ہوم << وسط ایشیا کا ایک خاندان: کیا عروج، کیا زوال - فہد کیہر

وسط ایشیا کا ایک خاندان: کیا عروج، کیا زوال - فہد کیہر

ہارون الرشید، اپنے وزرا کے ساتھ۔ ایک تصوراتی خاکہ

بغداد کی داستان نامکمل ہے اگر وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کا ذکر نہ ہو۔ یہ تھا موجودہ افغانستان کے تاریخی شہر بلخ کا ایک خاندان، جسے تاریخ میں برمکی خاندان یا 'برامکہ' کہا جاتا ہے۔

برامکہ کا مطلب؟

دراصل یہ خاندان بلخ میں بدھ مت کی عظیم عبادت گاہ 'نو بہار' کا نگران تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نو بہار اصل میں سنسکرت کے لفظ 'نو وہاڑ'(نئی خانقاہ) کی بگڑی ہوئی شکل ہے جبکہ برمک بھی سنسکرت کے لفظ 'پرمکھ' کا عربی ورژن ہے، جس کے معنی ہیں مذہبی پیشوا۔ برمکوں کے آبا و اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے بلخ آئے تھے۔

بلخ میں اس خاندان کے پاس سب کچھ تھا، عزت، شہرت، دولت، لیکن اسلام کی آمد سے ان کی عبادت گاہ کی رونقیں ماند پڑ گئیں اور ساتھ ہی خاندان کا اثر و رسوخ بھی ختم ہو گیا۔

خاندان برامکہ کا نقطہ آغاز

بلخ 1885ء میں جو کبھی عظیم تہذیبوں کا سنگم تھا

اموی جرنیل قُتیبہ بن مسلم نے جب بلخ فتح کیا تو شہر کی تعمیرِ نو میں برمکی خاندان کے ایک فرد خالد بن برمک کو بھی ایک ذمہ داری عطا کی تھی۔بعد ازاں خالد نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھ ہی ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔

خالد نے عباسی تحریک میں بھی بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ ابو مسلم خراسانی کے قریبی ترین افراد میں سے تھا۔ یہ تحریک کامیاب ہوئی، بنو امیہ کے دَور کا خاتمہ ہو ا اور عباسی برسرِ اقتدار آ گئے اور ساتھ ہی برامکہ کے عروج کا دور بھی شروع ہو گیا۔

پہلے عباسی خلیفہ ابو العباس سفاح نے خالد کو دیوان الخراج کا ناظم بنایا اور پھر وزیر اعظم کے عہدے پر ترقی دی۔ خالد فارس، طبرستان اور موصل کا والی بھی بنایا گیا اور ایسے کارنامے انجام دیے کہ عباسی حکمرانوں کے دِلوں میں گھر کر گیا۔ ایسا کہ وزارتِ عظمیٰ سے لے کر کئی اہم صوبوں کی گورنری تک، سب کچھ اس کے خاندان کے قدموں میں نچھاور کر دیا گیا اور یہ سلسلہ دہائیوں تک چلتا رہا۔

ہارون کا عہد، برامکہ کا عروج

سن 776ء میں دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کا انتقال ہو گیا اور اقتدار اُس کے 20 سالہ بیٹے ہارون الرشید کو ملا، جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ تقریباً ربع صدی کے اِس دور نے ایک ایسی داستان چھوڑی جو شاید ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس عہد میں بغداد دنیا کا امیر ترین شہر بنا، نہ صرف شہر کے بلکہ پوری مسلم دنیا کے ایک سنہری دور کا آغاز ہوا اور ایک عظیم علمی انقلاب بھی رونما ہوا، جس میں خاندانِ برامکہ کا بھی بہت اہم اور نمایاں کردار تھا۔

ہارون الرشید ایک تعلیم یافتہ شخص تھا، اس کے استاد خالد برمک اور اس کا بیٹا یحییٰ بن خالد تھے۔ یحییٰ کا بیٹا جعفر ہارون الرشید کا ہم عمر، ہم عصر اور ہم خیال تھا۔ دونوں کی دوستی بھی بہت تھی۔ الف لیلہ کی کئی داستانوں میں ہمیں ہارون اور جعفر ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں، بھیس بدل کر بغداد کی گلیوں میں گھومتے اور عوام کے مسائل جاننے کی کوشش کرتے۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ خود الف لیلہ کی داستانوں کا آغاز بھی وسطِ ایشیا سے ہوتا ہے، شہریار اور شاہ زمان نامی دو بھائیوں کی کہانی سے جن میں شہریار غالباً خراسان کا حکمران ہے جبکہ شاہ زمان کے بارے میں تو واضح لکھا ہے کہ وہ سمرقند کا حاکم تھا۔

