ہوم << تنقید جدید...عامر عثمانی

تنقید جدید...عامر عثمانی

13307432_1037862189601988_6010912965968147344_n
ایک مظلوم شوہر گرمیوں کی دوپہر میں ٹھیک بارہ بجے گھر لوٹا۔ اس کا معدہ مارے بھوک کے حلق تک چڑھ آیا تھا۔ اسے توقع تھی کہ اس کی شوہر پرست بیوی باورچی خانے کی پیڑھی پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی ہو گی۔ لیکن جب وہ اکسٹھ باسٹھ کرتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ باورچی خانہ تو ویران پڑا ہے اور بیوی دالان کے پلنگ پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نوشت و خواند میں مشغول ہے۔
جی ہاں نوشت و خواند! بیوی کے ایک ہاتھ میں قلم تھا اور دوسرے میں اخبار۔ وہ زیر مطالعہ مضمون پر ٹک مارک لگاتی جا رہی تھی اور گاہے گاہے ایک کاغذ پر کچھ لکھ بھی لیتی تھی۔ اخبار کا مطلب آپ نے غلط سمجھا۔ وہ فی الحقیقت اخبار نہیں تھا مگر رسالہ بھی نہیں تھا وہ ایک بین بین چیز تھی۔ ویسے اس کی پیشانی پر ’’اخبار‘‘ ہی لکھا ہوا تھا مگر ظاہر ہے خچر کے ماتھے پر آپ گدھا یا گھوڑا لکھ دیں تو وہ اپنی نسل نہیں بدل لے گا۔ بہرکیف شوہر مارے غصے کے آگ بگولا ہو گیا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا بیوی کے سر پر پہنچا مگر بیوی اپنے شغل میں اس درجہ منہمک تھی کہ اسے اب بھی شوہر کی آمد کا احساس نہیں ہوا۔ دراصل شوہر کی طرف اس کی پشت تھی یا آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ شوہر کا منہ اس کی پشت کی طرف تھا۔
شوہر نے فرط غیظ میں ارادہ کیا کہ پستول نکال کر بیوی کی عین گدی پر داغ دے مگر اس کے پاس پستول نہیں تھا پستول تو اس نے سوائے فلم کے کہیں دیکھابھی نہیں تھا۔ پھر اس نے ارادہ کیا کہ شیر کی طرح دھاڑے لیکن وہ ایسا بھی نہ کر سکا۔ کیونکہ ایک پرانی یاد اس کے ارادے اور عمل کے درمیان مخل ہو گئی ایک بار اس نے اپنے دوست صوفی منظوم سے ٹریننگ لے کر بیوی پر شوہرانہ طمطراق کی آزمائش کی تھی نتیجے میں اسے دو وقت مونگ کی دال اور تیسرے وقت بینگن کا بھرتہ کھانا پڑا تھا۔ مونگ کی دال تو خیر آدمی اگل نگل کر کھا بھی لے مگر بینگن کا بھرتہ! اس کا تو فقط نام ہی اسے بلڈ پریشر میں مبتلا کر دیا کرتا تھا۔
پھر اس نے کیا کیا؟
635945871982069338masjid-mykhany
میں بتاتا ہوں کیا کیا صبر کیا! جی ہاں اس نے صبر کیا جس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ آپ تاؤ کھائیں گے کہ معاذاللہ اگر صبر ہی کرنا تھا تو شوہر بننے کی کیا ضرورت تھی۔ میں کہتا ہوں اگر آپ میری جگہ ہوتے تو آپ کو بھی صبر ہی کرنا پڑتا کیوں کہ جس شوہر کا تذکرہ ہے وہ تو خود میں ہی ہوں۔ میں ہی ہوں وہ سیاہ بخت جو دوپہر میں بھوکا پیاسا لوٹا تھا اور میری ہی بیوی آمادۂ انتقام ہونے کی صورت میں بینگن کا بھرتہ ضرور ابالتی ہے۔
جب اس اللہ کی بندی کا انہماک کسی طرح ختم ہونے میں نہ آیا تو میں نے فقط اتنا کیا کہ عین کان کے قریب منہ لے جا کر فاختہ کی بولی بول دی یہ حرکت بچگانہ تھی۔ یقیناًتھی لیکن مجھے ایسا شخص دکھلائیے جو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کسی نہ کسی وقت بچہ نہ بن جاتا ہو۔ آپ کی بیوی اگر سچ مچ بیوی ہے تو قسم کھا کر بتائیے کیا آپ بھی وقتاً فوقتاً اس کے سامنے بچہ نہیں بن جاتے نہ نہ انکار سے پہلے بات سمجھ لیجیے، بچہ بننے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ فاختہ ہی کی بولی بولیں یا خدانخواستہ گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے پھریں بچہ بننے کے ہزار ڈھنگ ہیں، میں تفصیل میں جاؤں گا تو بات زلف یار کی طرح دراز ہو جائے گی۔ مختصر یہ ہے کہ میں نے فاختہ کی بولی بولی اور ضرور بولی اگر صوفی مسکین کا معاملہ ہوتا تو شاید میں گدھے کی بولی بولتا لیکن آپ نے سنا ہو گا دنیا کے سب سے بڑے انسان نے عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے:
’’یہ آبگینے ہیں!‘‘
پھر بھلا فاختہ سے بڑھ کر نرم و نازک آواز کس کی ہو گی۔
’’ہائے اللہ‘‘ وہ بے طرح چونکی ’’آپ تو زندگی بھر بچے ہی رہیں گے۔‘‘
’’اور تم عین جوانی میں بوڑھی ہو جاؤ گی۔ یہ اپنے بھیا کی طرح ماتھے پر درجن بھر شکنیں ڈال کر قلم گھسنا بڑھاپے کے سوا کیا کہلائے گا۔ غالباً تم تنقید کی ٹانگ توڑ رہی تھیں؟‘‘
اس کے چہرے پر جھینپا ہوا سا غصہ نمودار ہوا۔
’’آئے دن لوگ بھیا کے خلاف لکھتے رہتے ہیں آپ کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔‘‘
’’کیوں رینگے۔ تمہارے بھیا بھی تو کان رکھتے ہیں ان پر کوئی جوں کیوں نہیں رینگتی؟‘‘
’’ان کی بات اور ہے۔ اپنی ذات کے خلاف کیے گئے حملوں کا خود دفاع کرنا وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں آپ کو حمیت ہوتی تو یہ فرض آپ کا تھا۔‘‘
’’میرا کیوں تھا۔ مجھے کلیر شریف جانے کے لیے آٹھ دن کی چھٹی درکار تھی، تمہارے بھیا نے نہیں دی۔ میں بے چھٹی کے چلا جاتا مگر تم نے پیسے نہیں دیے۔ یہ ہے تم دونوں کا کردار پھر بھلا میں کیوں تمہاری یا تمہارے بھیا کی پروا کروں۔ ‘‘
’’شرم آنی چاہیے آپ کو۔ بڑے اچھے لگتے داڑھی لگا کر طوائفوں کا گانا سنتے۔‘‘
’’تو لاؤ پیسے دو میں داڑھی منڈوا کر چلا جاؤں گا۔ ویسے اگر تم بھی میرے ساتھ چلو تو یہ ضرور دکھلاؤں گا کہ زنان عاشقان اولیاء کے مجرے میں داڑھیوں کی پوری کھیتی لہراتی ہے۔‘‘
’’لہراتی ہو گی۔‘‘ وہ بھنّا کر بولی۔ ’’آپ جا کر نہا دھو لیجیے غسل خانے میں سب سامان تیار ہے۔‘‘
’’وہ تو ہے پہلے یہ بتاؤ تمہارے چہرے پر ڈھائی کیوں بج رہے ہیں؟‘‘
’’آپ ہی کا کرم ہے۔ اچانک کان میں کوک دیئے گھر میں چوروں کی طرح چپکے چپکے آنا بڑی تکلیف دہ بات ہے۔‘‘
’’چپکے چپکے۔ تو کیا بگل بجاتا آیا کروں۔ یوں کیوں نہیں کہتیں کہ کسی قلمی سورما نے تمہارے بھیا کی بڑی کس کے خبر لی ہے بس اسی کے صدمے میں تم ہوش و حواس کھو بیٹھی ہو۔‘‘
’’ہوش و حواس کھوئیں میرے دشمن۔ ہاں آپ کی طرح پتھر بھی نہیں ہوں کہ کسی بات کا اثر ہی نہ ہو۔ آپ تو کہا کرتے تھے کہ اہل حدیث لوگ بڑے مسکین ہوتے ہیں۔‘‘
’’اب بھی کہتا ہوں۔ یہ ہمارے صوفی مسکین بھی تو ایک زمانے میں اہل حدیث ہی تھے مگر کسی دنبالۂ عالم کے پھیر میں آ کر قلندر بن گئے۔‘‘
’’دنبالۂ عالم؟‘‘
’’ہاں۔ جس عورت کی چوٹی گھٹنے تک لمبی ہو اسے دنبالۂ عالم کہتے ہیں بالائی دُم ’‘’
’’اچھا اچھا آپ غسل خانے جائیے۔‘‘
غسل خانے میں دیر نہیں لگی۔ اتنے میں ملائن بھی اپنی نارمل حالت پر آ گئی۔ عجیب بات ہے کہ ملائن ویسے تو بڑے سے بڑے حادثے کا مقابلہ حیرت ناک تحمل سے کر جائے گی۔ شاید یہ میری موت پر بھی نہ روئے لیکن اپنے بھیا کے معاملے میں یہ بالکل موم ہے ذرا آنچ لگی اور پگھلا۔
’’کیوں نیک بخت‘‘ میں نے کھانے کے دوران پوچھا۔ اگر ایک ڈاکو پستول تان کر تم سے پوچھے کہ بتاؤ عامر عثمانی کو مار دوں یا ملا ابن العرب مکی کو، تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟‘‘
