تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
رمضان کا آغاز ہوتے ہی کشمیری و فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ تیز ہو جاتا ہے ۔ غرب اردن اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں بسائے گئے یہودی آباد کار تو ماہ صیام میں فلسطینی علاقوں میں امن وامان کے حالات مزیدخراب کر دیتے ہیں ۔فلسطینی مسلمانوں کومسجد اقصی میں نماز و عبادت سے روکا جاتا ہے۔ ناصرف روکا جاتا ہے بلکہ نماز پڑھتے ہوئے انہیں ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آنسو گیس، گولیاں اور ایئر اسٹرائیکس بھی کیے جاتے ہیں۔ عام نہتے شہریوں پر ستم ڈھانا اسرائیلیوں کا مشغلہ بن چکا ہے۔ انہیں زخمی کرکے طبی امداد سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔
ہر جگہ ایک شور سا اٹھتا ہے کہ اس خطے میں امن نہیں ہے، ہر رمضان میں خاص کر فلسطین کی تمام فضا دھواں دھوار رہتی ہے۔دعا ہے کہ اس رمضان میں فلسطین اور اس کے علاوہ ہر اس خطے میں امن ہو جہاں جہاں مسلم امہ پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں، رمضان کے ماہ مبارک میں تو اسرائیلیوں کا بس نہیں چلتا کہ فلسطینیوں کو بے گھر، بے سکون کرکے بستیوں کو آگ لگادی جائے تاکہ وہ سکون سے عبادت نہ کرسکیں ۔ کئی سال کے ظلم و بربریت اور صہیونیت نے آج تک کچھ نہیں بگاڑا ہماری عبادت کا اور ایمان بھی متزلزل نہیں ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔ ایمان ہمارے دین کا حصہ ہے۔ اگرچہ بڑی بڑی سپر طاقتوں کے پاس ایمان تو کیا اخلاقیات و انسانیت کی بھی کمی ہے، ورنہ تو عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کا نوٹس لے کر فلسطین کا فیصلہ اور امن و سکون قائم کردیا جاتا، مگر تمام انسانیت کے ادارے بھی مسلمانوں کے حق میں نہیں، ورنہ فلسطینیوں کے حقوق انہیں دے دیئے جاتے۔ دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ظالم اسرائیلی فوج و پولیس جب بچوں کو مائوں کے سامنے مار، مار کر زخمی کرتی ہے یا گرفتار کرکے لے جاتی ہے یا پھر مائوں کو بچوں سے چھین کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیتے ہیں تو اہل فلسطین کی اور کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے ستم کی ہر روز ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے ۔ بھارتی فوجی بھی ماہ رمضان میں نہتے کشمیریوں پر حاوی رہتے ہیں۔۔ گھروں میں گھس کر تلاشی لی جاتی ہے۔ ویسے تو ہر وقت کشمیر اور فلسطین میں کرفیو جیسا ماحول رہتا ہے، مگر رمضان میں شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ اور تارکین وطن نے خبر دار کیاکہ اسرائیلی حکومت صورتحال کو پرسکون اور پرامن کرنے کے بارے میں اپنی زبان سے بات کرتی ہے، جب کہ اس کا ہاتھ تشدد کو بھڑکانے اور امن کو تہہ وبالا کرنے کے لیے کام کررہا ہے۔وزارت خارجہ نے ایک بیان میں مزید کہا کہ اسرائیل ماہ رمضان میں بھی نسل پرستانہ قبضے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ وہ لوگوں کے خلاف اپنی روزانہ جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ اپنے توسیع پسندانہ نوآبادیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی نسل پرست حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے افراتفری اور تشدد سے مدد لیتا ہے۔۔ انتہا پسند مذہبی سکولوں اور معمر ربیوں، خاص طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کی بستیوں میں تعینات افراد کی طرف سے قتل کے لیے واضح اور کھلے انداز میں فلسطینیوں کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔در حقیقت کشمیر ااور فلسطین دونوںعلاقے جبر و استبداد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے شکار ہیں۔
