ہوم << چیف جسٹس کی " انوکھی عدالت" اور اک مشن - محمدعاصم حفیظ

چیف جسٹس کی " انوکھی عدالت" اور اک مشن - محمدعاصم حفیظ

دور حاضر کی مشینی زندگی ۔ معاشی دوڑ ۔ آلات سے لگاؤ اور اپنوں سے دوری ۔ رشتوں کے تقدس و احترام میں کمی ۔ باہمی برداشت اور صبر و تحمل کے فقدان ۔ مغربی طرز زندگی ۔ لبرل نظریات کے فروغ ۔ خودمختاری کی خواہش اور کیرئیر کی دوڑ جیسے بہت سے مسائل ۔

رجحانات اور افکار نے آج خاندانی نظام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ افراد تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ رشتے جڑنا مشکل ہو چکا ہے اور سب سے زیادہ رشتے ٹوٹنے کا رجحان خطرناک حد تک تجاوز کر چکا ہے ۔ معمولی سی بات ۔ ذرا سی ناگواری ۔ چند لمحوں کا غصہ اور تھوڑی سے عدم دلچسپی ۔ طبعیت کے خلاف کوئی بات یا جملہ ۔ رشتہ توڑ دیتا ہے ۔ طلاق تک نوبت پہنچتی ہے یا پھر ناراض ہو کر لمبی علیحدگی ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رشتوں کو جوڑنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے لاتعلق رہنا چاہتا ہے جبکہ غلط مشوروں ۔ جذباتیت اور جھوٹی انا کو لیکر رشتے توڑنے والے زیادہ ہیں اور تیزی سے بڑھ بھی رہے ہیں۔

ایسے میں جسٹس (ر) انوار الحق سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے صلح کی منفرد شمع جلائی ہے ۔ وہ نامور وکیل ۔ پھر جج اور بطور چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ برملا اظہار کرتے ہیں کہ خاندانی معاملات کو عدالت لے جانا حماقت ہے ۔ وقت اور پیسے کا ضیاع ۔ وکلاء کی فیسیں بھرتے جاؤ اور حاصل کچھ بھی نہیں ۔ وہاں کوئی بھی مسئلے کو سلجھانے کی بات نہیں کرے گا بلکہ سب کی کوشش ہو گی کہ صلح نہ ہو کیس لمبا چلے اور گلشن کا کاروبار چلتا رہے ۔

انہوں نے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے ساتھ ملکر آؤ صلح کریں پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔ چیف جسٹس صاحب عدالت لگاتے ہیں لیکن ذرا مختلف قسم کی ۔ جہاں قانون کا ہتھوڑا نہیں چلاتے بلکہ نصیحت اور نرم مزاجی سے صلح کی کوشش کرتے ہیں۔ فریقین کو واضح کرتے ہیں کہ یہ کیس اگر عدالت لیکر جاؤ گے تو کتنی دیر چلے گا ۔ کتنا خرچہ آئے گا اور ممکنہ فیصلہ کیا آ سکتا ہے۔ جب فریقین کو کچھ احساس ہو کہ وقت پیسے اور رشتوں کا نقصان ہو گا تو پھر وہ صلح کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ اب تک سینکڑوں صلح کرا چکے ہیں۔ خاندان جوڑ چکے ہیں۔ بچوں کو ان کے والدین اکھٹے دے چکے ہیں۔

بچوں کا بٹوارہ روک چکے ہیں۔ خاندانوں کی عزت ۔ دولت اور رشتوں کی حفاظت کر چکے ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ملاقات ہوئی تو بتا رہے تھے کہ اب تو یہ زندگی کا مشن بن چکا ہے ۔ کوشش ہے کہ ایسے کئی سینٹرز بن جائیں ۔ ہر شہر میں جگہ جگہ ۔ صلح کو عام کیا جائے۔ کئی بڑے ریاستی ادارے اب انہیں اپنے ہاں ایسے سینٹرز بنانے کی درخواست کر چکے ہیں ۔اپنے ساتھ ٹیم بنا رہے ہیں۔ ٹریننگ دینا چاہتے ہیں تاکہ صلح کرانے والوں کی مکمل تربیت ہو ۔

پیغام یہی دیتے ہیں کہ خاندانی معاملات کو عدالتوں میں نہ لیکر جاؤ ۔ وکلاء کے ہتھے نہ چڑھو ۔ صلح کر لو ۔ نرم ہو جاؤ ۔ گھر بچا لو ۔ خاندان بچا لو ۔ یہی معاشرے کے ہیرے ہیں اور نامور و نادر لوگ جو زندگیوں میں خوشی ۔ رشتے جوڑنے اور حقیقی تبدیلی کے لیے سرگرم عمل ہیں