’’میں کہوں گی کہ فقط مجھے مارو، مجھ میں ان دونوں کی روح سمائی ہوئی ہے۔‘‘
’’بکواس۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ تہہ خانے میں پنجرا ہے، پنجرے میں طوطا ہے، طوطے میں کالے دیو کی روح ہے۔‘‘
’’کیسے نہیں۔ کیا اب بھی لوگ بت نہیں پوجتے۔ اگر اتنا بڑا خدا ایک مورتی میں سما سکتا ہے تو دو انسانوں کی روحیں کسی تیسرے جسم میں کیوں نہیں سما سکتیں۔
’’استغفراللہ۔کیا تمہارا خیال ہے کہ ڈاکو روحانیت کا فلسفہ پڑھ کر یہاں آئے گا۔ کان کھول کر سن لو میرا ڈاکو فقط مڈل پاس ہو گا یا ہو سکتا ہے اس نے اسکول ہی کا منہ نہ دیکھا ہو۔‘‘
’’تو پھر میں کہوں گی کہ گھر میں جو کچھ ہے سمیٹ لے جا، خون خرابہ کر کے کیا لے گا۔‘‘
’’نیک بخت مفروضات کا جواب یوں نہیں ہوا کرتا۔ ہم نے فرض کیا ہے کہ وہ دو میں سے ایک کو ضرور شوٹ کرنا چاہتا ہے عامر عثمانی یا ملا مکی۔ اب انتخاب تمہارے ہاتھ ہے۔‘‘
میں فرض کرتی ہوں کہ اس کے پستول میں گولی ہی نہیں ہے وہ تو فقط آٹھ روپے والا کھلونا لیے پھر رہا ہے۔‘‘
’’توبہ جواب میرے سوال کا دو۔ مان لو وہ سچ مچ ہی ریوالور تانے کھڑا ہے پھر؟‘‘
’’کیوں مان لوں اچھا چلیے مان لیا۔ پھر آپ بھی مانیے کہ میں اسے چمٹے مار مار کر ادھ موا کر دوں گی۔‘‘
’’تمہیں منطقی مباحث کی تمیز نہیں ہے۔ لعنت بھیجو لاؤ وہ اخبار دکھاؤ۔‘‘
’’نہیں دکھاؤں گی۔ آپ پہلے وعدہ کریں کہ اس کا جواب لکھیں گے۔‘‘
’’تم تو خود لکھ رہی تھیں لاؤ وہ بھی دکھاؤ کیا موتی بکھیرے ہیں۔‘‘
’’میں نے کچھ نہیں لکھا۔ میں بے چاری کیا لکھتی۔‘‘
’’بے چاریاں تو بہت لکھتی ہیں۔ آج کل ہر ادبی پرچے میں کسی نہ کسی بے چاری کا شہ پارہ ضرور ملتا ہے۔‘‘
’’افسانوں کی اور بات ہے ہم جھاڑو پھری عورتیں علمی مضمون کیا لکھیں گی۔‘‘
’’یہ لکھنوی ادائیں رہنے دو لاؤ دکھاؤ کیا لکھا ہے۔‘‘
’’ہرگز بھی نہیں آپ پیچھے پڑیں گے تو اخبار بھی چولہے میں رکھ دوں گی۔‘‘
’’تم بیوی ہو یا لاٹ صاحب لاؤ اخبار ہی لاؤ۔‘‘
اب وہ چیز میرے ہاتھ آ ہی گئی جس کے بارے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ نہ وہ اخبار ہے نہ رسالہ مگر اس کی پیشانی پر اخبار لکھا ہوا ہے۔ گویا اس کا نام یقیناًاخبار ہے مگر جنس نامعلوم۔ جنس کی تحقیق آپ کرنا ہی چاہیں تو اتنا اتا پتا اور دیئے دیتا ہوں کہ پورا نام ہے:
’’اخبار اہل حدیث‘‘
اس میں کسی ’’سمراوی‘‘ بزرگ نے عنوان جمایا تھا:
’’مدیر تجلی کا قلم‘‘
سمراوی کی پہیلی میں نہ بوجھ سکوں گا۔ ہو سکتا ہے وہ سمرسٹے کے رہنے والے ہوں۔ ہو سکتا ہے سمرقندی کو کاتب نے سمراوی بنا دیا ہو، ہو سکتا ہے سمرا کسی گاؤں کا نام ہو۔ یہ تیسرا ہی قیاس زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ مضمون کا اسلوب اور دروبست اسی کا موید ہے۔ سچ پوچھیے تو میں جھوم جھوم گیا۔
آپ خود سوچئے جس شخص سے آپ بیزار ہوں جس کی ایک ایک ادا آپ کو زہر لگتی ہو اسے کوئی بے نقط سنانے لگے تو آپ کو کتنی خوشی ہو گی مجھے سب سے زیادہ حسد اس لیے بھی ہے کہ ملائن اپنے بھیا پر جسے اردو میں مدیر تجلی کہتے ہیں جان دیتی ہے۔ بھائی پر جان دینا کوئی عیب نہیں۔ وہ اگر ترتیب گڑبڑ نہ کرتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ تھا مگر اس نے تو غضب یہ ڈھایا ہے کہ اگر آپ اس سے پوچھیں کہ تم بہن پہلے ہو یا بیوی؟ تو وہ پھٹ سے کہے گی پہلے بہن پھر بیوی۔ یہ ٹھیک ایسا ہی ہے کہ جیسے مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تم پہلے مسلمان ہو یا پہلے ہندوستانی تو غدار قسم کے مسلمان جو ہندوستان میں ساڑھے ننانوے فی صدی ہیں جواب دیتے ہیں کہ پہلے مسلمان پھر ہندوستانی۔ یہ غدارانہ جواب جس طرح جن سنگھ اور ہندو مہا سبھا وغیرہ کو فرط حسد سے شعلہ جوالا بنا دیتاہے اسی طرح میں بھی بیوی کی خواہرانہ ذہنیت سے انگاروں پر لوٹتا ہوں۔
آپ شاید کہیں گے کہ یہ ترتیب تو قدرتی ہے پہلے بہن پھر بیوی میں عرض کروں گا قدرتی ہے تو ہوا کرے۔ یہ بھی تو قدرتی ہے کہ کچھ لڑکیاں بدصورت ہوتی ہیں اور کچھ خوبصورت۔ پھر کیوں پہلی بے چاریاں دوسری باچاریوں سے جلتی ہیں؟
الحاصل میں نے مضمون پڑھا اور دل ہی دل میں مزے لوٹے۔ ظاہر میں تو اظہار غم ہی ضروری تھا۔ انتظاماً دو چار لمبے سانس بھی لیے تاکہ ان پر آہ سرد کا اطلاق ہو سکے۔
’’واقعی بڑا دردناک حادثہ ہے‘‘۔ میں نے مضمون ختم کر کے کہا:
’’میرے خلاف اگر کوئی ایسا لکھتا تو میں فوجداری کیس قائم کرتا۔ تم نے اپنے بھیا کو بھی دکھایا؟‘‘
’’دکھایا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’آغاز کا ایک پیرا پڑھا پھر اخبار مجھے لوٹا دیا۔‘‘
’’لوٹا دیا؟‘‘
’’ہاں۔ کہنے لگے فاضل مضمون نگار کا بنیادی خیال ہی غلط ہے پھر آگے کیا پڑھا جائے۔‘‘
’’خوب‘‘
’’یہ بھی کہا کہ پورا مضمون تم پڑھ لینا، اگر کوئی علمی بات قابل التفات نظر آئے تو نشان لگا کر رکھنا۔‘‘
’’تم نے پوچھا بھی کہ پہلے ہی پیرے میں انہیں بنیادی غلطی کیا نظر آ گئی ‘‘
’’پوچھا تھا۔ کہنے لگے یہ جو فاضل مضمون نگار نے میری ذات کے بارے میں دو فقرے لکھے ہیں یہ دونوں ہی الٹے ہیں۔‘‘
’’کو ن سے فقرے؟‘‘
میں نے اخبار ملائن کی طرف بڑھایا ۔ اس نے ذیل کے فقروں پر انگلی رکھ دی:
’’گو ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ عامر صاحب ایک صاحب علم اور گہرے مطالعے کے آدمی ہیں تاہم اتنا ضرور کہیں گے کہ فطرت کی کمی اور ٹیڑھا پن ہر جگہ اپنا رنگ لاتی ہے اور تعصب و عناد ہر مقام پر اپنا اثر دکھاتا ہے۔‘‘
’’ہوں۔ تو اس میں الٹا پن انہوں نے کیا واضح فرمایا؟‘‘ میرے الفاظ میں شاید طنز کی بو تھی۔ وہ تیورا کے بولی:
’’بس ختم کیجیے۔ آپ کو بھیا سے خواہ مخواہ کا بیر ہو گیا ہے۔‘‘
’’معاذاللہ۔ میں نے کون سی گالی دے دی بھاگوان اتنی بھی ذکاوت حس مرض کہلاتی ہے۔‘‘
’’کیوں آپ مسکرائے کیوں۔ آپ کی مسکراہٹ میں تمسخر تھا۔‘‘
’’باپ رے۔ تم نے نفسیات کب سے پڑھی ہے۔ میں تو فقط تمہاری دلداری کے لیے مسکرایا تھا۔ لو اب مسکراؤں تو گولی مار دینا۔ ہاں تو الٹا پن ان فقروں میں کیا تھا؟‘‘
’’بھیا کہنے لگے کہ اس عبارت میں دو اندازے ہیں اور دونوں ہی غلط ہیں۔ میرے علم و مطالعے کو صرف وہی لوگ گہرا کہہ سکتے ہیں جو خود گہرے نہیں ہیں۔ میرا علم و مطالعہ ایک معمولی طالب علم سے زیادہ نہیں اور میری فطرت صرف ایسے ہی لوگوں کو کج نظر آ سکتی ہے جن کی اپنی فطرت کا زاویہ ٹیڑھا ہے۔‘‘
’’فطرت کا زاویہ؟‘‘
’’یہ انہی کے الفاظ ہیں۔ میں خود بھی نہیں سمجھی تھی مگر انہوں نے ایک مثال سے سمجھایا۔ کہنے لگے ایک بھینگا آدمی کسی بھی شے کو اس کی ٹھیک حیثیت میں مشکل ہی سے دیکھ سکتا ہے۔‘‘
’’مگر فطرت بھینگی نہیں ہوتی۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔
’’نہ ہوتی ہو گی اب میں ان کے منہ تھوڑی آتی۔‘‘
’’خیر پھر تم نے کیا کہا؟‘‘
’’میں کیا کہتی۔‘‘
