ہوم << وہابی کی لڑکی - محمد فیصل شہزاد

وہابی کی لڑکی - محمد فیصل شہزاد

بچپن میں بوجہ کم عمری مدرسہ بھیجنے سے قبل اماں جان نے محلے کی ایک بوڑھی اماں کے پاس سپارہ پڑھنے کے لیے بٹھا دیا تھا. بڑی بڑی لڑکیوں کےرنگین آنچلوں کی چھاؤں میں ہم چند چھوٹے چھوٹے لڑکے چوزوں کی طرح دبکے رہتے تھے. لڑکیاں حجن اماں کی نظر بچا کر نمک مرچ والی املی کی کٹاریاں سسکاری بھر بھر کر کھایا کرتیں. کوئی چھالیہ چباتی سبق پڑھتی، کوئی آنکھیں میچ میچ کر ٹاٹری والا چورن چاٹتی تو کسی چٹوری کو اور کچھ نہ ملتا تو ملتانی مٹی ہی کھاتی رہتی. ایک دو شریر لڑکیاں ہمارے گال کھینچ کر ہمارے منہ میں بھی کھٹ مٹھی ٹافی لڑھکا دیتیں اور ہم جو ابھی ان کے گال کھینچنے پر منہ ہی بسور رہے ہوتے، چٹر پٹر رال ٹپکاتے ٹافی چوسنے لگتے!
حجن اماں کا قرآن ویسا ہی تھا، جیسا کہ ساری گھر گھر قرآن پڑھانے والیوں کا ہوتا ہے. ہر لفظ مجہول پڑھتیں اور پڑھاتیں. مخارج بھی اماں کا اپنا خاندانی ہی تھا. پوربی لہجے میں دکنی مخارج. ستم تو یہ تھا کہ کوئی غلطی سے بھی معروف اور صحیح مخرج ادا کر دے تو ان کی سوٹی بڑی زور سے لڑکی کی کمریا پر پڑتی اور ہائے اللہ کی ایک دلدوز پکار زنانہ چیخ کے ساتھ گونج جاتی
ایک کو چپل پڑتے دیکھ کر باقی سب تیز تیز ہل ہل کر سبق دہرانے لگتیں اور فضا بلبلوں کی آواز سے گونج اٹھتی
ایک دن ایک لڑکی جو غالباً پہلے کہیں کسی سے پڑھ کر آئی تھی، کی خوب پٹائی ہوئی، اس بات پر کہ وہ سورہ فاتحہ کے آخر میں ولاالضالین کو ضاد سے پڑھ رہی تھی
حجن اماں نے سنا تو درست کروایا ’’ضواد ‘ ‘ نہیں کم بخت’’ دواد ‘ ‘ ہوتا ہے، صحیح پڑھ!
مگر اتنی جلدی پچھلے استاد کا رنگ بھلا کیسے اتر جاتا، وہ بے چاری ضاد سے پڑھتی رہی. آخر حجن اماں کو جلال آ ہی گیا، انہوں نے گرج کر کہا:
’’اے وہابی کی لڑکی کہیں کی، بد بخت! کتنی بار کہے جا رہی ہوں نامراد کو کہ ’’دواد ‘ ‘ہوتا ہے دواد، مگر وہی اپنی ہی کہے جار ہی ہے موئی ‘ ‘
ساتھ ہی انہوں نے جو چوٹی پکڑ کر دو ہتڑ مارے ہیں تو بے چاری کے سفید رخسار پر یوں لگا کسی نے سیندور مل دیا ہو. گال سرخ انگارہ ہو گئے اور اس پر ہائے وائے کی فریادیں اور چھم چھم برستے نین.!
ہم آج کی طرح اس وقت بھی بہت رقیق القلب تھے، بچوں اور خواتین کو روتا نہیں دیکھ سکتے تھے، سو دل بھر آیا اور ہم بھی رو پڑے.
خیر قصہ مختصر تین چار ماہ بعد جب ہم مدرسے بھیجے گئے تو ایک تو اس وجہ سے کہ مدرسہ 4 بجے جانا ہوتا تھا اور اسی وقت ہم بچوں کا اس وقت کا مشہور ٹی وی سیریل عینک والا جن آیا کرتا تھا، دوسری وجہ قاری صاحب (جنھیں ہم بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے) کا پرجلال چہرہ، سو پہلےکچھ دن ہم بہت روئے.
پھر دوسرا مسئلہ حجن اماں کا سوٹیوں کے بل ہمیں سکھایا ہوا ’’دواد ‘ ‘تھا جو پھر قاری صاحب کی بے شمار سوٹیوں کے بعد ہی کہیں جا کر’’ضاد ‘ ‘میں بدل سکا
گویا کئی بار گال گلابی ہونے کے بعد ہی ہم دوبارہ سے’’ وہابی کے لڑکے ‘ ‘ کا اسٹیٹس پا سکے، ہائے وہابیت.!

Comments

Click here to post a comment

  • طاہر علی بندیشہ صاحب کی راۓ درست ہے۔ عربی تلفظ دواد کے قریب ہی ہے۔ یہ سنی وہابی کا مسئلہ نہیں جیسا کہ ھمیں بھی بچپن میں بتایا جاتا تھا۔ لفظ ض اور اس کا تلفظ عربی زبان میں باقی تمام زبانوں سے منفرد ہے۔ اسی لیے عربی زبان کا ایک نام لغتہ دواد بھی ہے۔ اگر آپ عربی الفاظ کا انگریزی ترجمہ دیکھیں تو یہ بات زیادہ سمجھ آۓ گی۔ جیسے رمضان کو رمدان لکھا جاتا ہے۔۔۔۔