حال ہی میں کتاب "میرا مطالعہ" کا مطالعہ مکمل کیا. یہ کتاب عرفان احمد صاحب کی کاوش ہے جس کی تدوین عبدالرؤف صاحب نے کی اور "ایمل مطبوعات" نے خوبصورت طریقے یعنی ظاہری خوبصورتی کا اہتمام کرتے ہوئے اسے شائع کیا. قدرے گہرے رنگ کا سرورق جس پر ان تمام اہل علم کی تصاویر موجود ہیں جو کتابوں کے شوقین کو بآسانی اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے جبکہ اندرونی صفحات کی ساخت، عنوان اور سطروں کی تقسیم کو معیاری، الفاظ کا فونٹ اور جاذب نظر رکھا گیا ہے جس کی وجہ پڑھتے وقت کسی قسم کی کوفت نہیں ہوتی. بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کی تیاری میں اچھی خاصی محنت صرف کی گئی ہے.
محمد شاہد اعوان ناشر نے کتاب پر اپنے تبصرے یعنی "عرض ناشر" میں کتاب بالخصوص کاغذی کتاب کی ضرورت و اہمیت پر اپنے روایتی انداز میں روشنی ڈالی. اس مقصد کے لیے بلاشبہ خوبصورت طرز و انداز اختیار کیا گیا. وہ بجا طور پر لکھتے ہیں:
"آج' ٹیکنالوجی کے دور میں کتاب پر بات کرنا بجائے خود ایک نیکی ہے"
لیکن انہوں نے جو دوسری اہم بات لکھی ہے یعنی:
"برقی کتاب eBook کسی طور کاغذ کے نامیاتی احساس کا متبادل نہیں بن پائی- Hard Book بہت سخت جان ثابت ہوئی- مطالعہ کا عمل باصرہ اور لامسہ کے رومانی امتزاج کے بغیر علم کو شخصیت کا جزو نہیں بننے دیتا-"
یہ پڑھ کر میں دور' واپس اپنے گاؤں کی زندگی میں واپس پہنچ گیا جب میں چھوٹا سا تھا اور اپنے گاؤں کی سادہ زندگی گزارا کرتا تھا-
کئی سو گھروں کے اس گاؤں میں چند ہی گھرانے ایسے ہوں گے جن کے ہاں ریفریجریٹر ہوتے تھے اور جب بھی گرمیوں کا موسم شروع ہوتا تو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق گاؤں کے لوگ کمہار سے مٹی کے گھڑے خرید کر لے آتے اور اس کے ٹھنڈے پانی سے عیاشی کرتے. عموما لوگ کہتے کہ برف کے پانی کی ٹھنڈک اور ذائقے کا وہ مزہ نہیں ہوتا جو گھڑے کے پانی کا ہوتا ہے. کسی کے گھر مہمان آ جاتا تو کسی ریفریجریٹر والے گھر سے برف لے کر آجاتے تاکہ مہمانوں کی تواضع کی خاطر گڑ کے شربت میں ڈال کر اسے ٹھنڈا کر سکیں. یہ سلسلہ کافی عرصہ چلا. اور پھر وقت گزرا بلکہ شاید بدلا، لوگ ریفریجریٹر کے فضائل سے واقفیت حاصل کرتے گئے اور پھر آھستہ آھستہ ریفریجریٹر عام گئے. ایک وقت آیا کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہو گیا-
یہی معاملہ مٹی کے چولہے میں لکڑی جلا کر بنائے گئے کھانے اور پھر گیس کے چولہے پر بنے کھانے، ڈول اور لکڑی کی مدھانی سے بنی لسی بمقابلہ جوسر بلنڈر کی بنی لسی، لنگری (ہاون-دستے) میں کوٹی ہوئی چٹنی بمقابلہ ساس اور کیچپ، کھلا دودھ بمقابلہ ڈبہ بند دودھ اور بے شمار دوسری چیزوں کے ساتھ بھی پیش آیا، جنھوں نے "غیر ضروری" سے "اضطراری" اور پھر "لازمی" کا درجہ اختیار کر لیا-
میرے فہم کی حد تک...!!!