’’کہا ہوتا کہ کم سے کم تیس چالیس ہزار آدمی آپ کے علم و مطالعے کے بارے میں ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ کیا ان سب کی فطرت بھینگی ہے؟‘‘
’’آپ ہی ان سے سوال و جواب کیجئے گا میں نے تو فقط اتنا ہی کہا تھا کہ بھیا آپ اس مضمون پر کچھ تو لکھیں۔ کہنے لگے تم بچی ہو۔ جو مضمون صرف میری ذات سے بحث کرتا ہو اس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم پڑھ کر مجھے بتانا کہ اس میں مضمون نگار نے کسی خاص مسئلے پر بھی اختلاف رائے کیا ہے یا صرف مجھ سے ہی ناراض ہے۔‘‘
’’تو تم نے کچھ نکالا؟ ٹک مارک تو بہت سے لگائے ہیں۔‘‘
’’لگائے تو ہیں مگر بھیا شاید ہی انہیں لائق التفات سمجھیں۔‘‘
’’آپ نے بھی تو پڑھ ہی لیا بتائیے سوائے اظہار ناراضگی کے اس میں کون سا پیرا، کون سی سطر علمی ہے۔‘‘
’’پھر تم کیا خامہ فرسائی کر رہی تھیں؟ غالباً دو تین فل اسکیپ صفحے تو سیاہ کر ہی دیے ہوں گے۔‘‘
’’انہیں چھوڑیے آپ اپنی رائے کا اظہار فرمائیں۔‘‘
’’فرماؤں؟ یعنی یہ تم مجھ سے درباری بول رہی ہو!‘‘
’’آپ بھی تو بھولے بچے بن رہے ہیں بتائیے نا آپ نے مضمون پڑھ کر کیا محسوس کیا؟‘‘
’’بڑا صدمہ محسوس کیا۔ دل میں میٹھا میٹھا درد محسوس کیا۔‘‘
’’میرا سر محسوس کیا ڈھنگ سے جواب ہی نہیں دیتے۔‘‘
’’ٹھہرو میں ذرا بازار تک ہو آؤں، لوٹ کر اظہار خیال کروں گا۔‘‘
میں نے دیکھ لیا تھا کہ جب میں دالان سے کمرے میں پہنچا تھا تو ملائن نے اپنا قلم کاغذ پھرتی سے تارکشی والی صندوقچی میں رکھ دیا تھا جو دالان کے تخت پر رکھی تھی۔ وہ نصف بہتر ہونے کے باوجود نہیں جانتی کہ میری پشت پر بھی آنکھیں ہیں۔ دراصل کمرے کے سنگھار میز کے آئینے میں دالان کا منظر صاف نظر آ گیا تھا۔
دالان سے گزرتے ہوئے میں نے بڑی صفائی سے صندوقچی اٹھائی اور گھر سے باہر نکلا چلا گیا۔ تعاقب کا اندیشہ نہیں تھا کیوں کہ بچے سب اپنی نانی کے یہاں گئے ہوئے تھے اور وہ ملازمہ بھی دو دن کی چھٹی پر تھی جسے دیکھ کر میں خود کو نواب محسوس کرنے کی سعی نامشکور کیا کرتا ہوں۔
آئیے آج ملائن کا انداز تنقید بھی دیکھیے۔ اس میں تسلسل اور باقاعدگی تو نہیں ملے گی مگر اس بہن کی زندہ تصویر ضرور ملے گی جو اپنے بھائی کو دیوانہ وار چاہتی ہے۔ اس نے کہیں کہیں سے مضمون کی عبارتیں نقل کی تھیں اور ہر عبارت کے بعد اپنے تاثرات قلما دیے تھے۔
دل تھام کر ملاحظہ ہو!
میم سے مراد مضمون کا اقتباس اور ت کا مطلب لائن کا تاثر ’’م‘‘ ہر ہٹ گائے (یعنی بے نکیل اونٹ) کا نام آپ حضرات نے ضرور سنا ہو گا۔ ان کی شرارت و ایذا رسانی ضرب المثل ہے۔ عامر کا قلم بھی ہر ہٹ گائے اور شتر بے مہار سے کچھ کم نہیں، ان کا انداز تحریر ہرہٹ گائے کی ایذا رسانی سے کہیں زیادہ فتنہ انگیز ہوتا ہے۔
ت واہ بزرگوار۔ لکھنے کا شوق تھا تو قلم پکڑنے کا سلیقہ بھی سیکھتے۔ کیا تماشا ہے ’’ہر ہٹ گائے‘‘ کا مفہوم بے نکیل اونٹ بتاتے ہو پھر دو ہی تین سطر بعد یہ دونوں الگ الگ وجود بن جاتے ہیں۔ ایسی نادانی تو شاید پرائمری کے بچے بھی نہ کریں۔
خیر ڈاکٹر اقبال کا ایک شعر سنو:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
عامر صاحب کا قصور بس یہی تو ہے کہ انہوں نے تہذیب حاضر کے مکتب میں سخن سازی و منافقت، ملمع کاری اور مصلحت پرستی کے ڈھنگ نہیں سیکھے، وہ پرانے لوگوں کی طرح بے لاگ کھری کھری سناتے ہیں۔ وہ اصلاً نہ حنفی ہیں نہ شافعی نہ اہل حدیث نہ کچھ اور وہ تو فقط مسلمان ہیں ۔ ان کی زبان سمجھنا چاہو تو مسلمان بنو ، خالص مسلمان !
