ہوم << یوم غزوہ فتح مکہ کا پیغام - ڈاکٹر خولہ علوی

یوم غزوہ فتح مکہ کا پیغام - ڈاکٹر خولہ علوی

غزوہ فتح مکہ، فتح مبین ہے جو 20 رمضان المبارک 8ھ (بمطابق 10 جنوری 630ء) کو پیش آیا۔ یہ غزوہ عظیم الشان انقلابی تاریخ کے اوراق میں دیگر غزوات سے کئی لحاظ سے مختلف اور منفرد ہے۔

1. غزوہ فتح مکہ میں اسلامی شان و شوکت کا ایسا اظہار ہوا کہ عالم عرب پر اسلام اور مسلمانوں کا رعب و دبدبے طاری ہو گیا۔ اور کسی بھی قسم کی معرکہ آرائی اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر شہر مکہ فتح ہو گیا۔

2. نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوتے وقت بے مثال عاجزی وانکساری کا مظاہرہ پیش کیا اور رب تعالی کے شکر گزار ہوئے۔

3. نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو اپنے آبائی وطن مکہ میں آنا، تصویروں اور بتوں سے بیت اللہ کو پاک کرنا نصیب ہوا۔

4. پھر رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کو وہاں بنا کسی رکاوٹ کے اللہ کی عبادت کرنا اور خانہ کعبہ کا طواف کرنا نصیب ہوا۔

5. طویل عرصہ کے بعد اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت کا علم کعبہ کی چھت پر اذان دے کر لہرایا گیا۔

6. تمام کٹر اور جانی دشمنوں کو معاف کر دیا گیا۔ عفو و درگزر کا ایسا بہترین تقریر نظارہ چشم فلک نے نہیں دیکھا۔ بلاشبہ اسلام امن و رواداری کا سب سے بڑا داعی اور علمبردار ہے۔

7.عام معافی کے باوجود توہین رسالت کے چند مجرموں کو ان کے سنگین جرم کی پاداش میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ بلاشبہ ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

8. غزوہ بدر کی طرح یہ غزوہ بھی رمضان المبارک میں پیش آیا۔ قرآن مجید نے اسے فتح مبین قرار دیا ہے۔

20 رمضان المبارک 8ھ کو غزوہ فتح مکہ کے موقع پر جب نبی اکرم ﷺ "انا فتحنا لک فتحا مبینا" کی بشارت لے کر بھرپور عسکری تیاری اور دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہو رہے تھے تو چشم فلک نے یہ حیران کن اور عاجزانہ منظر دیکھا کہ آقائے دو جہاں ﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پر اِس طرح تشریف فرما تھے کہ چہرہ مبارک اونٹنی کے کجاوے سے جا لگا تھا اور واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ آپ ﷺ رب تعالیٰ کا شکر بجا لانے میں مصروف تھے جس نے آپ کو فتح کا یہ عظیم الشان موقع عطا فرمایا تھا۔

مکہ مکرمہ میں دنیا کے بہترین سپہ سالار نبی اکرم ﷺ کی قیادت میں دس ہزار مسلح مجاہدین مکمل جنگی تیاری کے ساتھ داخل ہوئے اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر، بنا کسی مار دھاڑ ، لوٹ کھسوٹ اور ظلم و تشدد کے فتح یاب ٹھہرے تھے۔ اور اس موقع پر تمام تر غلبے کے باوجود رحمت عالم ﷺ نے رحم و کرم اور صبر و تحمل کا اعلیٰ اور کریمانہ مظاہرہ کرتے ہوئے عفو و درگذر اور سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرکے دشمنوں کے دل جیت لیے تھے۔

یوم فتح مکہ تاریخ انسانی کا نہایت یادگار اور حیران کن دن تھا جب محسن انسانیت ﷺ نے دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر کا وہ بے مثال نمونہ پیش کیا کہ نہ دنیا میں کوئی اس کی مثال پیش کر سکا ہے اور نہ رہتی دنیا تک کوئی اس کی نظیر پیش کرسکے گا۔یہ دشمنان دین سے انتقام لینے کا سنہری موقع تھا مگر رحمت للعالمین ﷺ نے یہ تاریخی الفاظ کہتے ہوئے سب کو معاف فرما دیا تھا: لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اذْھَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاء ‘‘ ترجمہ: "تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔"

صحابہ کرام نے کہا تھا کہ :"آج بدلہ لینے کا دن ہے۔"لیکن رحمت عالم ﷺ نے فرمایا :"آج معاف کرنے کا دن ہے۔"اور عام معافی کے اعلان کا اثر یہ ہوا تھا کہ لوگ کثیر تعداد میں جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔

پھر رحمت للعالمین ﷺ کعبہ کے قریب آئے اور اس کا طواف کیا تھا۔ طواف کے دوران کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے جاتے اور یہ قرآنی آیت پڑھتے جاتے:

جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا۔(سورۃ بنی اسرائیل: 80)

ترجمہ: "حق آ پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل مٹنے والا ہے۔"

پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

"جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ.(سورۃ السبا: 49)

ترجمہ: "حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے، نہ دوبارہ کرنے کا."

نبی اکرم ﷺ نے کعبہ میں موجود بتوں کی تصاویر اور نصب مجسموں کو بھی توڑنے کا حکم دیا تھا جس کی فوراً تعمیل کی گئی اور تمام بت توڑ دیے گئے تھے۔

پھر نماز کے وقت خاتم النبیین ﷺ نے حضرت بلال ابن رباح کو حکم دیا تھا کہ وہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔حضرت بلال کعبہ کی چھت پر چڑھے اور اذان دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کیا تھا۔

خانہ کعبہ کے زمانہ جاہلیت کے کلید بردار طلحہ بن عثمان کے سابقہ تمام مظالم کے باوجود انہیں بلا کر نبی سرور عالم ﷺ نے خانہ کعبہ کی چابیاں ان کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے اس موقع پر محسن انسانیت ﷺ کے اعلیٰ اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ نبی اکرم ﷺ نے کلید برداری کی یہ اہم ذمہ داری تا قیامت ان کے خاندان کے سپرد کر دی۔

عفو و درگزر کے اس عظیم موقع پر بھی نبی رحمت ﷺ نے ان چند گستاخوں کے بارے میں، جو نظم و نثر میں آپ ﷺ کی ہجو اور گستاخی کیا کرتے تھے، فرمایا تھا کہ:
"اگر وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے بھی ملیں تو انہیں قتل کر دیا جائے۔"ان بد بختوں میں سے ایک ملعون کا نام ابن خطل تھا۔ وہ سرور ﷺ کی شان کے خلاف ہجویہ اشعار کہتا تھا اور اس کی دو لونڈیاں یہ غلیظ اشعار اسے ترنم سے گا کر سناتیں۔ فتح مکہ کے دن وہ حرم مکہ میں پناہ گزیں تھا اور خانہ کعبہ کے پردے پکڑ کر ان سے چمٹا ہوا تھا۔

ابوبرزہؓ صحابی نے نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق اسے وہیں قتل کردیا۔ اور اس کی لونڈیوں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔حضور کی شان اقدس میں انتہائی ذلیل اور گستاخی کرنے والے بعض دیگر کافر و مرتد مثلاً عقبہ بن معیط، کعب ابن اشرف کو بھی قتل کا حکم دیا تھا۔ان اکابر مجرمین میں سے ابن خطل اور اس کی لونڈیوں سمیت نو آدمیوں کا خون رائیگاں (جس کا قصاص نہ ہو) قرار دیتے ہوئے یہ حکم جاری فرمایا تھا۔ خون رائیگاں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا قصاص (بدلہ) نہیں دیا جائے گا۔

یہ حکم اس وجہ سے تھا کہ شاتم رسول دوسروں کے دلوں سے آقائے دو جہاں ﷺ کی عظمت و رفعت اور محبت و عقیدت گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیج بوتا ہے۔نعوذ باللہ یہ نبی اکرم ﷺ کی ذاتی انتقام پسندی کی وجہ سے نہ تھا۔ اس بارے میں حضرت عائشہ اور صحابہ کرام کی شہادت موجود ہے کہ "نبی کریم ﷺ نے کبھی بھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا تھا۔"ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کرنے کے سبب ان مجرموں کو سزادی تھی۔

فتح مکہ کا پیغام یہ ہے کہ سرور عالم ﷺ کی عالمگیر تعلیمات، اخلاق حسنہ، بے مثال گفتار و کردار ،رواداری و مساوات، عفو و درگزر میں زندگی کا حسن و جمال اور خوبصورتی و رعنائی پوشیدہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اہم ترین پیغام تاابد امت مسلمہ کے لیے ہے کہ" ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔"

بلاشبہ آپ نے قول و فعل سے یہ ثابت کردیا کہ "اسلام امن و رواداری کا سب سے بڑا داعی اور علمبردار ہے۔"غزوہ فتح مکہ امن و سلامتی، رواداری و مساوات اور انسان دوستی کا بے مثال پیغام ہے۔ یہ امن عالم کا حقیقی پیغام ہے، نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کریمانہ اور شان عفو و درگزر کی اعلیٰ مثال ہے۔ اور اسوہ حسنہ کے زریں اوراق سے مزین خوبصورت اور بے بدل باب ہے۔علامہ اقبال نےفتحِ مکہ کے اس تاریخی اور مثالی واقعے کو اشعار میں یوں بیان کیا ہے۔

آنکہ بر اَعداء درِ رحمت کشاد

مکہ را پیغام لا تثریب داد

وقتِ ہیجا تیغ او آہن گداز

دیدۂ او اشکبار اندر نماز

ترجمہ : "جس نے دشمنوں پر رحمت کا در کھولا، مکہ کو "کوئی غم نہیں" کا پُرسکون پیغام سنایا (یعنی عام معافی کا اعلان کیا)، میدانِ جنگ میں آپ ﷺ کی تلوار لوہے کو پگھلاتی ہے لیکن نماز میں آپ ﷺ کی آنکھیں اشک بہا رہی ہیں ۔"