دونوںمیں نسل کشی ہورہی ہے کشمیر میں بھارت جبکہ فلسطین میں اسرائیل نسل کشی کررہا ہے۔ اغیاردونوں کی زمینوں پر بالجبر اور فوجی قوت کی بنیاد پر قابض ہیں اسرائیل ایک ناجائز اور جبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمین ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی اور امریکہ ، برطانیہ اور بھارت اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ جبکہ بھارت نے امریکی و اسرئیلی آشیر باد سے مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر پرفوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کیلئے کشمیریوں پر ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔فلسطین اورجموں و کشمیر میں یکساں معرکہ برپا ہے۔ نہتے اور بے بس اہل فلسطین اوراہل کشمیر کو ہتھیار کوئی نہیں دیتا ،پتھروں اورغلیلوں سے وہ اسلحے سے لیس دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ جارح فوجی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ دونوں خطوں پر ٹوٹ پڑے تو اہل فلسطین اوراہل کشمیر نے اپنے جگر گوشوں کے لہو سے کوچہ و بازار میں چراغ جلادیئے۔ دونوں گزشتہ ستربرسوں سے مزاحمت سے دستبرار بھی نہ ہوسکے ۔
متعددبین الاقوامی رپورٹس میںجو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں ان کے مطابق 1948ء میں اپنے گھر بار سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس وقت فلسطین کے اندراوراسے باہرایک کروڑ 24 لاکھ فلسطینی بے گھردربدر کی ٹھوکریں پر مجبور ہیں۔ ان اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ وہ فلسطینی جواس وقت فلسطین کی سرزمین پرموجود ہیں ان کی کل آبادی 60 لاکھ 20 ہزار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق اندرون فلسطین رجسٹرڈ اپنے گھروں سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوںکی تعداد 5.59 ملین ہے۔اندرون فلسطین یعنی اسرائیل کے زیرقبضہ ارض فلسطین میں رہنے والے فلسطینیوں میں سے 34.8 فی صد کی عمریں 15 سال سے کم ہیں جب کہ 65 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 4.4 بیان کی گئی ہے جبکہ28.7 فیصد فلسطینی پناہ گزین اردن میں 58 کیمپوں میں رہتے ہیں۔ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 9 کیمپ ہیں۔
لبنان میں 12، مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 اور غزہ کی پٹی میں 8 پناہ گزین کیمپ ہیں۔ 1949ء سے جنگ ستمبر 1967ء کے عرصے میں فلسطین سے بے دخل کئے جانے والے شہریوں کی رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جانب سے 1967 ء کی جنگ میں بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کو بھی اپنے ہاں پناہ گزین کے طورپر رجسٹرڈ نہیں کیا۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کی غالب اکثریت بیت المقدس کے اردگردقابض ہے۔انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف ’نسل پرستی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے اور برطانیہ سمیت مختلف ملکوں کو لازمی طور پر چاہیے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں۔رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کو علیحدگی، بے دخلی اور اخراج کی ظالمانہ پالیسیوں کے ساتھ زندہ رہنے پر مجبور کر دیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔
رپورٹ میں فلسطینیوں کی زمین اور جائیداد پر’بڑے پیمانے‘ پر قبضے، غیر قانونی ہلاکتوں، فلسطینیوں کی ان کی زمین سے دوسرے مقامات پر’جبری منتقلی‘ نقل و حرکت پر سخت پابندیوں، قومیت اور شہریت سے انکار کو ایسے’نظام کے اجزا قرار دیا گیا جو بین الاقوامی قانون کے تحت نسل پرستی کے زمرے میں آتا ہے‘‘وہ حکومتیں جو اسرائیل کو اسلحہ اور اقوام متحدہ میں احتساب کے خلاف تحفظ دینے میں مصروف ہیں وہ نسل پرستانہ نظام کی حمایت کر رہی ہیں جس سے عالمی قانون کو نقصان پہنچے گا اور فلسطینی عوام کی مشکلات بڑھیں گی۔
تبصرہ لکھیے