م ’’عامر صاحب کی عامیانہ تقلید نے ان کی نگاہوں کو اس قدر بے نور کر دیا ہے اور قوت بینائی کو اس طرح چھین لیا ہے کہ ‘‘
ت خدا تمہیں غارت کرے ایسی بے رحمانہ باتیں قلم سے کیوں نکالتے ہو۔ باغی غدار۔ تمہیں دعویٰ اہل حدیث ہونے کا ہے۔ کیا ہمارے حضورؐ نے بھی یوں منہ بھر کے کسی کو کوسا تھا۔ (ملا کہتا ہے۔ یہاں ملائن کے ہوش و حواس علم و فہم سب ڈوب گئے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی کھوپڑی کے انجر پنجر ڈھیلے ہو گئے یہاں وہ صرف عورت ہے عورت اور بہن جو جذبات کے طوفان میں تنکے کی طرح بہہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادھورے ہی اقتباس پر بپھر گئی۔ بقیہ جملہ آگے آتا ہے)۔
م ’’چھین لیا ہے کہ وہ اس بات سے معذور ہو گئے ہیں کہ اپنی بصارت و بصیرت سے کام لے کر اپنے علم و تفقہ کے ذریعے نمائش غلاف کعبہ کے مسئلہ کی تہہ تک پہنچ سکیں۔‘‘
ت الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ تم اہل حدیث لو گ مقلدوں سے بڑھ کر مقلد ہو۔ فرق بس یہ ہے کہ مقلدین صفائی سے خود کو مقلد کہتے ہیں اور تم پکے مقلد ہو کر بھی تقیہ کر جاتے ہو۔ تمہاری تقلید کی ڈور ایسے لوگوں سے بندھی ہوئی ہے جو خیرالقرون سے گیارہ بارہ صدیوں کے فاصلے پر ہیں۔ حالانکہ بیشتر مقلدین کے اماموں کا فاصلہ خیرالقرون سے دو صدی بھی نہیں۔ پھر قہر یہ ہے کہ تم سطح بینی کو حدیث دوستی سمجھتے ہو حالانکہ موتی کبھی سطح پر نہیں ہوتے وہ تو تہہ میں ملتے ہیں۔ تم میں سے جو غوّاص بھی ہے وہ بسا اوقات صدق کو موتی سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ صدف تو چند پیسے کے سیپ سے زیادہ کچھ نہیں۔ موتی اندرہے۔ ویسے میں ایمان نہیں نگلوں گی تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو موتی نکال کر لائے ہیں۔ ان پر سلامتی ہو مگر تم پر سلامتی بہت مشکل ہے تم تو جہل مرکب میں گرفتار ہو۔ خدا محفوظ رکھے۔
م ’’اہل حدیث کے بھی چند ذی علم حضرات نے اس مبارک موضوع پر مضامین سپرد قلم کیے تھے۔ اور بدلائل قاطعہ یہ ثابت کیا تھا کہ غلاف کعبہ کی نمائش فی نفسہ صرف بدعت ہی نہیں بلکہ اپنے اندر بہت سے ایسے مضر اثرات کو بھی لیے ہوئے ہے جو اسلام کی حقانیت پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہیں۔‘‘
ت لا طائل پروپیگنڈے اور غل غپاڑے کو دلائل قاطعہ کہتے ہو۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ بدعت کی رٹ تم نے کیا لگائی اسلام کو بھی کفر بنا ڈالا۔ تمہی جیسے لوگوں نے یہ کچے پکے فتوے دیئے تھے کہ بوٹ پہننا حرام۔ ریل گاڑی میں بیٹھنا حرام۔ نماز میں اتفاق سے بھی پائنچے ٹخنوں کو ڈھک گئے تو نماز فاسد۔ حقہ سگریٹ حرام مکرومت ہو سکتا ہے ایسے فتوے جھاڑنے والے بعض احناف بھی ہوں مگر ہر حنفی ذہنی اعتبار سے حنفی نہیں ہوتا۔ مغز میں گودے کی ایک خاص مقدار حنفیت کو جنم دیتی ہے۔ مقدار گھٹ گئی یا گودے میں کیڑے پڑ گئے تو سمجھ لو اصلی حنفیت ختم۔ باقی جو بچے گا وہ فقط مغلئی پاجامہ ہو گا یا چوغہ اور ایک مٹھی داڑھی۔
م ’جب عامر صاحب کی نظروں کے سامنے ایسے مدلّل و مبرہن مضامین آئے تو ان کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں اور ان کا ماتھا بڑے زور سے ٹھنکا ‘‘
ت محاورے لکھنا سیکھو کوئی زبان داں اس موقع پر ماتھا ٹھنکنے کا محاورہ دیکھ پائے گا تو اپنا سر پیٹ لے گا۔
م ’’اور اپنے آپ کو جب اہل حدیثوں کے مضامین کے جواب سے معذور و مجبور پایا تو بہت سٹپٹائے اور نگاہیں مارے شرم کے جھینپ گئیں۔‘‘
ت حد کر دی تمہاری جہالت نے۔ ماں کے پیٹ سے اردو بولتے ہوئے نکلے ہو اور اتنا بھی نہیں جانتے کہ نگاہوں کا مارے شرم کے جھینپنا کوئی محاورہ نہیں ہے۔ کسی دیہاتن سے بھی پوچھو گے تو وہ بتا دے گی کہ نگاہیں مارے شرم کے جھکتی ہیں جھینپتی نہیں، تم لوگ حدیثوں سے بھی ایسے ہی الٹے پلٹے مفاہیم نکالتے ہو۔ جو اپنی مادی زبان کے محاورے صحیح استعمال نہ کر سکے وہ حدیث کی محاوراتی زبان کو کیا خاک سمجھے گا۔
