ہوم << قد آور اردگان کو سبز سلام - سالار سلیمان

قد آور اردگان کو سبز سلام - سالار سلیمان

10403479_779746375424988_2927876186026520581_nترکی طیب اردگان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی عالمی میڈیا کا موضوع ہے ۔ طیب اردگان بنیادی طور پر ایک اسلام پسند فرد کا نام ہے‘ جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً اپنے اقدامات اور بیانات سے کرتا رہتا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی ترکی میں طیب اردگان کے اقتدار کی بساط کو لپیٹنے کی ایک سعی ہوئی جس کو عوام نے ناکام بنا دیا۔
رات کے کوئی دو بجے کے قریب عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز نے فیس بک پر ایک پوسٹ کی کہ انقرہ میں طیاروں کی نچلی پروازوں کے ساتھ ساتھ گولیاں چلنے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں۔ میں نے اس وقت وہاں موجود اپنے صحافی دوستوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ کنفرم نہیں ہے لیکن بظاہر ایسا ہے کہ طیب اردگان کا تختہ الٹے کا معاملہ شروع ہو چکا ہے ۔ مزید استفسار کرنے سے قبل ہی ترکی سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا اور پھر صرف ذرائع ابلاغ ہی تھے جن سے معلومات ملنے کا امکان تھا۔ جب ذرائع ابلاغ کےلیے معروف مغربی میڈیا کی ویب سائٹ کی جانب بڑھا تو دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کس قدر منظم طریقے سے منفی انداز میں ترکی کے ممکنہ مارشل لا کی رپورٹنگ کی جا رہی تھی۔ چند میڈیا ہائوسز تو ایسے رپورٹ کر رہے تھے کہ جیسے انہیں پہلے ہی سے علم تھا کہ اردگان کا تختہ الٹا جانے لگا ہے۔ یہ مغربی میڈیا کے وہ نام تھے جن کی پختگی‘ درستگی اور صداقت ایک ساکھ ہے۔ اس دن یہ محسوس ہو ا کہ حقیقت میں کس طرح سے عالمی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے، رائے عامہ پر اثر انداز ہوا جاتا ہے، لوگوں کی ساکھ کو متاثر کیا جاتا ہے اور کیسے اور کس طرح سے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ برطانوی، امریکی، پاکستانی، بھارتی، اسرائیلی، روسی، ایرانی اور افغانی میڈیا کی خوشی تو دیکھنے والی تھی۔ اس کے بعد ترکی میں جو ہوا وہ اپنے آپ میں ایک انوکھی تاریخ ہے اور مورخ جہاں پر میڈیا کی تاریکی لکھے گا وہی پر وہ عوامی تاریخ بھی مرتب کر لے گا.
طیب اردگان ترکی میں آسمان سے نازل نہیں ہوا تھا۔ وہ استنبول کی سڑکوں پر لیموں پانی اور روغنی نان بیچتا تھا جسے تب بھی علم سے عشق تھا اور آج بھی علم سے ویسا ہی عشق ہے ۔ اس اردگان نے اتاترک کی پالیسیوں کی وجہ سے مغرب زدہ، مفلوک الحال ترکی انتہائی قریب سے دیکھا اور غربت کا ذائقہ چکھا تھا، اس نے خود کسمپرسی کا سامنا کیا تھا لیکن ہار نہیں مانی تھی ۔ اس نے اُس استنبول سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا جس کو دنیا کے غیر محفوظ ترین مقاما ت میں سے ایک گردانا جاتا تھا ۔ جہاں پر دن دہاڑے کسی بھی کمزور نوجوان لڑکی کا ریپ، بچوں سے زیادتی، بھتے، قتل و غارت، ڈاکے ایک معمولی بات تھی۔ دنیا اپنے شہریوں کو استنبول سفرنہ کرنے کے مشورے دیا کرتی تھی اور وہاں پر کاروبار کرنا ایک بے وقوفی تھی ۔ اس کے سیاسی استادوں کو بھی یقین نہیں تھا کہ اردگان جو کرنے چلا ہے وہ کر بھی پائے گا۔ اس وقت ترکی میں درحقیقت فوج کی حکومت تھی اور استنبول فوج کا ایک گڑھ تھا۔ اردگان سے پہلے جلال بابارا اور عدنان مندریس اپنی اسلام اور جمہوریت پسندی کی وجہ سے تختہ دار پر چڑھ چکے تھے ۔یہ ایک نیا ترکی تھاجو کمزور تھا اور امداد کی بھیک حاصل کرنے کےلیے گوروں کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا۔ جنگ عظیم اول کے بعد سے اتاترک کی بادشاہت میں اس ترکی سے خلافت تو رخصت ہو چکی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ترکی اپنی ہی تاریخ بھی بھول رہا تھا۔ غربت‘ بے روزگاری ‘ امن و امان کی بدترین صورتحال اس کا مقدر بن چکی تھی اور ماضی میں جس نے بھی اسلام پسندی کااظہار کیا وہ یا تو کال کوٹھری میں گیا اور یا پھر تختہ دار پر جھول گیا۔ اتاترک نے اپنے وقت میں ترکی کے قومی لباس تبدیل کر کے وہاں پر پینٹ کوٹ کو لازمی قرار دیا تھا، اس نے حجاب اور برقع پر پابندی لگا دی تھی ، یہ قابل سزا جرم گردانا جاتا تھا، خواتین کو جینز، سکرٹ اور بلاوز پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا، قومی زبان کو منسوخ کر کے رومن زبان جاری کی گئی، عربی پر اس قدر شدید پابندی تھی کہ قرآن تک کی اشاعت ایک مسئلہ بن گئی ، مساجد کو منہد م کروا دیا جاتا تھا، علماء کو قتل کر دیا جاتا تھا، صرف وہی عالم زندہ رہتا تھا جو اتاترک کے اقدامات کو اسلامی جواز بخشتا تھا، بارہ سال سے قبل بچوں کو اسلامی تعلیمات لینے پر پابندی تھی ، مدارس کا نصاب اتاترک کی مرضی کا نافذ ہو چکا تھا حتیٰ کہ مساجد سے اذان کی ادائیگی بھی ترکی زبان میں کی جاتی تھی اور جب پارلیمنٹ میں اراکین اسمبلی نے اذان دی تو وہ اذان سات افراد کی شہادت کے بعد مکمل ہوئی کہ جو بھی عربی میں اذان دیتا تھا ، پارلیمنٹ میں موجود فوجی اس کی طرف اپنی بندوق کا رُخ کرتے تھے ، ایک وارننگ دیتے تھے اور سینے میں گولی مار دیتے تھے ۔ ترکی میں تو ایک عرصہ تک فوج پارلیمنٹ کا حصہ تھی ۔ترکی بالکل ویسے ہی تھا جیسا لارنس آف عربیا اور اس کے آقا و گماشتے چاہتے تھے۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی یہ کہے کہ اب ترکی ایسا نہیں رہے گا اور میں اس کو تبدیل کروں گا تو آپ کیا کہیں گے؟
طیب اردگان نے 27مارچ 1994ء کو استنبول کے مئیر کی ذمہ داری سنبھالی. اس نے ایک ہی بات کہی کہ اگر استنبول کی کھوئی ہوئی حیثیت واپس چاہتے ہو، کاروبار چاہتے ہو، امن و امان چاہتے ہو تو مجھے ووٹ دو۔ لوگوں نے اس کی بات پر یقین کیا، اس کو ووٹ دے کر منتخب کیا اور پھر محض چار سال میں استنبول میں امن بھی قائم ہوا، استنبول ایک سیاحتی مقام کی حیثیت سے مشہور بھی ہوا ، استنبول معاشی ترقی کا مرکز بھی بنا اور استنبول دنیا کی لسٹ میں مثبت حیثیت سے نظر آنے لگا ۔ ان کے دور میں استنبول میں چار ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری ہوئی.
