مملکت خداد پاکستان ایسا ملک ہے جس میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں. ملک کی بیشتر آبادی صحت و تندرستی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے جبکہ آبادی کا قلیل حصہ ہیموفیلیا جیسے وراثتی موذی مرض میں بھی مبتلا ہے. ہیموفیلیا ایک ایسا مرض ہے جس میں مبتلا افراد کے اندر خون جمانے والے اجزاء کی کمی ہوتی ہے.
ان اجزاء کو فیکٹرز کہا جاتا ہے. خون جمانے والے اجزاء کی کمی کی وجہ سے اس بیماری کے حامل افراد میں، دانتوں سے خون بہتا ہے، جوڑوں میں سوجن، جسم کے اندر خون کا بہنا، ناک سے خون بہنا اسکی علامات ہیں. جبکہ ان مریضوں کے جسم پر کسی قسم کی چوٹ لگنے کی صورت میں جسم سے نکلنے والا خون بند نہیں ہوتا. یہ بیماری ملکہ ویکٹوریا سے شروع ہوئی بعدازاں جان آٹو نے اس کی تصدیق کی اور اب یہ موذی مرض دنیا کے ہر ملک میں پھیل چکا ہے. بدقسمتی سے گھر کا چولہا جلانے والے مرد حضرات اس بیماری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور قبل از مرگ یہ بیماری انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی.
پاکستان میں چند این جی اوز ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا کے تعاون سے اس بیماری کا علاج کر رہی ہیں. اس کے علاوہ اس بیماری کا علاج کرنے والا نمایاں ادارہ دیا ویلفئیر آرگنائزیشن سیالکوٹ ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت سیالکوٹ اور اسکے گردونواح کے مریضوں کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کر رہا ہے. دیا ویلفئیر آرگنائزیشن کی بنیاد اس علاقے کہ افراد نے رکھی تا کہ سیالکوٹ و گردونواح کے مریض جن کو بروقت ادویات نہ ملنے اور لاہور متعلقہ ادارے تک پہننے سے پہلے موت واقع ہو جاتی ہے ان کو بچایا جا سکے.
بدقسمتی سے ہیموفیلیا کے علاج میں استعمال ہونے والے فیکٹرز انتہائی مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دستیاب نہیں اور نہ ہی کوئی فارماسوٹیکل کمپنی یہ فیکٹرز بنا کر مارکیٹ میں فراہم کر رہی ہے. لہذا ان مریضوں پر ستم اس قدر کیا جا رہا ہے کہ اگر کو صاحب حیثیت یہ فیکرز خریدنا بھی چاہے تو مارکیٹ میں عدم دستیابی کی بناء پر ان کو خریدنے سے قاصر ہے. پاکستان کے باصلاحیت ریسرچ اسکالرز کو چاہئیے کہ فیکرز کو پاکستان میں بنانے پر کام کریں تا کہ یہ مسائل حل ہو سکیں. ماضی میں ان مریضوں کو فیکرز کی بجائے پلازمہ لگا کر علاج کیا جاتا رہا ہے. پلازمہ کی اچھی طرح سکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مریض ہیپاٹائٹس اور HIV ایڈز جیسے خطرناک امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں. دیا ویلفئیر آرگنائزیشن گزشتہ چار سال سے ہیموفیلیا کے مریضوں کا مفت علاج کر کے نیکیاں سمیٹ رہی ہے. دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا حکومت وقت کی جانب سے ہمیشہ ان مریضوں کو ایسے ہی بے یار و مددرگار چھوڑ دیا جائے گا؟
آئین پاکستان کی شق 8 تا 28 میں بنیادی حقوق کی تفصیل موجود ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ حقوق پاکستان میں بسنے والے افراد کو فراہم کرے. 17 اپریل ہیموفیلیا کے عالمی دن کے موقع پر ملکی میڈیا کی خاموشی انتہائی افسوس ناک تھی. حالانکہ ہیموفیلیا کے مریض بھی ہمارے معاشرت کے باوقار افراد ہیں اور ان کو علاج معالجہ جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے. چند این جی اوز مل کر پورے پاکستان کے مریضوں کا علاج ہرگز نہیں کر سکتیں. حکومت کو اس پر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے. ہیموفیلیا کے عالمی دن کے موقع پر میڈیا پر ان افراد سے ہمدردی اور اس بیماری کی آگاہی کے حوالہ سے جو مہم نظر آنی چاہئیے تھی وہ یکسر نظر نہیں آئی اور میڈیا پر اس بابت بلیک آؤٹ رہا. کیا ہمارا میڈیا آزاد ہے؟
کیا ہم صرف ان لوگوں کے بارے بات کریں گے جن سے ہم کروڑوں روپے اشتہارات کی مد میں لیتے ہیں؟ اگر ہیموفیلیا کے افراد کا بروقت علاج کیا جائے ان کو بلا تعطل فیکرز کی فراہمی یقینی بنائی جائے تو یہ افراد بھی عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جہاں ہم اپنی زکوة و عطیات کے لئے دیگر اداروں کو یاد رکھتے ہیں ویسے ہی ہم ہیموفیلیا کے مریضوں کا مفت علاج کرنے والے اداروں کو بھی یاد رکھیں. یہ مریض بھی آپ کی امداد کی منتظر ہیں اور صحت مند زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں.
آئیں مل کر دیے سے دیا جلائیں
کہ پھیل جائے روشنی ہر سو
تبصرہ لکھیے