یورپ نے بےگھر در بدر ٹھوکریں کھاتے مسلمان پناہ گزینیوں کو اس وقت پناہ دی جب ان پر اپنے ہی ملکوں کی سرزمین تنگ ہو چکی تھی. برادر اسلامی ممالک ترکی اور سعودی عرب وغیرہ نے ان کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں، تو یہ یورپی تھے جنہوں نے بلا تفریق مذہب محض انسانیت کی بنیاد پر ان مسلمان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولے، ان کو ہر ممکن سہولیات مہیا کیں. سول سوسائٹی کے بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ لاکھوں مہاجرین یورپی معاشرے میں ایک تباہ کن تبدیلی لائیں گے جو معاشرے کو ہلا کر رکھ دے گی، لیکن پھر بھی یورپ کے حکمرانوں نے مسلمان مہاجرین کو پناہ دی، جس کا صلہ اب یورپ کو دیا جا رہا ہے. کبھی کبھی ہونے والے بم دھماکے اب روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں. ہر دھماکہ کئی قیمتی جانیں لے جاتا ہے. یورپ بھی اسی خوف اور دہشت کا شکار ہو رہا ہے جس میں مسلمان ممالک کئی عشروں سے مبتلا ہیں.
اسلامی ممالک میں ان دھماکوں کا رد عمل بہت عجیب مل رہا ہے کوئی اس کو مکافات عمل کہہ رہا ہے تو کسی کے خیال میں یورپی ممالک کو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں کا بدلہ دیا جا رہا ہےحالانکہ یہ مسلمان حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ مسلمان گھر سے بےگھر ہوئے. بشار الاسد یا داعش عیسائی یا یہودی نہیں لیکن انھی کی کارروائیوں نے لاکھوں مسلمانوں کو بےگھر کر دیا. اس کے باوجود کوئی ایک مسلمان بھی اہل یورپ کے اس سلوک کو اہمیت دینے کو تیار نہیں جس میں انہوں نے لاکھوں بے خانماں مسلمانوں کو پناہ دی. ان کو رہائش کی سہولیات دیں ، ان کے لیے خوراک اور بہترین طبی سہولیات فراہم کیں. لیکن اس احسان کے بدلے میں مسلمانوں نے انہیں کیا دیا؟ یہی جرمنی تھا جہاں نئے سال کی آمد کے جشن پر مسلمان نوجوانوں کی ٹولیوں کی ٹولیوں نے جرمن خواتین کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک کیا. یہ ایک نہیں ایسے بے شمار واقعات ہوئے جن میں پناہ گزین نوجوانوں نے یورپ کے شہریوں سے نفرت آمیز سلوک کیا. ہونا تو اس کے برعکس چاہیے تھا لیکن یورپی حکومتوں نے پھر بھی پناہ گزینوں سے کافی نرمی کا سلوک کیا.
1492ء میں سپین کی آخری مسلمان ریاست غرناطہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا اور سپین پر مسلمانوں کے 800 سالہ عظیم الشان دور حکومت کا خاتمہ ہوگیا. اس کے ساتھ ہی سپین سے مسلمانوں کو نکالنے کا عمل شروع ہوا. چند ہی سالوں میں لاکھوں مسلمان یا تو قتل کر دیے گئے، یا پھر ان کو افریقہ اور دیگر مسلمان ممالک میں پناہ لینا پڑی. کیا آج یورپ میں رہنے والے مسلمان ایک بار پھر سے یہی چاہتے ہیں کہ یورپی یونین مسلمانوں کے بارے میں ویسا فیصلہ کرے کہ ان پناہ گزینوں کو یورپی ممالک سے نکال باہر کیا جائے. پناہ گزینوں کے بعد اگلی باری یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کی بھی آ سکتی ہے.
بہتر تو یہ ہوتا کہ یورپ میں رہنے والے مسلمان اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کی نشاندہی کرتے اور انھیں پولیس کے حوالے کر کے یہ ثابت کرتے کہ عام مسلمان کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہو پایا. اب یورپ یہ سمجھنے میں آزاد ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھے. اس صورت حال کو یورپی حکومتوں اور یورپی شہریوں کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کیجیے. وہ یہ کیوں چاہیں گے کہ مسلمان پناہ گزین ان کے معاشرے کا امن تباہ کرتے رہیں. وہ کیوں ان کو اپنے ملک میں برداشت کریں گے اگر وہاں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردانہ کارروائیاں ہونے لگیں؟ یہ درست ہے کہ مسلمان بھی اس وقت ایسی ہی دہشت گردی کا شکار ہیں لیکن اس میں حکومتوں کے ملوث ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن عوام کو جوابی دہشت گردی کا نشانہ بنانا بجائے خود ایک دہشت گردی ہے، جس کا نقصان بہرحال مسلمانوں کو ہوگا. یورپی عوام میں مسلمانوں کے بارے میں جو چند ایک مثبت رائے رہ گئی ہے اب وہ بھی نہیں رہے گی.
اس معاملے میں اسلامی ممالک میں موجود مذہبی جماعتوں نے کسی قسم کا کوئی رد عمل دینے سے گریز کیا ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے ایسے ہر واقعے کی مذمت کی جاتی اور ان دہشت گردوں سے اظہار لاتعلقی کیا جاتا، چاہے ایسا واقعہ یورپ میں ہو ، مشرق وسطیٰ میں ہو یا پاکستان یا کسی بھی دیگر ملک میں، لیکن افسوس کہ جن اسلامی جماعتوں کے ذمے ایک صحیح اسلامی معاشرے کے اصول طے کرنا تھے، وہ بھی تفرقہ بازی کے زیر اثر کسی نہ کسی سطح پر دہشت گردی کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں. یہ دین اسلام کا پیغام ہرگز نہیں. دہشت گرد آج جو کچھ بو رہے کل اس کی فصل ہر مسلمان کو کاٹنا پڑے گی.
(نوٹ: صاحب مضمون کو ترکی کے حوالے سے سہو ہوا ہے. ترکی کی سرحدیں شروع دن سے پناہ گزینوں کےلیے کھلی ہیں اور اس وقت صرف ترکی میں چار ملین شامی پناہ گزین آباد ہیں اور طیب اردگان نے انھیں شہریت دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے.)
تبصرہ لکھیے