اردگان نے اس کے بعد محسوس کیا کہ ترک شہری کی حیثیت سے میری ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ اس نے اپنے سیاسی استادوں سے اجازت لی اور اپنی حکمت عملی کے تحت عوام میں نکل کیا۔ اردگان اپنے ہر شہری کے پاس گیا اور ایک ہی بات کہی کہ اگر تم امن چاہتے ہو، اپنی کھوئی ہوئی پہچان چاہتے ہو، امن و امان ‘ روز گار‘ کاروبار‘ سیاحت چاہتے ہو، اپنا محفوظ معاشی مستقبل چاہتے ہو اور یافتہ ترکی چاہتے ہو تو مجھے ووٹ دو۔ اس کے سامنے استنبول کی مثال تھی ۔ اس نے چار سال میں ہی استنبول کو 180ڈگری کے زاویے پر تبدیل کر دیا تھا ۔ اس کی شخصیت میں ایسی بات تھی کہ عوام اس پر یقین کرتی تھی اور پھر 2003ء میں طیب اردگان نے تمام تر عالمی اور مقامی سازشوں کے باوجود وزیر اعظم ترکی کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس نے آ کر اپنی محتاط حکمت عملی کا مظاہرہ کیا او ر سب کچھ راتوں رات تبدیل کرنے کی بجائے ‘آہستگی کے ساتھ قدم بقدم چلنے کو ترجیح دی۔ اس نے سب سے پہلے ترکی کی تباہ شدہ معیشت کو سنبھالا،شرح سود میں کمی کی، بیرونی سرمایہ کاری کی راہیں آسان کیں، مقامی سرمایہ کاری کےلیے فضا ہموار و سازگار کی، معیشت کو اپنی ڈگر پر ڈالنے میں ایک وقت درکار تھا، طیب اردگان نے وہ وقت اس ایک کام کو دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی مستقبل کی پلاننگ جاری رہی۔
اردگان خاموشی سے کام کرنے کا عادی تھا، اس نے زیادہ بڑھ چڑھ کر بولنے سے گریز کیا۔ اس کے بعد فوج کے کردار کو محدود کیا، آئین میں تبدیلیاں کی، اقوام عالم کے ساتھ تعلقات کو درست کیا، اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کیں ۔ اس کے بعد اس نے عالم اسلام کےلیے اپنی آواز اٹھائی۔ اس نے غزہ کےلیے فریڈم فلوٹیلا بھیج کر اسرائیل کی مخالفت لی اور امسال اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات اپنی شرائط پر بحال کیے بلکہ غزہ کے مسلمانوں کےلیے سختی میں نرمی بھی کروائی۔ مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر اس نے مرسی کا ساتھ دیا اور مصر کے ساتھ ابھی بھی اس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہو سکے ہیں۔ اس نے عربوں کو خبردار کیا کہ ان کی پالیسیاں اُن کا اقتدار کمزور کر دیں گی اور پھر وہ کہانی بن جائیں گے ۔ اس نے ہر جگہ پر مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائی ۔ روایتی اسلام پسند ہونے کی وجہ سے اس نے اتاترک کے زمانے سے عربی پر عائد پابندی اٹھائی، حجاب پر عائد پابندی اٹھائی، سکولوں کا نصاب اپ ٹو ڈیٹ کیا، اسلام پر عائد پابندیاں مرحلہ وار ختم کیں، اس کے اقتدار کے پہلے سال میں ترکی میں 17 ہزار مساجد تعمیرہوئیں۔ اس نے نائٹ کلبوں کے قوانین بنائے اور ان کو ایک دائرے میں محدود کر دیا، اس نے سکول اور مساجد کے اطراف میں ایک سو میٹر تک کلب اور بار بنانے اور شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی، اس نے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف قوانین بنائے ، اس نے شتر بےمہار میڈیا کو لگام ڈالی ۔ یہاں یہ نقطہ سمجھنے والا ہے کہ اس نے نفرت نہیں محبت کو فروغ دیا ۔ اس نے یہ کام ایک ہی رات میں یا ایک ہی ساتھ شروع نہیں کیے بلکہ مکمل حکمت عملی کے ساتھ مرحلہ وار کیے۔ ابھی بھی بہت سا کام ہونا باقی ہے لیکن دہائیوں کا گند دھونے میں ایک وقت لگتا ہے