بچپن ہی سے نسل در نسل موجود اشیاء یا وقوع پذیر ہوتے واقعات کے ساتھ انسیت یا جذباتی وابستگی ہو جاتی ہے اور پھر جب کوئی نئی چیز منظر عام پر آتی ہے تو کچھ لوگ تو اسے فورا اختیار کر لیتے ہیں لیکن بعض اوقات ہماری یہ وابستگی ہمیں ایک معلوم (Conscious) یا غیر معلوم (Unconscious) کھنچاؤ یا مزاحمت (Rift or Hesitation) پر مجبور کرتی ہے. ہم اگر اس کھنچاؤ یا مزاحمت کا احساس کر لیں یا ہمیں اسے اس کا احساس دلا دیا جائے تو وہ پھر نسبتا غیر جانبداری (Rationality) سے تجزیہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، بصورت دیگر ہم اس نئی چیز یا واقعے کو مذھب' روایات' ثقافت' تاریخ' ذوق' مزاج اور کئی دوسری چیزوں کے خلاف سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اپنی رائے کے حق میں دلائل ڈھونڈ لیتے ہیں خواہ ان میں منطق ہو یا نہ ہو-
کاغذی کتاب بمقابلہ eBook کے معاملے میں بھی شاید ہم نے جذباتی رویہ اختیار کیا ہے. یہ درست ہے کہ کاغذی کتاب کے "لمس" کا احساس "نظر" کے احساس کے ساتھ مل کر انسانی شخصیت پر اثر ڈالتا ہے لیکن ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے ہیں کہ eBook ایسا ہی کوئی اثر ڈالنے میں ناکام ہے؟
لہذا...
ایسا کوئی کلی بیان، کسی کا ذاتی بیان تو ہو سکتا ہے لیکن جب تک کوئی عملی تحقیق (Empirical) نہیں کی جاتی اور اس تحقیق کو مختلف ملکوں' قوموں' نسلوں' مذاہب اور تاریخ کے تناظر وغیرہ وغیرہ میں جانچا (Validity) نہیں جاتا، تب تک یہ صرف اور صرف بیان یا ناشر کا ذاتی احساس ہی کہلا سکتا ہے، کوئی عالمگیر انسانی کلیہ نہیں-
اس کتاب میں جن اہل علم کے' ان کے مطالعے کے متعلق' تاثرات و خیالات پیش کیے گئے ہیں اور جس سلیس اور رواں طریقے سے پیش کیے گئے ہیں وہ اپنے کسی بھی پڑھنے والے کو واقعی اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں. مذھب، سیاست، تاریخ، ادب، حالات حاضرہ اور عالمی معاملات ہی نہیں بلکہ ان اہل علم کی ذاتی زندگی اور جس ماحول میں انہوں نے تحصیل علم کی خاطر مطالعہ کیا، سے بھی واقفیت حاصل ہوتی جاتی ہے- کتاب کے آخر میں ان اہل علم کی بیان کردہ تمام کتابوں کے انڈکس سے ملتی جلتی ایک فہرست ہے جو نئے اور مطالعہ کے شوقین حضرات کے لیے اچھی راہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے-
پروف کی بعض اغلاط کے باوجود، مجموعی طور پر یہ ایک انتہائی اچھی کوشش ہے اور ایک ایسے دور میں جبکہ مطالعہ کا شوق کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، اس کتاب اور اسے ہم تک پہنچانے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے. میرے لیے تو یہ کتاب ایک نعمت سے کم نہیں کہ اسے پڑھنے کے بعد میں نے اپنے بچپن کی مطالعہ کی عادت واپس لوٹا دی ہے جس کے لیے میں اس کار خیر میں شریک تمام حضرات کا شکر گزار ہوں-
تبصرہ لکھیے