خیر، انگریزی میں ایک اصطلاح Barmecide feast استعمال ہوتی ہے، یعنی برمکی دعوت۔ یہ دراصل الف لیلہ کے ایک واقعے سے نکلی ہے، جس میں ایک برمکی شہزادے کی ایک دعوت میں ایک فقیر کے سامنے خالی طشتریاں رکھی جاتی ہیں اور وہ اس طرح خوشی ان رکابیوں سے کھانے کی اداکاری کرتا ہے گویا واقعی ان میں بہترین کھانے رکھے ہوئے ہیں۔ اس تفریح طبع پر برمکی شہزادہ بہت خوش ہوتا ہے اور فقیر کو خوب کھلاتا پلاتا ہے۔

بہرحال، ہارون الرشید کے دَور میں محض علمی و معاشی انقلاب ہی نہیں آیا، بلکہ عسکری لحاظ سے بھی عباسی سلطنت دنیا کی طاقتور ترین حکومت بنی۔ ہارون ایک سال حج کے لیے جاتا اور ایک سال جہاد کے لیے۔ اپنی کئی بڑی اور اہم مہمات کی وجہ سے وہ سالہا سال دار الخلافہ سے غیر حاضر رہتا اور اس کی عدم موجودگی میں کارِ حکومت برامکہ چلاتے، گویا وہی اصل حاکم ہیں۔

خالد کے بعد اُس کا بیٹا یحییٰ 17 سال وزارتِ عظمی پر فائز رہا، پھر جعفر بن یحییٰ بھی اسی عہدے پر براجمان ہوا یعنی تیسری نسل بھی با اختیار، وہ بھی اتنی زیادہ کہ عوام کہتے تھے اصل حکومت تو جعفر کی ہے۔

ان نسل در نسل اختیارات نے برامکہ کو بہت عروج بخشا، مالی طور پر بھی اور سیاسی اثر و رسوخ کے لحاظ سے بھی۔ ان کی انتظامی صلاحیتیں اپنی جگہ، سخاوت میں بھی وہ بے مثال تھے اور یہی ان کی وجہ شہرت تھی۔ کہتے ہیں یحییٰ کا فہم، فضل کی خود داری و فیاضی، جعفر کی خوش بیانی زبان زدِ عام تھی۔

خیر، برمکی خاندان گو کہ بغداد کے رنگوں میں ڈھل چکا تھا لیکن ان کا وسطِ ایشیا سے تعلق ٹوٹا نہیں تھا۔ یحییٰ کا بیٹا فضل تو والئ خراسان کی حیثیت سے واپس بھی گیا، جہاں آبائی شہر بلخ بھی اس کی حکمرانی میں تھا۔

ایک زبردست علمی تحریک

ہارون الرشید، اپنے وزرا کے ساتھ۔ ایک تصوراتی خاکہ

خاندانِ برامکہ نے ہارون الرشید کی سرپرستی میں ایک عظیم علمی تحریک کا آغاز کیا۔ یحییٰ، جعفر اور فضل، سب بغداد میں فلسفہ، ریاضی، فلکیات اور طب کے شعبوں کے بڑے سرپرست تھے۔ ان موضوعات پر مہارت رکھنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق وسطِ ایشیا سے ہی تھا اور جو سب سے نمایاں کام انہوں نے کیا، وہ یونانی، لاطینی اور دیگر زبانوں سے اہم کتابوں کا عربی میں ترجمہ تھا۔

ویسے تو ترجمے کا کام خلیفہ منصور کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن وہ محض فلکیات تک ہی محدود رہا۔ ہارون بھی شاید انہی خطوط پر آگے چلتا اگر برامکہ نہ ہوتے۔

اصل میں یہ برامکہ کا پرانا خاندانی کام تھا۔ جیسا کہ اوپر ذکر آیا تھا کہ برامکہ اصل میں بلخ کی بدھ عبادت گاہ 'نو بہار' کے نگران تھے، جو بدھ مت کے پیروکاروں کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی تھی۔ اس حیثیت سے برمکی خاندان صدیوں سے ہندوستان اور وسطِ ایشیا کے درمیان ایک اہم علمی خدمت بھی انجام دیتا رہا۔ دراصل بلخ بدھ مت کی کتابوں کے ترجموں کا مرکز تھا، جہاں سے یہ ترجمہ شدہ کتب وسط ایشیا بلکہ چین تک بھیجی جاتی تھیں۔

وقت بدلا، حالات بدلے، زمانہ بدل گیا لیکن برمکی خاندان کی علم دوستی میں کوئی کمی نہ آئی۔ بغداد میں یحییٰ برمکی نے طبّ پر کئی ہندوستانی کتب کے ترجمے کروائے اور بغداد میں طبّ کے شعبے کا سرپرست بن کر سامنے آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں سنسکرت کے جتنے بھی تراجم ہوئی، وہ یحییٰ برمکی نے ہی کروائے تھے۔

جب یہ کام بڑھنے لگا تو کتابوں کا کاروبار بھی اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ تب برامکہ نے بغداد میں کاغذ کا پہلا کارخانہ لگایا۔ اُس زمانے میں کاغذ کی ایک نفیس قسم تو انہی کے نام سے فروخت ہوتی تھی۔

