ہوم << ترکی میں فوجی بغاوت کیوں ہوئی؟ مجذوب مسافر

ترکی میں فوجی بغاوت کیوں ہوئی؟ مجذوب مسافر

1483761_10202850021597637_480194935_oمیرے ترک اتالیق (Mentor) کا تعلق ترکی سے ہے اور بنیادی طور پر وہ ہماری کمپنی کے فن لینڈ آفس میں تعینات ہیں. گزشتہ چار سال سے یہاں چین آفس میں وزٹنگ پروفیشنل ہیں اور ہماری پیشہ وارانہ تربیت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں. میں نے ان سے درخواست کی کہ ترکی میں ہوئے واقعے پر اظہار خیال کریں تو انہوں نے جو کچھ بتایا' من و عن پیش خدمت ہے:
1- اسلام سے لگاؤ کے سبب میں بچپن سے ہی فتح اللہ گلن کا بہت زیادہ احترام کیا کرتا تھا اور جب ذرا بڑا ہوا تو اس تحریک کا عملا حصہ بن گیا. اگرچہ اب میں اس کی سرگرمیوں میں کوئی زیادہ شامل نہیں رہا، تاہم گلن کے زیر اثر ہونے کے باوجود ہم نے ہمیشہ اردگان کو ووٹ دیا ہے.
2- گلن تحریک کوئی عرصہ چالیس سال سے میدان میں ہے لیکن اس کے اثرات انتہائی محدود رہے تاآنکہ اردگان وزیر اعظم بنے اور انھوں نے گلن کو 'فری ہینڈ' دیا جس کے بعد گلن تحریک کے اثرات ترکی اور پھر ترکی کے باہر روز افزوں ہوتے چلے گئے.
36590C2500000578-3693729-image-m-3_1468712263969
3- گلن تحریک کے متاثرین نے رفتہ رفتہ ملک کے تمام اداروں میں نفوذ کیا اور 2010ء تک صورتحال یہ بنی کہ پولیس اور عدلیہ کو مکمل طور پر گلن کے حامیوں نے اپنے زیر اثر کر لیا جبکہ فوج اور ترکی کے خفیہ ادارے میں ان کی موجودگی کم و بیش 50% تک جا پہنچی-
4- 2010ء میں ایک انتہائی اہم واقعہ پیش آیا. ترکی پولیس کے سربراہ (گلن کا حامی) نے ترکی کے خفیہ ادارے کے سربراہ (اردگان کا حامی) کو اپنے آفس میں آنے کا کہا لیکن اس نے پولیس آفس آنے کے بجائے اردگان کو فون کر دیا. اردگان نے اسے وہاں جانے سے سختی سے منع کر دیا. اردگان کی دور اندیشی اسے بہت کچھ بتا چکی تھی. پولیس آفس بلا کر اسے گرفتار کیا جانا مقصود تھا تاکہ اسے ہٹا کر اپنا بندہ (گلن کا حامی) خفیہ ادارے کا سربراہ بنایا جا سکے کیونکہ یہ ادارہ ابھی تک گلن کے مکمل کنٹرول میں نہیں آ سکا تھا. اس واقعہ کے بعد اردگان نے کسی ادارے میں گلن کے حامیوں کو نہ لینے کی پالیسی اختیار کی کیونکہ ان کی تعداد پہلے ہی کافی زیادہ ہو چکی تھی. گلن کو یہ بات بلکل پسند نہیں آئی اور یوں اردگان اور گلن کے درمیان پہلی دفعہ کسی معاملے پر اختلاف رائے سامنے آیا. تاہم معاملات قابو میں ہی رہے-
5 - 2013 کے اواخر میں ایک اور ایسا واقعہ پیش آیا جس کے بعد ان دونوں جماعتوں کے راستے مکمل طور پر الگ ہو گئے. ہوا کچھ یوں کہ گلن کے حامی کچھ ججوں نے بعض وزراء اور خود اردگان کے بیٹے پر کرپشن کے الزامات لگا دیے. یہ دراصل ایک نرم بغاوت (Soft Coup) تھی جس کے ذریعے اردگان کے حامیوں کو جیلوں میں بھجوا کر اس کے اقتدار کا جواز ختم کرنا تھا. اردگان نے سختی کے ساتھ ایسی کسی بھی کوشش کو روک دیا اور پھر گلن کو ملک چھوڑنا پڑا.
6- عمومی طور پر دونوں جماعتیں اپنا اپنا کام کرتی رہیں لیکن چونکہ اردگان آہستہ آہستہ مختلف اداروں سے گلن کے حامیوں کو نکالتے جا رہے تےا یہاں تک کہ جس پولیس پر گلن کا مکمل کنٹرول تھا وہ اب تقریبا اس کے حامیوں سے خالی ہو چکی تھی، لہذا وہ اسے برداشت نہ کر سکے اور بغاوت کر ڈالی. اگرچہ گلن اس بغاوت میں اپنے کسی کردار سے انکار کر رہے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کو مزید کسی آفت یا انتقام سے بچانا چاہتے ہیں، اس لیے وہ اس سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں.
7- اس واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کم از کم 300 ہے اور اب اردگان کا ارادہ ہے کہ کم از کم تین ہزار ججوں اور اتنی ہی تعداد میں فوجی افسروں کو گھر یا جیلوں میں بھیجا جائے گا. (نوٹ: میرے اتالیق کا اپنا ایک رشتہ دار جج بھی ان فارغ ہونے والوں میں شامل ہے)
8- ترکی کی موجودہ صورتحال دراصل دو انتہائی ذہین راہنماؤں کی رسہ کشی کا نتیجہ ہے اور اس کا سراسر نقصان ترکی اور اسلام کو ہے-
میں نے جو سنا اور سمجھا لکھ دیا ... واللہ اعلم

Comments

Click here to post a comment

  • نمبر چا ر پر مذکور بات ہمیں اردوان کے ایک پرجوش ترک حامی نے بھی بتلائی تھی ۔ اگر گولن کے عقیدتمند بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں تو اسے درست تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ویسے اس مضمون کی روشنی میں اردوان اور گولن موومنٹ والوں کا معاملہ کچھ فرق کے ساتھ ہارون الرشید اور برمکی خاندان کا سا معلوم ہوتا ہے