پاکستان کو بنے 69 سال ہوچکے ہیں اور ہم اب تک نظریاتی کشمکش کا شکار ہیں. ہم نہیں سمجھ سکے کہ کون سا نظام ہمارے لیے سودمند ہے؟ وہ کون سی اقدار ہیں جن پہ عمل پیرا ہونے سے ہم کسی مثبت نتیجے پہ پہنچ سکتے ہیں؟ کب ہماری زندگی میں تمدن کی کوئی راہ ہموار ہوگی؟ یہ سوال بہرحال موجود ہے اور رہے گا، جب تک کہ ہماری قومی زندگی ہیجان سے نکل کر کسی ایک راستے پہ گامزن نہیں ہو جاتی.
آج کل بہت شور اٹھ رہا ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک ہر طرف فوج کے آنے اور جمہوریت ڈی ریل ہونے کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دی جا رہی ہیں. پاکستان نے جمہوریت اور آمریت کے کم و بیش 35،35 سال برداشت کیے ہیں تو کون سا دوراقتدار ایسا تھا جس کے اختتام پہ لوگوں نے خوشی نہیں منائی؟ کون سی ایسی حکومت تھی جس کے خاتمے کے بعد عوام نے سکھ کا سانس نہیں لیا؟ کون سا ایسا سیاست دان یا آمر تھا جس کا انجام قابل رشک ہوا؟
ہماری مثال اس بیل کی سی ہے جس کی ایک ٹانگ رسی سے بندھی ہو اور رسی کا دوسرا سرا ایک کھونٹی سے باندھا ہو اور وہ مسلسل دوڑ رہا ہو لیکن خود کو ہلکان کرنے کے بعد بھی سمجھ نہ پا رہا ہو کہ وہ ادھر کا ادھر ہی کھڑا ہے جہاں سے اس نے عرق ریزی شروع کی تھی. ہم ایسی بحثوں کا شکار ہوئے ہیں جو ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہیں. یہ بات کہنا کہ فوج آجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن کیا ہم ہمیشہ کے لیے اس نظام کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے وقار کو بحال کیا ہے اور دہشت گردی کے معاملے میں ان کی حکمت عملی قابل تحسین ہے، لیکن کیا وہ نظام حکومت بھی ایسے ہی چلا سکیں گے؟ کیا ہمیں ہمیشہ راحیل شریف جیسے جنرل میسر ہوں گے؟ یقینا نہیں کہ قدرت کا قانون ہی ایسا ہے، تو گویا پھر سے جمہوری نظام کو عوام اپنا نجات دہندہ گردانے گی؟ کیا ہم پھر سے اس روش کے متحمل ہوسکتے ہیں جسے قیام پاکستان سے 2008 تک جاری رکھا گیا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے. لیکن یہ نعرہ لگا کر کہیں ہم کسی مغالطہ کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ ذر ا پنے اردگرد نظر دوڑائیے، کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے؟ جمہوریت کا مطلب جمہور یعنی عوام کی حکومت، لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سب سے زیادہ حقوق کی پامالی بھی جمہور کی ہو رہی ہے. کیا اس جمہوری نظام میں امید بھی کی جا سکتی ہے کہ کوئی حقیقی عوامی نمائندہ جو عوام میں سے ہو، اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتا ہے؟ پہنچنا تو دور کی بات ہے عام آدمی کے لیے تو الیکشن لڑنے کا تصور کرنا بھی محال ہے. جب جمہوریت ملوکیت کا روپ دھارنے لگے اور وہی سرمایہ دار، جاگیر دار ، صنعت کار لوگوں پر بار بار مسلط ہو رہے ہوں تو ایسا جمہوری نظام بھی بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے! عوام کو سوچنا چاہیے کہ وہ نظام جس کی بنیاد عوام ہیں، اگر اس میں عوام کی نمائندگی ہی نہیں تو یہ کیسے ان کے مفاد کی حفاظت کر سکتی ہے؟
