ہوم << تیرا حاکم بڑا اپدیشک ہے - افسانہ مہر

تیرا حاکم بڑا اپدیشک ہے - افسانہ مہر

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

امی اس کا مطلب بتا دیں۔۔ اتنا مشکل ہے فاروق نے شعر زور سے پڑھتے ہوئے عاجزی سے کہا۔۔۔

ہمہم۔۔۔۔علامہ اقبال کا شعر ہے یہ اور اس میں اردو کے علاوہ فارسی اور۔ہندی کے الفاظ موجود ہیں اس لیے مشکل لگ رہا ہے۔۔۔صابرہ نے فاروق کی کاپی میں جھانک کر پڑھتے ہوئے کہا۔ ایسا کرو لغت میں مشکل الفاظ کے معنی دیکھو. صابرہ نے واپس مٹر چھیلنے پر خود کو مرکوز رکر تے ہوئے فاروق کو جواب دیا

۔۔امی۔۔ی ۔۔ی ۔فاروق نے ماں کی بے اعتنائی کو محسوس کرکے لمبی سی آواز لگائی۔۔۔ مجھے لغت دیکھنا نہیں آتی۔۔۔۔۔۔ آپ آئیں نا۔۔۔۔فاروق جھنجلاکر بولا

اچھا تم الماری سے لغت نکال کر لاؤ ۔ میں آتی ہوں صابرہ نے مٹر چھیلنا بند کیے اور اٹھ کر کچن میں گئی ہاتھوں کو دھویا اور فاروق کے پاس آ کر بیٹھ گئی.

۔۔ ارے تم لغت نہیں لائے صابرہ نے کتابوں کی طرف جھانک کر اور لغت نہ پا کر استعجابیہ لہجے میں پوچھا۔

۔میں نے گوگل سے نکالا ہے،یہ دیکھیں. فاروق نے موبائل ماں کے چہرے کے سامنے کیا۔۔

دیکھو اپدیشک کا مطلب ہے نصیحت کرنے والا، سمجھانےوالا جیسے استاد بچوں کو سکھاتے ہیں، اسی طرح لوگوں کو سمجھانے والے کو واعظ بھی کہہ سکتے ہیں، اور اپدیشک بھی. صابرہ نے معنی پڑھتے ہوۓ مزید وضاحت کی یعنی میں لکھوں کہ۔۔ علامہ اقبال خود کو کہتے ہیں کہ میں ایسا واعظ ہوں کہ لوگوں کو پسندیدہ باتوں میں مشغول کر لیتا ہوں لیکن میں زبان کا غازی تو بن گیا مگر سچا واعظ نہیں بن سکا .فاروق نے اپنے الفاظ میں تشریح کی۔
ٹھیک ہے لکھ دو صابرہ سن کر بولی۔۔

امی غازی تو جنگ جیت کے آنے والوں کو کہتے ہیں نا۔۔فاروق ساتھ بیٹھی ہوں. انابیہ نے کہا
بیٹا غازی کا مطلب لڑجانے والا یا جنگ جو یا بہادر ہوتا۔۔

۔بھئی تم لوگ باتیں بند کرو، مجھے خبریں سننے دو. فاروق اور انابیہ کے والد سرفراز احمد جزبز ہوکر بولے۔ صابرہ اور بچے ایک دم خاموش ہوگئے۔ سرفراز صاحب موبائل کی بیل کی آواز تیز کر چکے تھے اور کمرے میں سوشل میڈیا پر گھومنے والی خبروں کی صدا گونجی نے لگی۔ شہر میں ہماری زمین پر طاقتور مافیا نے گزشتہ کئی سالوں سے قبضہ کر رکھا ہے، ہم نے عدالتوں میں کیس کیے، مگر سچ یہ ہے کہ اوپر والے ہمیں ایکشن نہیں لینے دے رہے. بزرگ کی آواز میں لغزش آگئی. دوبارہ ہمت کر کے بولے کہ ہم نے ساری عمر کی جمع پونجی اس پلاٹ پر لگا دی تھی، اب بڑھاپے میں ہم عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں، کہیں کوئی سنوائی نہیں ہے.

ناہنجار حکومت کا انتظام لے کر بیٹھے ہیں۔۔خدا کا خوف نہیں ۔۔پہلے عوام کو سمجھایا کہ ہم تمھارے مخلص ہیں اور اب دیکھو ہر عمل ظالمانہ ہے ۔ اللہ معاف کرےاب تو عوام کو ایک ہونا پڑے گا اور اس ظلم کے خلاف اٹھنا ہو گ.اصابرہ خبر سن کر جذبات میں بول پڑیں.
انابیہ اور فاروق ماں کے درد بھرے لہجے کو محسوس کرتے ہوئے صرف ماں کو دیکھے جا رہے تھی. پھر اگلی خبر کمرے کے سکوت کو توڑتے ہوۓ گونج اٹھی۔ ہمارے گھر گرانے آئیں گے تو ہم بھی یہ گھر نہیں چھوڑیں گے. ہمارے پاس گھر کے سوا کچھ نہیں. ہم اسی ملبے میں ہی دفن ہو جائیں گے۔

