موجودہ نسل کشمیر کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتی۔ اس کو بس اتنا معلوم ہے جو میڈیا نے اس کو ٹکڑوں میں بتایا ہے۔ یعنی یہ کوئی خطۂ ارضی ہے جہاں بھارتی فوج مظالم ڈھاتی ہے۔ جہاں لوگ شہید ہوتے ہیں اور جنازوں میں ایک جم غفیر شرکت کرتا ہے۔ ان کا مطالبہ آزادی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا علم اس سے بھی محدود ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کشمیر کا تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو پاکستان کی دراندازی ہے اور بس۔ کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ فساد چھوڑ کر ’’پرامن‘‘ طور پر رہیں۔ جہالت انسان کو اعتماد تو بخشتی ہے لیکن حقیقت سے روشناس نہیں کرواتی۔ کشمیرکا مسئلہ جب تک ایک مکمل تاریخی تناظر میں نہ دیکھا جائے، اس کی سمجھ نہیں آسکتی۔ پھر ایسی ہی جہالت کو لے کر کچھ لوگ کشمیر کو کبھی بلوچستان سے تشبیہ دیتے ہیں اور کبھی انڈیا کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہیں۔
یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ پاکستان نے اپنے تئیں کسی توسیع پسندانہ (Expansionist) ایجنڈے کے تحت کشمیر کے الحاق کا مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کشمیری تھے، جنھوں نے پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے، خود اپنے آپ کو اور اپنی تقدیر کو پاکستان سے وابستہ کیا۔ اس لحاظ سے کشمیری باقی پاکستانیوں سے بھی پہلے کے ’’پاکستانی‘‘ ہیں۔ اگرچہ کشمیریوں کی تحریک حریت بہت پرانی ہے لیکن اس میں ایک فیصلہ کن موڑ 19 جولائی 1947 کو اس وقت آیا جب انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کا دستاویزی اظہار کیا۔ معروف تجزیہ نگار اے آر قیصر صاحب کے مطابق، اس دن کشمیری مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے کنونشن منعقد کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد پاس کی، جس میں کہا گیا کہ مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی حالات، مجموعی آبادی کی 80 فیصد مسلم اکثریت، پنجاب کے اہم دریائوں کی ریاست میں گزرگاہیں، زبان، ثقافتی، نسلی اور معاشی تعلقات اور ریاست کی سرحدوں کا پاکستان سے ملحق ہونا ایسے حقائق ہیں جو اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔ اس قرارداد کا اعلان ہوتے ہی کانگریس متحرک ہو گئی. پولیس اور فوج میں تبدیلیوں کے علاوہ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے جتھوں کو ریاست میں بلوا لیا گیا۔
ان تمام انتظامات کے باوجود 14 اگست کو جب پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تو پوری ریاست پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ جب کشمیریوں کی مدد کے لیے رضاکار کشمیر میں داخل ہوئے تو یہ بھارت کی حکومت ہی تھی جس نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھایا اور سلامتی کونسل نے اس تنازع کے حل کےلیے قراردادیں پاس کیں۔ سلامتی کونسل میں کشمیری عوام کو یہ حق تفویض کیا گیا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں۔ بہرکیف یہ مسئلہ آج بھی متنازعہ ہے اور بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کو کشمیری عوام کی تائید حاصل نہیں۔
یہ وہ بنیادی بات ہے جس کو سمجھے بغیر ہم کشمیریوں کے پاکستان سے رشتے کی گہرائی کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم وہی کچھ جانتے ہیں، جو کچھ ہمیں ہمارا ’’آزاد‘‘ میڈیا (وصول کی گئی ان پٹ کے مطابق) بتاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے