ہوم << یہ ہے ہمارا یوم سیاہ - محمد عاصم حفیظ

یہ ہے ہمارا یوم سیاہ - محمد عاصم حفیظ

عاصم حفیظمقبوضہ کشمیرمیں جانوں کا نذرانہ دیتے، احتجاج کرتے جوانوں، نہتے شہریوں، باپردہ بہنوں اور بلند حوصلہ بزرگوں کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم دیکھ کر جہاں ایک طرف ان کی جرات کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہے وہیں کچھ کچھ شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے کہ ارض پاکستان سے اس قدر ٹوٹ کر محبت تو اب اپنے وطن میں بھی ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہاں اب ہر ہر طبقے کے اپنے اپنے جھنڈے ہیں اور اپنے اپنے ایجنڈے۔ یہاں کون پاکستان کی بات کرتا ہے؟ ٹی وی چینلز پر سرعام بحث ہوتی ہے اور اخبارات میں کالم لکھے جاتے ہیں کہ '' پاکستان کیوں بنا ؟؟ ضرورت کیا تھی ؟؟ ''۔ بہت سے تو وہ بھی ہیں کہ جو ملک کے قیام کو ہی ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہیں ۔
جب آپ کو پتہ ہو کہ پاکستانی جھنڈا لہرانے کی سزا موت ہے، اس کے باوجود لہرانے والے ہی اصل پاکستانی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری نوجوان عزم و ہمت اور دلیری و بہادری کی عظیم داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ ”برہان وانی“ جیسے کئی نوجوان ایک ایسے وطن کی محبت میں جانیں نچھاور کر رہے ہیں جہاں کے باسی کب کے اپنی محبت و الفت کے معیار بدل چکے ہیں۔ کشمیر میں ہر روز گرتی لاشیں پاکستانی میڈیا کی خبروں میں بس آخری مقام ہی بنا پاتی ہیں ۔ یہاں قندیل بلوچ کی سیلفیوں اور پھر اس کے قتل کو ” قومی ایشو“ بنایا جاتا ہے لیکن برہان وانی اور اس جیسے درجنوں کشمیریوں کی شہادت نیوز بلیٹن میں شاید ہی جگہ بنا پاتے ہوں۔
،ہندوستانی حکمرانوں کا بھلا ہو کہ انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی ٹی وی چینلز کی نشریات پر پابندی لگا رکھی ہے ورنہ جب کشمیری یہ دیکھتے کہ جن کے لیے ہم اپنے بچے قربان کر رہے ہیں ان کے ہاں ہر خبرنامے کی اہم ترین خبر کسی نہ کسی بھارتی فلم کا تذکرہ یا کسی بالی وڈ فنکار کے متعلق ہوتی ہے۔ جب برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر لہولہان تھا تو انھی لمحات میں ایک پاکستانی میڈیا گروپ بڑے فخر سے اعلان کر رہا تھا کہ پاکستان میں اس کی شراکت سے پیش کی جانے والی بالی وڈ فلم ” سلطان“ ریکارڈ بزنس کر رہی ہے ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانیوں نے کشمیریوں کے ساتھ ” اظہار یکجہتی“ یوں کیا کہ بھارتی فلم کو تاریخ کی ریکارڈ آمدن کرا دی ۔
پاکستان میں کیبل نیٹ ورکس پر پیمرا کی پابندی کے باوجود بھارتی ٹی وی چینلز کو بند کرانے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا۔ کیبل آپریٹر حکومت کے دبائو کے باوجود ان چینلز کو چلانے پر صرف اس لیے مجبور ہیں کہ” محب وطن پاکستانیوں“ کےلیے چند گھنٹے بھی ان بھارتی چینلز کے بغیر گزارنا مشکل ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی چینل کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کو دکھا بھی دے تو آہوں، سسکیوں اور خون میں لتھڑی لاشوں کے مناظر کے فوری بعد جو اشتہارات چلائے جاتے ہیں ان میں بھارتی فنکار پاکستانیوں کا دل بہلاتے نظر آتے ہیں۔ مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی اور یوم سیاہ کی باتیں تو خوب کی جا رہی ہیں لیکن حکومت و اپوزیشن، عوامی حلقوں سمیت کسی میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ گھر گھر ناچتی بھارتی ثقافت کی روک تھام کے لیے بات کرے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں چھائے بھارتی اشتہارات، فلموں، ڈراموں، کیبل پر چلائے جانے والے ٹی وی چینلز اور سینمائوں میں بالی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی کا مطالبہ کیا جائے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جو اپنے ” دشمن“ کو خود اپنی کمائی اور دولت سے مضبوط بناتی ہو۔ یہاں سے کثیر زرمبادلہ بھارت کو بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی فوجی اخراجات کو بڑھا سکے ہمیں ہی تباہ و برباد کرنے کے لیے۔ ہر کوئی اخباری بیانات، تقریبات، احتجاج، ریلیاں اور بہت کچھ کرے گا لیکن معاشرے میں پھیلتے بھارتی اثر و رسوخ، ہندو کلچر کے فروغ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بھارتی ماڈلز کے اشتہارات اور دیگر مواد کے بارے کوئی بھی بات نہیں کرے گا۔ بس ایک دن کا احتجاج ہو گا، میڈیا کوریج ملے گی، خبریں چھپیں گی، بڑے بڑے دعوے اور بیانات داغے جائیں گے اور بس۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تواس کی اکثریت تو شاید یوم سیاہ پر نکلنے والی ریلیوں، احتجاج وغیرہ سے بچنے کے لیے چھٹی منا کر گھر میں بڑے آرام سے کسی نئی بھارتی فلم سے لطف اندوز ہو رہی ہوگی۔ یہ ہے ہمارا یوم سیاہ