برامکہ کا زوال

جب کوئی عزت، مرتبے و شہرت میں بادشاہوں کی عظمت کو چھونے لگے تو حکمران اسے اپنے لیے خطرہ تصوّر کرتے ہیں۔ طاقت و اختیار جہاں شہرت و عظمت کا دروازہ ہیں، وہیں تباہی و بربادی کا نطقہ آغاز بھی ہیں۔ برامکہ کے ساتھ بھی بالآخر ایسا ہی ہوا۔ ہارون الرشید نے سن 803ء میں وہ قدم اٹھایا، جس کے بارے میں آج بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟

ایک روز ہارون الرشید نے اپنے وزیر بلکہ دوست و ساتھی جعفر بن یحییٰ برمکی کو اچانک قتل کروا دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی لاش عبرت کے لیے سرِ عام لٹکوا دی۔ پھر اپنے بزرگ اتالیق، سابق وزیر اعظم یحییٰ برمکی اور فضل برمکی کو قید بھی میں ڈالا، اس یحییٰ کو کہ جسے ہارون 'بابا' کہہ کر بلاتا تھا۔ یہ سب کیوں کیا گیا؟ افسانے تو بہت ہیں، ایسے بھی کہ جو ناقابلِ بیان ہیں اور جن کا حقیقت سے دُور پرے کا بھی تعلق نہیں لیکن حقیقت کا کسی کو علم نہیں۔

جو قرینِ قیاس لگتا ہے وہ یہ کہ ہارون الرشید نے یہ انتہائی قدم اس لیے اٹھایا کیونکہ وہ اہم عہدوں پر ایک ہی خاندان کی گرفت کو مناسب نہیں سمجھتا تھا۔

ویسے حیرت کی بات نہیں کہ جنہوں نے خلافت کو بادشاہت کا روپ دیا اور محض اس لیے "خلیفۃ المسلمین" ہونے کا دعویٰ کرتے تھے کہ اس سے پہلے یہ "خلافت" ان کے باپ کے پاس تھی، وہ بھی اپنی ناک کے نیچے ایک عہدے پر کسی کا موروثی حق تسلیم نہیں کرتے تھے۔ یعنی نسل در نسل تخت پر بیٹھنے والے بادشاہ بھی جانتے تھے کہ اقتدار وراثت میں ملنے والی چیز ہے ہی نہیں اور ایسا کرنا اصل میں میرٹ کا قتل ہے۔

برامکہ نے جس طرح عباسی خاندان کی نسل در نسل خدمت کی تھی، وہ اس سلوک کے ہر گز مستحق نہیں تھے۔ حالانکہ اُن پر کبھی کسی سازش کا شک بھی نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے الزام لگایا۔ وہ ہر حکم بجا لائے، چاہے وہ میدانِ جنگ میں دیا گیا ہو یا نظم و نسق سے تعلق رکھتا ہو۔ ان کی اصلاحات کے نتیجے میں عباسی حکومت نے نہ صرف عسکری بلکہ مالی لحاظ سے بھی استحکام پایا۔ وہ علم و فن کے قدر دان تھے، علما و شعرا کے سرپرست تھے۔

بہرحال، برمکی خاندان کے خاتمے کے بعد موت کی سی خاموشی طاری ہو گئی۔ فضل اور جعفر کے علاوہ یحییٰ برمکی کے دو بیٹے اور تھے، ایک محمد اور دوسرا موسیٰ۔ ان میں سے موسیٰ اپنی شجاعت و بہادری کی وجہ سے مشہور تھا اور ایک زمانے میں شام کا والی بھی رہا تھا۔ اسے مامون الرشید نے اپنے دور میں رہا کیا اور ایک مرتبہ پھر فوج میں شامل کیا۔ جب امین الرشید اور مامون الرشید کے درمیان خانہ جنگی ہوئی تو موسیٰ نے آخر میں مامون کا ساتھ دیا جس کے انعام میں اسے سندھ کا والی مقرر کیا گیا۔ سن 835ء میں موسیٰ کا سندھ ہی میں انتقال ہوا۔

موسیٰ برمکی کا ایک سکہ جب وہ سندھ کا والی تھا

ہارون الرشید خود وسطِ ایشیا میں

ویسے ہارون الرشید کی اپنی موت بھی وسطِ ایشیا میں ہوئی۔ سن 808ء میں ہارون الرشید نصر ابنِ سیّار کے پوتے رفیع ابن اللیث کی بغاوت کے خاتمے کے لیے سمرقند کی جانب بڑھا لیکن اس سفر نے ہارون کو سخت بیمار کر دیا، یہاں تک کہ مارچ 809ء میں وہ طوس کے مقام پر دَم توڑ گیا اور وہیں دفن ہوا۔ یہی شہر عظیم شاعر فردوسی کا بھی مدفن ہے اور اسی کی خاک سے امام غزالی، جابر ابن حیان، نظام الملک طوسی اور دیگر کئی شخصیات اُبھریں۔

سلطنتِ عباسیہ، ہارون الرشید کے عہد میں

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment