ہوم << اللہ کی محبت کیا ہے؟ اسوہ بتول

اللہ کی محبت کیا ہے؟ اسوہ بتول

اللہ کی محبت کیا ہے؟
اللہ کی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس سے انسان دنیا و مافیہا کی ہر پریشانی اور دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت کے سرور میں انسان دنیا اور اس کی لذتوں سے بے نیاز جاتا ہے۔ اللہ کی محبت انسان کو دنیا والوں اور ان کی تلخ باتوں سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے۔ یعنی انسان کو پرواہ نہیں رہتی کہ لوگ کیا کہیں گے بلکہ وہ صرف اللہ کے احکام کو پورا کر کے، اللہ کی محبت حاصل کرنے کی پرواہ کرتا ہے۔ جس کو اللہ سے محبت ہوتی ہے اس کا دل و دماغ ہمیشہ اللہ کی باتوں اور اللہ کے ذکر میں لگا رہتا ہے۔ وہ اللہ سے ملاقات کے لئے بیتاب رہتا ہے ۔ پھر ایسے شخص کے لئے نماز بوجھ کیوں کر ہوگی (نماز بھی تو اللہ سے ملاقات ہی ہوتی ہے ناں)- پھر اللہ سے محبت کرنے والے شخص کو اللہ سے منسلک ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے چاہے وہ کعبہ ہو یا اللہ کا کلام قرآن ہو یا اللہ کے رسول ﷺ ہوں۔

اللہ سے محبت کیسی ہونی چاہیے؟
اللہ سے محبت ہر چیز اور ہر ہستی کی محبت سے زیادہ ہونی چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے: "ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔" (سورہ البقرہ: 165) یعنی ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ آدمی کے لئے اللہ کی محبت ہر دوسرے کی محبت پر مقدم ہو۔ اور کسی بھی چیز کی محبت انسان کے دل میں یہ مقام و مرتبہ نہ حاصل کر لے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔ ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا: "اے نبی ؐ ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں ، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کاتم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اس کے رسُول ؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔" (سورۃ التوبہ: 24) اس آیت میں "اللہ اپنا فیصلہ ہمارے سامنے لے آئے" سے مراد یہ ہے کہ اللہ ہمیں ہٹا کر دین داری کی نعمت اور پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے۔ اگر دنیاوی چیزوں کی محبت ہمارے دل میں اللہ تعالی کی محبت سے زیادہ ہو جائے، تو ہمیں اللہ کے اِس فیصلے سے ڈرنا چاہیے۔

اللہ تعالی سے اتنی زیادہ محبت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں زندگی ہی نہیں بلکہ زندگی بسر کرنے کے تمام لوازمات بھی عطا کئے ہیں ۔ ایمان، صحت اور تندرستی، علم اور حکمت، توانائی اور عقل، رزق اور رہائش، غرض یہ کہ اس کی عنایات کا شمار کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ خود اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا: "اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے۔"(سورہ النحل: 18) یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس اس ان گنت نعمتوں کے عطا کرنے والے سے ہی محبت نہ کریں؟ کہیں ہم ان نعمتوں کو اپنا حق تو نہیں سمجھ بیٹھے؟ اگر ہم ان نعمتوں کو اللہ ہی کی طرف سے سمجھتے ہیں، تو ہمارے دل میں ضرور جذبہ محبت و احسان مندی کثرت سے پیدا ہوگا۔ یعنی ہم سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی سے کرنے لگیں گے۔

شرطِ محبت-اطاعتِ رسول
قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا: "اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔" (سورہ آل عمران: 31)
اللہ تعالی نے دنیا میں رسول اس لیے بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو سیدھی راہ اور نیکی کی طرف ہدایت کریں اور جو کوئی بھی رسول کی اطاعت کرتے ہوئے ہدایت پا جائے گا،تو اللہ تعالی تو ہدایت یافتہ لوگوں سے محبت ہی کرتا ہے۔ اس لیے شرطِ محبت-اطاعتِ رسول ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اس کی (رسول کی) اطاعت کرو گے، تو خود ہی ہدایت پاؤ گے۔" (سورہ النور: 54)

اللہ تعالی کس سے محبت کرتا ہے؟
وہ کون سے خوش قسمت لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے؟ مندرجہ ذیل قرآنی آیات میں اس سوال کے جوابات ہیں۔
●"احسان کا طریقہ اختیار کرو کیونکہ اللہ محسنوں سے محبت کرتا ہے۔"(سورہ البقرہ: 195)
احسان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے فرائض سے زیادہ کام کرے۔ جیسے کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے۔ تو نفل، تہجد وغیرہ پڑھنا احسان کہلاتا ہے۔ رمضان کے روزے فرض ہیں اس کے علاوہ اگر ایام بیض اور پیر جمعرات کا روزہ رکھا جائے تو وہ احسان ہے۔ زکوۃ فرض ہے اس کے علاوہ اگر صدقہ کیا جائے تو وہ احسان ہے۔ حج فرض ہے اس کے علاوہ اگر عمرہ کیا جائے تو وہ احسان ہے۔اور بندوں کے معاملے میں احسان یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ دے دیا جائے۔

●"بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو توبہ کرتے ہیں اور پاکیزگی اختیار کرتے ہیں۔" (سورہ البقرہ: 222)
توبہ کرنے کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی طرف پلٹنا یعنی غلط راستے سے پلٹ کر سیدھی راہ کی طرف آ جانا توبہ کہلاتا ہے۔ اور یہاں پاکیزگی سے مراد جسمانی پاکیزگی بھی ہے اور روحانی پاکیزگی بھی۔

●"اور جو اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا، وہ اللہ کا محبوب بنے گا کیونکہ اللہ پرہیزگار لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔" (سورہ آل عمران: 76)
پرہیزگاری کا مطلب ہمیں اس آیت کے شروع والے حصے سے ہی مل گیا ہے ۔

●"اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔" (سورہ آل عمران: 159)
بھروسہ کرنے کا مطلب ہے کہ انسان اپنی قوت اور صلاحیت کسی کام میں لگا دے لیکن اس کو یقین ہو کہ ہوگا وہی جو منظورِ خدا ہوگا۔ وہ اللہ پر بھروسہ رکھے کہ اللہ تعالی جو کریں گے وہ اس کے اپنے ہی حق میں بہتر ہوگا۔

●"اور اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔" (سورہ المائدہ: 42)
انصاف پسند انسان وہ ہے جو ہر حال میں انصاف کرے چاہے انصاف کرنے سے اس کا اپنا ہی دنیاوی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو۔

●"بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔" (سورہ الصف: 4)
یعنی اللہ تعالی کو ایسی فوج سے محبت ہے جو اتحاد، تنظیم، خلوص اور اپنے مقصد کے حصول کی تڑپ رکھتی ہو، کیوں کہ یہی فوج سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہلانے کے لائق ہے۔

●"بے شک اللہ صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔" (سورہ آل عمران: 146)
صبر کرنے کے لغوی معنی ثابت قدم رہنا ہے۔ زندگی کی مشکلات کے آگے ہار نہ ماننا اور ثابت قدم رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ کوئی نقصان پہنچنے پر مایوس ہونے کے بجائے ثابت قدم رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ نیکیاں کرتے ہوئے ثابت قدم رہنا اور برائیوں کے خلاف ثابت قدم رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔

اوپر دی گئی آیات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں۔ تو پھر یہ صفات خود میں پیدا کرنے میں دیر کیسی؟

اللہ کی محبت کے فوائد:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: " جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے : میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو ، تو جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں ، کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے ، تم بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بُلا کر فرماتا ہے : میں فلاں شخص سے بغض رکھتا ہوں ، تم بھی اس سے بغض رکھو ، تو جبرئیل علیہ السلام اس سے بغض رکھتے ہیں ، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ہے ، تم بھی اس سے بغض رکھو ،تو وہ ( سب ) اس سے بغض رکھتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے ۔"(صحیح مسلم :6705)

اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی محبت کتنی بڑی نعمت ثابت ہوسکتی ہے اور اللہ کی نفرت مول لینے سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور ان کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنا، ہمارے لئے قیامت کے دن حساب دینے میں بہت مدد کرے گا۔ یوں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہمیں جنت میں لے جائے گی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے ؟ اس نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ۔ آپ نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم کو محبت ہے۔" (صحیح مسلم: 6710)

Comments

Click here to post a comment