عامر صاحب جھینپے ہوں یا نہ جھینپے ہوں مگر میں نے انہیں روتے ضرور دیکھا ہے۔ وہ اس لیے روتے ہیں کہ اہل علم کی بے بصری اور کج روی پر ان کے دل و جگر پھوڑا بن چکے ہیں۔ وہ روتے ہیں کہ یا اللہ اہل نظر کو کیا ہو گیا۔ بصیرت کہاں گئی۔ للہیت اور خلوص کو کس نے نگل لیا:
متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہ خوں ریز ہے ساقی
جھک جھک کرنے والے ہر طرف ہیں مگر ژرف نگاہی کا دور دور پتا نہیں۔ لڑنے کو ہر عالم تیار مگر محبت اور بھائی چارے کا جذبہ برف کی طرح یخ۔ مودودی کا کابوس خدا کی پناہ۔ مودودی دشمنی میں بعضوں نے تو غلاف کعبہ کے جشن کو ’’ناپاک‘‘ جیسے لفظوں سے متصف کرنے میں بھی دریغ نہیں کیا، بلا سے ہم جہنم میں جائیں مگر مودودی کو رسوا ضرور کریں گے۔ کر لو جی بھر کے خدا نے چاہا قبر میں کیڑے پڑیں گے منکر نکیر مار مار کر دہرا کر دیں گے۔ قیامت کے دن سائے کو ترسو گے۔
(ملا کہتا ہے، معاف کیجئے گا ناظرین عورت بہرحال عورت ہے وہ جب تک کوسے گی نہیں چین سے نہیں بیٹھے گی۔ اس کے کوسنے پانی کے بلبلے ہوتے ہیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں)
م عامر صاحب! ایسی بعید از قیاس باتیں کہنے کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ یا تو آپ کے سامنے اہل حدیثوں کے علمی کارنامے آئے ہی نہیں۔‘‘
ت بس رحم کرو۔ جو سچ مچ اہل حدیث تھے تم نے ان کی لٹیا ڈبو دی۔ نام رکھ لیا اہل حدیث مگر کھوٹے اور کھرے کی تمیز نہیں۔ بدنام کنندۂ نکونامے چند۔ اے بزرگو جو اصلی اہل حدیث تھے وہ تو عامر صاحب کے بھی ممدوح ہیں۔ مگر کوکو جم کو بھی تم گھی منواؤ تو اس کی توقع عامر صاحب سے فضول ہے:
بروایں دام بر مرغ دگر نہ
کہ عنقا را بلند است آشیانہ
(ملا کہتا ہے یہ خالص بہن بول رہی ہے۔ ورنہ آپ نے بھی سنا ہو گا اور کم سے کم میں نے سنا ہی ہے کہ عنقا کے دم ہوتی ہے مگر اس بہن کے بھیا کو میں نے کبھی دم سمیت نہیں دیکھا۔ یہ میری نظر کا قصور ہے تو فاضل مضمون نگار کی طرف سے میں ملائن کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے بھیا کی دم ثابت کرے)
م ’’شاید شکیل بدایونی نے آپ ہی جیسے متکبر اور دماغی پروازیوں میں مست لوگوں کے لیے کہا تھا:
رونق چرخ دیکھنے والو کچھ زمین پر بھی چاند تارے ہیں‘‘۔
ت ’’دماغی پروازیوں‘‘ کے الفاظ جس شخص کے قلم سے نکل سکتے ہیں وہ اگر خالص ولایتی نہیں تو اینگلو انڈین ضرور ہونا چاہیے۔ کاش آپ جیسے لوگ شیخ سعدیؔ کا یہ شعر گرہ سے باندھتے:
تا مرد سخن نہ گفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد
کیا آپ کے گروہ میں کوئی مادرزاد ہندوستانی نہیں؟ اگر ہے تو اس سے پوچھیے ’’دماغی پروازیوں‘‘ کس چڑیا کا نام ہے۔ بڑے بھائی اہل حدیث کا مقدس لقب پلید مت کرو پہلے تولو پھر بولو۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مت مارو۔ ڈنڈی مارنی ضرور ہے تو آٹے دال کی دکان کھول لو اور ہاں یہ شکیل بدایونی تمہیں کیوں یاد آئے۔ کیا کل ہی کوئی پکچر دیکھی ہے۔ شرماؤ نہیں۔ شکیل واقعی اچھے شاعر ہیں مگر نوشاد نے کیا خطا کی ہے جس کا ذکر تم بھول گئے۔ رفیع اور لتا کا بھی تذکرہ آ جاتا تو تمہارے مضمون میں چار چاند لگ جاتے کیونکہ شکیل کے گانوں کو چار چاند یہی سب لگاتے ہیں۔