پچاس سالہ مرد اپنی بدحالی کے زیر اثر اقدام کی کہانی سنارہا تھا۔ حکومت کو اس زمین کے لیز ہونے کا خیال اس وقت کیوں نہ آیا جب ٹھیکیدار یہاں بکنگ کر رہے تھے جب یہاں بنیادیں کھودی جارہی تھیں تب حکومت اور حکومت کے کارندے کہاں مرے ہوئے تھے اب تمام لٹیرے اور بڑے گدھ عوام کو نوچ چکے اور سارا مال لے اڑے تو حکومت جاگی ہے اور مظلوم عوام پر بلڈوزر چلا نے آگئی۔ میں ملک سے باہر نوکری کرتا ہوں میں نے اپیل پر پاکستان میں اپنا سرمایہ لگایا تھا، تب تو بیرون ملک صارفین سے بڑی ہمدردی دکھائی تھی ،اب میرا ڈیڑھ کروڑ ٹاور پر لگ گیا تو اب اس کو گرانے کا احکام دے رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا۔۔۔!ہم سے یہ مکاری کیوں کی گئی... ہماری اپنی زمین سے محبت کو لوٹا گیا ہے ہم ارباب اختیار سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا مال واپس دلائیں۔۔۔ سوشل میڈیا پر نوجوان جوش سے بولے جا رہا تھا اور دہائیوں کی تکرار جاری تھی۔۔

اف۔۔۔! خدا کیا ہو رہا ہے صابرہ کی بے چینی بڑھ گئی ۔ یہاں ملک تو اندھیرے نگری چوپٹ راج کی تصویر بن گیا ہے ۔۔ کوئی کچھ کرتا ہی نہیں ۔ صابرہ نے سرفراز کی طرف دیکھ کر کہا۔۔

بھئی میں تو اپنے حصے کا کام کر آیا ہوں۔۔۔۔۔ سرفراز احمد نے جواب دیا

کیا کرآۓ ہیں آپ۔۔۔۔؟ صابرہ نے متجسس لہجے میں پوچھا۔۔۔ میں عوامی احتجاجی جلسے میں شامل ہوا تھا. سرفراز بولے

اوہ۔۔۔اچھا معاشرے کے چند ایک مرد ہیں جو کراچی کے ہرمسئلے میں دلیری سے کھڑے نظر آتے ہیں. صابرہ نے قدرے اطمینان سے کہا لیکن کیا دلیری سے کھڑے ہونے کی زمے داری صرف چند کی ہے. کیا کراچی کے ہر مرد کو بہادر نہیں بننا چاہیے۔۔؟؟؟

۔صابرہ کی بے چینی برقرار تھی وہ دوبارہ بول پڑیں

۔۔بھئی ہمارے ہاں لوگ اتنی سوجھ بوجھ ہی نہیں رکھتے سرفراز نے فورا کہا۔ اور ویڈیو سرچ کر کے صابرہ کے سامنے آن کر دی جس میں ایک بہادر شہری دو ٹوک اندازک میں حکومت کو للکار رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر بلڈوزر چلایا گیا تو میں بلڈنگ کی بلڈوزر کے سامنے سب سے آگے کھڑا ہوں گا. میں یہ ظلم ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔

الحمد للہ کہ آپ حق کے ساتھی بنے مگر افسوس یہ ہے کہ یہاں صرف چند ہی لوگ کھڑے ہوئے ہیں ۔ صابرہ نے ویڈیو دیکھتے ہوئے کہا ہاں! لٹیروں کی زیادتیوں ۔اقربا پروریوں اور دھاندلیوں نے عوام کو صرف بد دل بنا دیا ہے۔آج اکثریت کسی پہ بھروسہ نہیں کر رہی ۔۔۔سرفراز احمد بھی دکھ سےبولے .

لیکن۔۔۔۔۔ ان معصوم شہریوں کی داد رسی کی کوئی سبیل ضرور نکالنی چاہیے۔ ماضی میں اسی حکومت پہ بھروسہ کیا گیا تھا ۔۔اور اب اگر حکومت سب وعدے بھول جائے گی تو عوام کی نمائندہ کیسے کہلائے گی ۔۔۔ہر غریب اپنے حاکم سے امید باندھ کر ہی کاروبار اور پراپرٹی پہ حلال کمائ لگاتا ہے ۔۔ لیکن اگر اپنے حاکم ہی دشمنی دکھائیں گے اور اثاثے گنوائیں گے تو ۔۔؟؟؟؟۔صابرہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ سرفراز احمد نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔فضا میں نئی خبر گونجنے لگی لیکن صابرہ کے کانوں میں کچھ اور ہی آواز گونج رہی تھی وہ کہنا چاہ رہی تھی مگر خاموشی سے کچن میں چلی آئی اس کے دل کی آواز اور بھی تیزہوگی اور اسے لگا کانوں میں کوئی کہہ رہا ہے کہ۔۔۔۔
تیرا حاکم بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا