ہوم << عظیم بغداد کا وسطِ ایشیا سے کنکشن - فہد کیہر

عظیم بغداد کا وسطِ ایشیا سے کنکشن - فہد کیہر

بغداد اور اس کی افسانوی داستانیں، آخر ایسا کون ہے جو ان کہانیوں کے بارے میں نہیں جانتا ہوگا؟ الف لیلہ کا بغداد، سندباد، علی بابا، الہ دین کی کہانیاں، محبت کی، غم کی، جِنوں، جادوگروں کی کہانیاں کہ جن کا مرکز و محور بغداد تھا۔ دنیا کی ہر اہم زبان میں الف لیلہ کا ترجمہ موجود ہوا اور یوں سب کے لیے بغداد ایک جادوئی اور خیالی دنیا بن گیا۔ ایک ایسا شہر، جس کی بنیادوں سے بلندیوں تک وسطِ ایشیا کا خون، پسینہ اور ذہن شامل رہا۔

نویں صدی کا بغداد علم و فن کا ایک عالمی مرکز تھا، تحقیق و ترقی کا مسکن تھا، سیاسی و عسکری طاقت کا محور اور معیشت کا انتہائی مضبوط ٹھکانہ تھا۔ بغداد کے عروج کا زمانہ سائنس کی ترقی کا دَور بھی تھا اور اس میں بہت اہم حصہ ڈالا اُن شخصیات نے جن کا تعلق ہمارے وسطِ ایشیا سے تھا، آغاز سے لے کر اختتام تک۔

وسطِ ایشیا کا بڑھتا اثر و رسوخ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امویوں کی طرح عباسی حکومت بھی عرب ہی تھی، لیکن عباسیوں کی اصل طاقت وسطِ ایشیا میں تھی۔ اگر الف لیلوی داستان ہی کے الفاظ استعمال کریں تو وسطِ ایشیا وہ طوطا تھا، جس میں مرکزی عباسی حکومت کی جان تھی۔

ابو جعفر المنصور کو اِس طاقت کا بخوبی اندازہ تھا، وہ جانتا تھا کہ اگر وسطِ ایشیا کو قابو نہیں کیا گیا تو عباسی خاندان بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے بروقت ابو مسلم خراسانی کا خاتمہ کروایا کیونکہ جو طاقت اُس کے پاس تھی، وہ خلیفہ بھی نہیں رکھتا تھا۔

لیکن ان فیصلوں کے باوجود خراسان اور ماورا النہر کی طاقت پھر بھی نہیں گھٹی اور بالآخر عباسیوں نے 'پاور شیئرنگ' کی پالیسی کا آغاز کر دیا اور انہیں اقتدار میں کسی نہ کسی حد تک وسطِ ایشیا کو حصہ دینا پڑا۔ اور کیوں نہ دیتے؟ عباسیوں کے دور میں سب سے بڑا معاشی مرکز یہی علاقہ تھا کیونکہ سب سے زیادہ محصول یہیں سے اکٹھا ہوتا تھا۔ پھر فوجی طاقت کے لیے بھی بغداد کا دار و مدار وسطِ ایشیا پر ہی تھا۔ پھرجیسے جیسے وقت گزرتا گیا، یہ انحصار بڑھتا ہی چلا گیا۔ آخر جب عرب اور دیگر عناصر کو زیر کرنے کے لیے عباسیوں نے تُرکوں پر بھروسا کرنا شروع کیا تو وسطِ ایشیا کی اہمیت کہیں بڑھ ہو گئی۔

عباسیوں کے ابتدائی دور سے ہی وسطِ ایشیا سے کئی شخصیات سامنے آئیں، ایسی کہ دنیا آج تک انہیں یاد کرتی ہے۔ ان شخصیات کی طرف بڑھنے سے پہلے کچھ داستان بغداد کی، کیونکہ بعد میں یہ وسطِ ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم علمی، معاشی و عسکری مرکز بننے والا تھا اور پھر احوال ہوگا 'برامکہ' کا، وسطِ ایشیا کا وہ خاندان جو عباسیوں کی حکومت میں سیاہ و سفید کا مالک بنا اور پھر حیران کن طور پر اچانک اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔

داستان بغداد کی

بغداد کا سنگِ بنیاد 762ء میں دریائے دجلہ کے کنارے رکھا گیا۔ یہ خلیفہ جعفر المنصور کا دَور تھا، جس کے ذہن میں ایک نئے دارالحکومت کا خیال تھا۔ بنو امیہ کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے وہ دمشق کو مرکز نہیں بنانا چاہتا تھا اور کوفہ کی تاریخ بھی ایسی تھی کہ وہ اسے دار الخلافہ بنانے پر بھی آمادہ نہیں تھا۔ اسی لیے ایک نیا شہر بسانے کا ارادہ کیا اور پھر بابل اور مدائن کے کھنڈرات سے کچھ دُور ایک جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ خلیفہ نے تو اسے 'مدینۃ السلام' یعنی سلامتی کے شہر کا نام دیا لیکن دنیا اسے جانتی تھی، جانتی ہے اور جانتی رہے گی صرف بغداد کے نام سے۔ اِس جگہ کا انتخاب بھی جن لوگوں کے مشورے سے کیا گیا، ان میں سب سے نمایاں ابو سہل الفضل نو بخت تھا، جس کا تعلق مرو سے تھا۔

پھر ایک لاکھ ماہر کاریگروں اور مزدوروں نے اس شہر کی بنیادیں رکھیں۔ ان میں سے زیادہ تر وسطِ ایشیا کے مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ پھر وہاں سے اتنے لوگ آئے کہ نئے شہر کا چوتھائی حصہ ان لوگوں کے لیے مختص کیا گیا جو وسطِ ایشیا سے تھے۔ یہ امتیاز کسی خطے کو حاصل نہیں ہوا کہ بغداد کا کوئی حصہ اُن کے لیے مخصوص کیا گیا ہو۔ یہی نہیں بلکہ مدینۃ السلام کی مرکزی شاہراہ بھی مرو کے نام پر رکھی گئی۔ واحد شہر جسے کسی خلیفہ نے یہ اعزاز دیا۔

یہ شہر دائرے کی صورت میں تعمیر کیا گیا، جس کے چار داخلی دروازے تھے اور شہر کے مرکز میں جامع مسجد نہیں بلکہ خلیفہ کا محل بنایا گیا، جس کا گنبد سبز رنگ کا تھا۔

لیکن یہ شہر دائرے ہی میں کیوں بنایا گیا؟ اس بارے میں مؤرخ کہتے ہیں کہ خلیفہ بننے سے پہلے ایک مرتبہ ابو جفر المنصور مرو کے دورے پر گیا تھا۔ یہاں اس نے ارک قلعہ کے ہزار سال پرانے کھنڈرات دیکھے، جو گولائی میں بنایا گیا تھا۔ خستہ حالت کے باوجود اس کی دیواریں اسّی فٹ تک بلند تھیں۔ ہو سکتا ہے مستقبل کا خلیفہ اس طرزِ تعمیر سے متاثر ہوا ہو اور جب خود شہر بسایا تو اسی انداز کو اختیار کیا ہو؟ خیر، بغداد ارک قلعے سے کہیں بڑا تھا، 94 ایکڑ کے مقابلے میں 740 ایکڑ پر پھیلا ہوا ایک بہت بہت بڑا شہر، جس نے بعد میں عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

Comments

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment