ہوم << کشمیر کہانی - اُم شافعہ

کشمیر کہانی - اُم شافعہ

پہاڑ کی بلند چوٹی سے آبشار بہتی نیچے چشمے کو سیراب کر رہی تھی. چشمے کی اک خاص بات یہ تھی کہ پانی کا رنگ سرخ تھا، بلکل سرخ خون جیسا. اور پانی خوشبودار بھی تھا. پاس ہی کچھ جل رہے چراغ رات کی تاریکی کو سحر انگیز بنا رہے تھے. سامنے والے پہاڑ کی اوٹ سے سفید گھوڑوں پر مشعل تھامے تین گھڑ سوار نمودار ہوئے اور چشمے کے پاس آ رکے،گھوڑے سے نیچے اترے، کمر کے ساتھ لٹکے تھیلوں میں سے جدوجہد، ایثار، قربانی، جذبہ، کوشش، اخلاص، اور راہ خدا میں بہے خون کے چند قطروں کو نکال کر چشمے کے سرخ پانی میں ملا دیا، پانی مزید سرخ ہوا، جوش مارنے لگا، چاروں طرف خوشبو پھیل گئی، فضا معطر ہو گئی. گھڑ سوار آگے بڑھے، انھی تھیلوں میں سے مضبوطی سے بند کی گئی چھوٹی چھوٹی شیشیاں نکالیں اور " شہادت کی طلب میں بہنے والے آنسو" کا اک اک قطرہ احتیاط کے ساتھ ٹمٹماتے چراغوں میں باری باری ڈالنے لگے. چراغوں میں جلتی آگ کی لو بڑھنے لگی، پھر لو بڑھتی بڑھتی چنگاریوں میں تبدیل ہو گئی. چنگاریاں اڑتی آسمان کی طرف اوپر کو اٹھیں اور سیاہ افق پہ جا کر پھٹنے لگیں. جہاں آسمان پر روشنی میں اضافہ ہوا وہیں چنگاریاں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ذرات میں بٹ گئیں، اور واپسی کا سفر طے کرتیں اسی چشمے کے پاس بسی وادی جنت نظیر کے باسیوں کے دلوں میں پیوست ہونے لگیں. چشمے سے پھوٹتی خوشبو بھی مختصر فاصلہ طے کرتی پوری وادی میں پھیل گئی اور دل بینا رکھنے والے اذہان کو معطر کرنے لگی.
روشنی و خوشبو کے اس پرنور ماحول نے جذبوں کو شدت دلائی، دلوں میں ولولہ پیدا ہوا اور پوری وادی میں حریت و آزادی کے حصول کی اک نئی لہر دوڑ گئی. نوجوان گھروں سے باہر نکل آئے، جدید ہتھیاروں کے مقابلے میں غلیل اور چھوٹے چھوٹے پتھر ہاتھوں میں پکڑے اسلامی ملک سے الحاق کے نعرے لگانے لگے. سبز و سفید رنگوں کے ملاپ والے جھنڈے جسموں کے گرد لپیٹے گئے، فضا میں لہرائے گئے. شہادت کے تمغے حاصل کرنے سے بھی گریز کیا گیا نہ دوسری طرف سے یہ تمغے دینے میں کوئی تردد دکھایا گیا. مقامی حریت پسند رہنما نظر بند کر دیے گئے. افواج کی بھاری نفری پوری وادی میں جگہ جگہ تعینات کر دی گئی مگر مزاحمت میں کمی نہیں ہو رہی تھی.
وہ چشمہ اور چراغ تو عرصے سے موجود تھے جسے مزاحمت و شہادت کے متوالے اپنی قربانیوں سے معطر و روشن کرنے کی سعی کیے ہوئے تھے. جہاں اس چشمے میں سرخ بہتا پانی شہیدوں کے راہ خدا میں بہے خون کا استعارہ تھا تو ننھے ننھے جلتے ہوئے چراغ اک مسلسل مزاحمت کی کہانی سنا رہے تھے. مگر کل رات اس چشمے اور چراغوں میں شامل ہونے والے آنسو اور لہو کے قطرے اک نیا جوش و جذبہ پیدا کر گئے تھے. اپنے دل پسند بہادر، نامور کمانڈر اور دو گمنام مجاہد ساتھیوں کی شہادت نے علاقے بھر میں مزاحمت کی اک نئی فضا قائم کر دی تھی، جوق در جوق نوجوان، بوڑھے بچے ان خوش نصیبوں کے جنازوں میں شرکت اور آخری دیدار کو بےتاب تھے. مقامی حکومت کی طرف سے اس جذبے کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر عشق و وفا کی راہ پہ چل کر منزل کو پہنچنے والوں کو عشاق بھی کمال کے ملے تھے. رکاوٹوں کے باوجود اک بڑی تعداد نے جانے والوں کو الوداع کہا اور نئے عزم کے ساتھ نامکمل سہی، چھوٹے درجے پر ہی سہی، اپنوں کے ساتھ کے بغیر ہی سہی مگر وہی پرانی مگر زیادہ پر عزم مزاحمت کا آغاز کیا، اور پوری وادی میں پھیل گئے.
اسی چشمے کے پاس والی پہاڑی کی چوٹی پہ تین گھڑ سوار کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے، جن میں ایک برہان وانی اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے دو ساتھی تھے. تینوں اپنی اپنی قربانی سے چشمے کو سیراب اور چراغوں کو روشنی فراہم کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے چوٹی پر کھڑے ہوئے تھے. اپنی قربانیوں کا ثمر تو اگلے جہاں جا کر پانے والے تھے مگر ان کی شہادتوں سے اٹھنے والی بیداری کی لہر نے ان کی روحوں کو تروتازہ کر دیا تھا. نیچے چشمے کے پاس بتیس نئے گھڑ سوار پہنچ چکے تھے.
پہاڑ کی چوٹی پہ موجود برہان وانی اور ساتھیوں نے مسکراتے ہوئے آزادی یا شہادت کا با آواز بلند نعرہ لگایا جسے وادی میں موجود ہر شہادت کے متمنی دل نے سنا، اور لبیک کہا. تب وہ گھڑسوار، گھوڑوں کی باگیں تھامے مخالف سمت میں پہاڑ سے نیچے اترے اور ہمیشہ کے لیے غائب ہوگئے.

Comments

Click here to post a comment