نہ نہ میرا مطلب یہ نہیں کہ شکیل کا شعر لکھنا فلم بینی کی قطعی دلیل ہے۔ نہیں بھائی صاحب یہ تو میں نے اندازاً کہا۔ غلط ہے تو ہزاربار توبہ۔ ویسے آپ کے اس بے پناہ تقدس سے جو تارک نماز کا جنازہ پڑھنا بھی حرام سمجھتا ہے یہ توقع نہیں تھی کہ ساری دنیا کے شاعر چھوڑ کر آپ کو بے اختیار شکیل بدایونی یاد آ جائیں گے۔ علم النفس اگر کوئی چیز ہے تو سچ بتائیے اس اتفاق کو کیا نام دیا جائے؟ اوہ! تو یہ آپ نے مشاعرے میں سنا تھا یا ٹھہریئے شاید ’’رعنائیاں‘‘ میں پڑھا ہو گا۔ کوئی بات نہیں آپ آئندہ مجروح سلطان پوری، قمر جلال آبادی، ساحر لدھیانوی جس کے چاہے شعر لکھیے دنیا یہی سمجھے گی کہ ماشاء اللہ لٹریری مطالعہ کافی وسیع ہے۔ یہ فلمی گانوں کی ایک ایک آنے والی کتابیں بھی تو آج کل لٹریچر ہی میں شامل ہیں۔ انہیں ہر شخص سینما ہال میں قدم رکھے بغیر بھی خرید سکتا ہے۔
(ملا کہتا ہے کہ یہاں ملائن انتقام کی رو میں بہہ گئی۔ اہل حدیث لوگ کبھی سینما نہیں دیکھتے نہ وہ فلمی گانوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ گانے سے حظ اٹھانے کے لیے جس قسم کا گناہگار ذہن درکار ہے وہ اگر آدمی کی کھوپڑی میں ہو تو وہ حنفی بن جاتا ہے اہل حدیث نہیں رہ سکتا۔ ثبوت یہ ہے کہ مولانا آزاد گانے کے رسیا تھے پس ان کی اہل حدیثیت دھاروں دھار بہہ گئی۔ مانا وہ حنفی بھی نہ بن سکے لیکن بن جاتے اگر وزیر بننے کے بعد بھی انہیں غریب اسلام سے کچھ دلچسپی باقی رہ گئی ہوتی۔ الہلال و البلاغ والا ابوالکلام تو یقیناًحنفی تھا کیونکہ اس وقت بھی موسیقی سے اس کا ذہنی رشتہ بڑا گہرا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بظاہر اس نے احناف ہی کے خلاف مسلک گاہے گاہے کچھ لکھ دیا ہو لیکن جڑ بنیاد سے وہ حنفی ہی تھا۔ پھر وہ وزیر بن گیا اور حنفیت اور اہل حدیثیت دونوں باہوں میں باہیں ڈالے پکچر ہاؤس چلی گئیں۔ آج بھی جس کا جی چاہے مولانا آزاد کے مزار پر جا کر دیکھے۔ بالکل پاس والے میدان میں جہاں احناف اور اہل حدیث دونوں چار چار آنے میں تیل مالش کراتے ہیں۔ شکیل بدایونی کا یہ مشہور نغمہ جی ہاں نغمہ فضا میں رچا بسا ملے گا۔
یہ دنیا گول ہے
اوپر سے ڈھول ہے
اندر سے دیکھو پیارے بالکل خولم خول ہے
قسم لے لیجئے میں نے ’’چودھویں کا چاند‘‘ نہیں دیکھا یہ تو ملائن دیکھ کر آئی تھی۔ ملائن کا کمال یہ ہے کہ ایک دفعہ وہ بہشتی زیور بغل میں دبا کر سینما چلی گئی تھی، جب انٹرویل ہوا تو بہشتی زیور کا مطالعہ کرتی رہی۔ اس ’’جام و سندان باختن‘‘ پر اسے نوبل پرائز ملتا مگر پرائز صوفی قندیل مار گئے، وہ رمضان میں افطاری اور مصلی لے کر شام والے شو میں پہنچ گئے تھے۔ کرتے بھی کیا فلم ’’رنگین راتیں، عین رمضان میں لگی تھی۔ اور شوال تک چلنے کی امید نہیں تھی۔ روزہ تو گھڑی دیکھ کر افطار کر لیا اور مغرب انٹرویل میں پڑھ لی:
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
میں نے غیرت دلائی تھی تو دانت کٹکٹا کر بولے تھے:
’’تم وہابی ہو۔ ہم میاں کے اشارے بغیر نہیں گئے تھے۔‘‘
’’میاں؟‘‘
’’ہاں اپنے بڑے سجادے صاحب۔‘‘
’’تو کیا وہ ہر حرام کو حلال کر سکتے ہیں؟‘‘
’’ضرور کر سکتے ہیں مگر تم جیسے وہبڑوں کے لیے نہیں جو چیلا بن جائے اسے سب طرح کے مقامات سے گزارتے ہیں۔‘‘
’’یہ کون سا مقام تھا جو سینما کے بیچوں بیچ ہو کر گزرا؟‘‘
’’باقی باللہ فانی فی اللہ۔ اس میں قبض اور بسط کے برزخ سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’قبض اور بطش کا برزخ؟‘‘
’’اور کیا۔ روح نور کا قالب پہن کر لا مکاں کے چکر کاٹتی ہے۔‘‘
’’اللہ اکبر۔ پیٹ میں مروڑ بھی ضرور ہوتا ہو گا؟‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ برا سا منہ بنا کر غرائے۔
’’بگڑیئے نہیں۔ مجھ گدھے کا خیال ہے کہ قبض اور بسط کا برزخ پیچش ہی ہو سکتا ہے۔ نہیں ایک بات کہتا ہوں۔‘‘
’’ملعون وہابی نکلو یہاں سے۔‘‘
کتاب: مسجد سے مے خانے تک، مصنف..مولانا عامر عثمانی
( تجلی، ستمبر ۶۳ء)

Comments

Click here to post a comment

  • عامر عثمانی نے یہ تحریریں عامر عثمانی کے نام سے نہیں ملا ابن العرب مکی کے نام سے لکھی ہیں. ان کی مزاحیہ تحریریں اسی نام سے اچھی لگتی ہیں.