"جمہوریت بہتر نظام زندگی ہے" کے دعوے کے اثبات کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جمہوریت میں مفاد کا مرکز عوام ہوتی ہے جبکہ آمریت میں ایک شخص عوامی مفاد کا ٹھیکے دار بنا ہوتا ہے. مگر پاکستانی قوم نے جمہوریت اور آمریت، دونوں کے نام پہ موقع پرست ہی دیکھے ہیں جن کا مقصد محض طاقت کا حصول تھا. ایک سپہ سالار کے لیے اس کی کارکردگی کا امتحان وہ میدان ہوتا ہے جہاں وہ اپنی طاقت سے معرکہ آرائی کرتا ہے، اس تناظر میں وہ ریاستی معاملات کو بھی اسی طرح چلانے کی کوشش کرتا ہے، جس کی کوئی قوم متحمل نہیں ہو سکتی. اسی طرح سرمایہ دار اور جاگیردار سیاستدانوں کی سوچ کی گاڑی کاروباری نفع نقصان کے گرد گھومتی ہے، قوم اور عوام کا نفع نقصان ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا. دونوں طرح کے لوگ پبلک آفس کے لیے موزوں نہیں ہوسکتے، اگر وہ ہوتے ہیں تو حال ہمارے ملک جیسا ہوتا ہے. مشرف آمریت کے بعد جمہوریت کو آئے ہوئے اب 9 سال ہونے کو ہیں، مگر کیا ایسی جمہوریت کا متحمل ہوا جا سکتا ہے جس میں مثبت پیش رفت کا سفر جامد ہونے کی حد تک آہستہ ہو؟ کب تک عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندے اپنے ہی ووٹرز کے سامنے جواب دہی کے احساس سے بے پروا رہیں گے؟ کب تک عوام کی قسمت میں مستقبل کے سہانے خواب ہی باندھے جائیں گے؟
اب وقت بدل رہا ہے، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا نے زندگی میں ماضی جیسا ٹھہراؤ ختم کر دیا ہے. اب لوگ صرف امید کے سہارے کسی بھی نظام کے ساتھ صبر وتحمل سے جڑے نہیں رہ سکتے. لوگ سوال اٹھائیں گے اور اپنی فہم کے مطابق تنقید بھی کریں گے اورممکنہ راستے کریدنے کی تگ و دو بھی. ماضی کو کبھی بدلا نہیں جا سکتا. آمریت اور جمہوریت کے حق میں دلیلیں دینے والے اپنے پسندیدہ نظام کو بہتر ثابت کرنے میں کوشاں ہیں مگر عام آدمی کا استحصال جو گزشتہ سات دہائیوں سے ہو رہا ہے، اسے کس طرح جسٹیفائی کریں گے؟ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں ادوار میں مختلف طبقات نے صعوبتیں برداشت کی ہیں. عام آدمی کی حالت نہ جمہوریت میں بدلی نہ آمریت میں. ابراہم لنکن نے کہا تھا " آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے بےوقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ ہمیشہ کے لیے سب لوگوں کو بےوقوف نہیں بنا سکتے" ۔ اب ہمیشہ جیسا ہوتا آیا ہے ویسا نہیں ہو سکتا، ماضی کی طرح لوگ اب مٹھائیاں تقسیم نہیں کریں گے. عام آدمی کی حالت نہ بدلی تو وہ جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں کے انتقال پہ سکھ کا سانس لے گا. عام آدمی کا مفاد اس کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں سے جڑا ہوا ہے. جمہوریت کی زندگی جمہور سے مشروط ہے. وقت آ گیا ہے کہ عام آدمی اپنے حق کےلیے کھڑا ہو، آواز بلند کرے، اور فرسودہ جمہوری نظام کو بدلنے کی کوشش کرے. آخر کب تک ہم اس مسخ شدہ موروثی جمہوری بت کی پوجا کرتے رہیں گے؟
بدنصیبی سے ہماری سوسائٹی میں کوئی ایسا موثر گروہ موجود نہیں ھے جو عوام کو انکا حقیقی مفاد سمجھا سکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ہم حقیقی آمریت اور نام نہاد جمہوریت کے تجربوں سے دوچار ہوتے رہیں گے۔