیں؟ کیا مولویوں نے لوگوں کو کہا ہے کہ تم احتجاج کرتے وقت توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ شروع کردیا کرو؟ یہ سب معاشرتی رویے لوگوں کے جذباتی ہیجان و عدم توازن (imbalance) کی علامت ہیں، ان کی کوئی مذہبی توجیہہ نہیں۔ بعینہ اگر کچھ لوگ غیرت کے نام پر کسی کا ناحق قتل کرگزرتے ہیں تو اس کا نہ تو کوئی مذہبی جواز ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی توجیہ، یہ صرف اور صرف ایک شخص کا جذباتی عدم توازن ہے، قریب قریب اسی طرح جیسے کچھ لوگ غصے میں معمولی بات پر گالم گلوچ کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کا جذباتی عدم توازن ہمارے یہاں کیا صرف غیرت کے جذبے کے ساتھ ہی منسلک ہے؟
اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی جائز جذبے یا کیفیت سے مغلوب ہوکر کوئی شخص حد اعتدال کو پار کرکے غلط کام کا ارتکاب کرگزرے تو صرف اسی حد تک اس کی مخالفت کی جاتی ہے کہ جس حد تک اس کا ناجائز اظہار کیا گیا، نہ یہ کہ اس جذبے یا کیفیت ہی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کرکے اس کی بیخ کنی شروع کردی جائے۔ اگر ایسا کرنا درست ہے تو ہمیں لوگوں کے احتجاج کرنے کے حق کو بھی ناجائز کہنا چاہیے کہ اس کی آڑ میں نجانے اب تک کتنے اربوں روپے کی قومی دولت کو نقصان پہنچایا جاچکا ہے نیز ہزاروں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کے رکنے کی کوئی امید نہیں، مگر اس سب کے باوجود ہم اس جمہوری حق کی بقا کے لیے جنگ کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ فی نفسہ اس تصور کو ہم جائز سمجھتے ہیں۔ غیرت کے لیے بھی یہی اصول یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارے خاندانی نظام کی بقا و استحکام کے لیے ایک کلیدی قدر ہے۔

Comments

Click here to post a comment