ہوم << ساختیات کے ماہر : ڈاکٹر گوپی چند نارنگ...خامہ بگوش کے قلم سے

ساختیات کے ماہر : ڈاکٹر گوپی چند نارنگ...خامہ بگوش کے قلم سے

mushfiq-khwaja ہندوستان سے ہمارے سیاسی تعلقات کیسے ہی ہوں، ادبی مراسم نہایت خوشگوار ہیں۔ یہاں کے ادیب اور وہاں کے ادیب یہاں کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ادب، ادب نہیں رہا، سیروسیاحت کا وسیلہ بن گیا ہے ۔ اس صورت حال سے بہت سے جعلی ادیبوں نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ جنھیں اپنے ملک میں کوئی نہیں پوچھتا، وہ دوسرے ملک میں جا کر ’’مشاہیر‘‘ میں اپنا شمار کراتے ہیں۔ وہاں ریڈیو کی اردو سروس میں خارج از آہنگ انٹرویو دیتے ہیں، یہاں مشاعروں میں خارج از وزن و معنی شعر سنا کر سامعین کا مذاق اور اپنا گلا خراب کرتے ہیں۔
بعض ’’مشاہیر‘‘ سفر نامے بھی لکھتے ہیں جنھیں لکھنے کے لیے صرف ارادے کی اور پڑھنے کے لیے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندوستان سے آنے والے ادیب کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔ کچھ تو وہ ہیں جنھیں تفریحی مقاصد کے لیے بلایا جاتا ہے۔ وہ ’’اسی مے خانے کی مٹی اسی مے خانے میں‘‘ کے مصداق مشاعروں میں صرف یا خرچ ہو جاتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو ’’تبادلے‘‘ کی اسکیم کے تحت تشریف لاتے ہیں۔ جس طرح بعض ممالک میں قیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے، اسی طرح پاک و ہند کے درمیان غیر سرکاری سطح پر ادیبوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ کچھ پاکستانی ادیب اپنے وسائل یا اثرات سے کچھ ایسے ہندوستانی ادیبوں کو ادبی جلسوں میں مدعو کرتے ہیں جو اپنے ملک میں باوسیلہ اور با اثر ہوتے ہیں۔ پھر وہ جوابی کارروائی کے طور پر اپنے پاکستانی دوستوں کو ہندوستان بلا کر حساب برابر کر دیتے ہیں۔
کچھ ہندوستانی اہل قلم ایسے ہیں جو صرف علمی و ادبی مقاصد کے تحت تشریف لاتے ہیں۔ وہ علمی و ادبی مجالس میں شرکت کرتے ہیں، اہل علم سے ملاقاتیں کرتے ہیں، پاکستان کی ادبی صورت حال کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہایت خوش گوار اثر چھوڑ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ ایسے ادیبوں میں جگن ناتھ آزاد، علی سردار جعفری، ڈاکٹر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر خلیق انجم، جیلانی بانو، علی جواد زیدی، شمس الرحمان فاروقی، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور دوسرے کئی اہل قلم شامل ہیں۔ اس فہرست میں ڈاکٹر نارنگ کا نام دیکھ کر ممکن ہے بعض لوگ زیر لب مسکرائیں اور یہ کہیں کہ وہ تو ادب سے زیادہ تعلقات عامہ کے حوالے سے سفر کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ڈاکٹر نارنگ علم کا سمندر ہیں۔ اس سمندر میں تعلقات عامہ کی حیثیت محض ایک گلیشیر کی سی ہے۔ گلیشیر کا کام صرف اتنا ہے کہ بھولے بھٹکے جہاز اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتے رہیں۔ ڈاکٹر نارنگ اپنے علم سے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں، تعلقات عامہ سے حریفوں کو نیچا دکھاتے ہیں۔ ڈاکٹر نارنگ جب پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہاں کی ادبی دنیا میں زلزلہ آجاتا ہے۔ عام زلزلے سے زیر زمین سطح پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے، ڈاکٹر نارنگ قصہ زمین برسر زمین کے قائل ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے لوگ بے تاب ہوتے ہیں اور وہ خود بھی سراپا اشتیاق بن جاتے ہیں۔ ہرایک سے اس طرح ملتے ہیں جیسے صرف اسی سے ملنے کے لیے انھوں نے زحمت سفر اٹھائی ہو۔
پچھلے ہفتے کراچی میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر نارنگ کے حوالے سے خلوص و محبت کے بےمثال مناظر دیکھنے میں آئے۔ اس مرتبہ موصوف کی آمد کا سبب عالی صاحب تھے۔ اس ابہام کی توضیح یہ ہے کہ مئی کے دوسرے ہفتے میں کسی عرب امارات میں عالی صاحب کا جشن منایا گیا۔ نارنگ صاحب نے اس جشن طرب میں شرکت کی اور ان کی شان میں ایک خوبصورت مقالہ پڑھا۔ اس مقالے میں عالی صاحب کی اتنی تعریف تھی کہ ان کے لیے اکیلے واپس آنا مشکل ہوگیا، لہٰذا نارنگ صاحب انھیں کراچی چھوڑنے آئے۔ کراچی میں نارنگ صاحب کا قیام ایک ایسے علاقے میں تھا جو شہر سے بہت دور ہے۔ اس لیے خیال تھا کہ وہ ہجوم عاشقاں سے محفوظ رہیں گے اور عالی صاحب کے بارے میں مقالہ لکھنے سے جو تھکن ہوئی ہے، اس کا ازالہ کریں گے۔ لیکن سننے میں آیا کہ صبح کاذب ہی سے عشاق ان کے ہاں پہنچ جاتے تھے، کوئی اخبار کے لیے انٹرویو لیتا تھا، کوئی اپنی کتاب رائے کے لیے پیش کرتا تھا اور کوئی اپنے ہاں مدعو کرنے کے لیے تحریری درخواست سامنے رکھتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی انھیں اپنے ہاں مدعو کیا حالاں کہ ترقی پسند مصنفین ڈاکٹر نارنگ سے اتنا ہی پرہیز کرتے ہیں جتنا خالص ادب سے۔ لیکن ڈاکٹر عالیہ امام بہت فراخ دل ہیں، وہ خاص خاص رجعت پسندوں کو بھی شایان توجہ سمجھتی ہیں۔ خود ڈاکٹر نارنگ بھی فراخ دلی میں کچھ کم نہیں۔ ترقی پسندوں سے وہ ایسی محبت سے ملتے ہیں جیسے ساتھ کے کھیلے ہوں۔ ایک محفل میں انھوں نے پروفیسر ممتازحسین کو اپنا معنوی استاد بھی کہہ دیا۔ اس پر استاد لاغر مرادآبادی نے فرمایا: ’’ساختیات کے ماہر ہیں، ساختیات میں لفظوں سے بحث ہوتی ہے، معنوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے معنوی استاد کا مطلب ہے لفظی استاد‘‘۔
نارنگ صاحب کے اعزاز میں یوں تو کئی جلسے ہوئے اور بے شمار نجی دعوتوں میں انھوں نے شرکت کی لیکن انجمن ترقی اردو کا جلسہ بہت شان دار تھا (انجمن اب جلسے کرنے ہی کے لائق رہ گئی ہے) وسیع ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی بلکہ بقول شخصے، تل تو بڑی چیز ہے ڈاکٹر نارنگ جیسے ماہر لسانیات کے جلسے میں کوئی مصوتہ یا مصمتہ دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ موصوف کی تقریر کا موضوع ساختیات تھا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان کی ساری تحریروں کا موضوع یہی تھا۔ ساختیات عام دلچسپی کی چیز نہیں، اس لیے عام لوگوں نے’’ساختیات ‘‘ کو ’’خودساختیات‘‘ قسم کی چیز سمجھا۔ بعض اہل علم نے نارنگ صاحب پر اعتراضات بھی کیے۔ نارنگ صاحب نے ہر اعتراض کا مدلل جواب دے دیااور جہاں کوئی دلیل نہ ملی وہاں وہ طلاقت لسانی سے غالب آ گئے۔ نارنگ صاحب تحریر ہی میں نہیں، تقریر میں بھی بے مثال ہیں۔ وہ ایسے خوب صورت انداز میں تقریر کرتے ہیں کہ سننے والے مسحور ہوجاتے ہیں۔ سامعین کی اس حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نارنگ صاحب جو جی میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں اور اس طرح ثابت کر دیتے ہیں کہ وہ ساختیات ہی کے نہیں ’’خودساختیات‘‘ کے بھی ماہر ہیں۔
محمد حسین آزاد نے ’’شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار‘‘ میں غالب کے بارے میں لکھا ہے:’’بڑی دھوم دھام سے آئے اور ایک نقارہ اس زور سے بجایا کہ سب کے کان گنگ کر دیے۔ کوئی سمجھا اور کوئی نہ سمجھا مگر سب واہ واہ اور سبحان اللہ کرتے رہ گئے‘‘۔ ڈاکٹر نارنگ نے بھی ساختیات کا نقارہ اس زور سے بجایا ہے کہ سننے والوں کے کان گنگ اور دماغ مائوف کر دیے ہیں، سمجھنے والے خاموش ہیں اور نہ سمجھنے والے واہ واہ اور سبحان اللہ کا شور مچا رہے ہیں۔
intizar-hussain
نارنگ صاحب کی کراچی میں موجودگی کے دوران انتظار حسین نے بھی لندن جاتے ہوئے چندگھنٹو ں کے لیے کراچی میں قیام کیا۔ لندن کے اردو مرکز میں ان کے ساتھ ایک شام منائی جا رہی ہے۔ کراچی کی ایک دعوت میں ڈاکٹر نارنگ اور انتظار حسین کی ملاقات ہوئی۔ کسی نے انتظار حسین سے پوچھا: ’’آپ لندن اکیلے جارہے ہیں یا آپ کے ساتھ کوئی مقالہ نگار بھی جا رہا ہے‘‘؟ انھوں نے ڈاکٹر نارنگ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا:’’میں جمیل الدین عالی کی طرح صاحب مقدور نہیں ہوں کہ نوحہ گر کو ساتھ رکھوں‘‘۔ نارنگ صاحب کا نیا تنقیدی مجموعہ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ یہ نہایت فکر انگیز مقالات کا مجموعہ ہے۔ اردو میں ایسے تنقیدی مجموعے کم شائع ہوئے ہیں جن میں روایتی تنقید سے ہٹ کر بات کی گئی ہو۔ اس میں میر ، انیس اور اقبال کے اسلوبیاتی تجزیے ہیں۔ فیض و عالی کے معنیانی نظام کے جائزے ہیں۔ شہریار، بانی، ساقی، فاروقی اور افتخار عارف کی شاعری کے توصیفیے ہیں۔ نثری نظم کی شناخت بتائی ہے۔ خواجہ حسن نظامی اور ڈاکٹر ذاکر حسین خاں کی نثر کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو خصوصا ساقی، فاروقی اور افتخار عارف کو یہ مجموعہ ضرور پڑھنا چاہیے کہ ان کی شاعری کی اتنی تعریف کسی دوسری جگہ نہیں ملے گی۔ ڈاکٹر نارنگ نے ان دونوں پر لکھتے ہوئے قلم توڑ دیا ہے۔انھوں نے یہ اچھا ہی کیا، اگر وہ خود قلم نہ توڑتے تو اس کتاب کے پڑھنے والے توڑ دیتے۔
کتاب ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘ ، مرتبہ مظفر علی سیّد

Comments

Click here to post a comment