مغرب نے 2008ء میں طیب اردگان کے خلاف کھلم کھلا محاذ کھول لیا تھا، اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنا ، میڈیا میں اس کے خلاف منفی رپورٹنگ ، اس کی مقبولیت میں کمی کے لیے بھونڈے ہتھکنڈوں کا استعمال، اس کی حکومت کو الٹنے تک کی سازشیں تک ہوئیں ، لیکن اللہ کے خاص فضل و کرم کی وجہ سے طیب اردگان عوام میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبول ہوتا رہا یہاں تک کہ جولائی 2016ء آ گیا جب طیب اردگان ریکارڈ ووٹوں کے ساتھ جدید ترکی کا بارھواں صدر اور براہ راست ووٹوں سے پہلا منتخب صدر تھا۔ اس منتخب صدر کا تختہ الٹنے کےلیے رات گئے بھاری ٹینکوں اور اسلحہ کے ساتھ انقرہ اور استنبول کی سٹرکوں پر فوج نے گشت شروع کردیا اور جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں کہا کہ مغربی میڈیا بھی باچھیں پھیلا کر عوام میں آ گیا۔ اس نے منفی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ صحافتی بد دیانتی اور خیانت کے ریکارڈ قائم کیے ۔ ترکی کی فوج کے تین برئیگیڈز نے بغاوت کی تھی اور قیاس یہی تھا کہ باقی فوج بھی اُن کے ساتھ مل جائے گی۔ اس غیر یقینی کی صورتحال میں طیب اردگان کے ساتھیوں نے پہلی کال دی کہ لوگ مساجد میں اکھٹے ہو جائیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر طیب اردگان نے کہا کہ میرے ساتھیو، میں واپس آ رہا ہوں، تم عوامی حکومت بچانے کےلیے میدان میں آ جاؤ۔ اس لمحے میں اپوزیشن نے بھی اردگان کا ساتھ دیا اور قوم سڑکوں پر آ گئی اور اس کے بعد کے واقعات ایک مکمل تاریخ ہیں کہ کیسے عوام نے اپنی طاقت سے مسلح افواج کو واپس اس کی بیرکو ں میں پہنچا دیا۔ ذمہ داران کو گرفتار کیا گیا اور محض تین گھنٹے میں ہی حکومت بحال ہو گئی۔
مغربی میڈیا نے یہاں پھر فتنہ انگیزی سے باز نہیں آیا اور پھر پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ یہ طیب اردگان کی خود ساختہ ساز ش ہے ۔ میرے اپنوں کا مجھ سے یہی سوال تھا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ طیب اردگان نے خود کروایا ہے ۔ اگر فوج کے ایک مخصوص طبقے نے سازش کی تھی تو اس کی سرکوبی فوج سے کروائی جاتی۔ جس نے بھی ترکی کی تاریخ کو پڑھا وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسی صورتحال میں طیب اردگان نے جو کیا وہ درست کیا۔ اس نے عوام کو اپنے ساتھ آنے کی کال دی تو سڑکیں بھر گئیں کیونکہ عوام جانتی ہے کہ ہمارے مفادات کا محافظ یہی اردگان ہے۔ اس نے ہی ترکی کا چہرہ بدلا ہے اور دنیا میں اب ہماری عزت اور پہچان ہے. وہ دنیا جو ہمیں کوڑیوں کے بھاؤ نہیں پوچھتی تھی ، ہماری لڑکیوں کو فحاشہ کی نظر سے دیکھتی تھی ، اب ہمیں عزت دیتی ہے اور ہم جی ٹونٹی کا حصہ ہیں۔ ایسی نازک صورتحال میں کہ جب یہ بھی واضح نہ ہو کہ پوری فوج اس سازش میں ملوث ہے اور اس کو اپنے ماضی کی بلا شرکت غیرے حکومت کے دن یاد آ رہے ہیں اور وہ اقتدار پر قبضہ کی خواہش کے ساتھ میدان میں آئی ہے یا کہ ایک مخصوص گروپ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلیے میدان میں آیا ہے۔ ایسے میں طیب اردگان کی حکمت عملی بالکل درست تھی کہ وہ فوج کی آشیر باد اور حمایت سے نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آیا تھا، اس نے فوج کی حدود کو مقرر کیا تھا ، وہ عوام کا لیڈر تھا اور ابھی جبکہ صورتحال بھی واضح نہیں تھی، دیر کرنے سے مصر جیسی صورتحال کا واضح خطرہ تھا اور عالمی میڈیا مارشل لا کی خبریں خوشی سے اچھلتے ہوئے دے رہا تھا تو عوام کو کال دینا ہی عقل مندی تھی۔ تا دم تحریر ترکی میں حالات معمول پر آ گئے ہیں. اس کےلیے تقریباً 275افراد نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے ، 3ہزار سے زائد سازشی گرفتار ہو چکے ہیں۔ سازشی فوجیوں کا ایک ٹولہ یونان فرار ہو کر وہاں سیاسی پناہ کی درخواست دے چکا ہے. عوام نے عالمی میڈیا، تھنک ٹینکس ، اقوام عالم پر طیب اردگان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر دیا ہے ۔ میڈیا کی سازشی تھیوریاں اپنی موت آ پ مر رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں مطلع مزید صاف ہو جائے گا۔ جہاں تک طیب اردگان کے اقتدار کی بات ہے تو ان کو اب مزید محنت کی ضرورت ہے کہ عوام نے اس کڑے وقت میں ان پر اپنے مکمل سے بھی سو گز آ گے کے اعتماد کا اظہار کر دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اردگان کے نیک ارادوں میں برکت اور آسانیاں دیں۔ قد آور اردگان کو سبز سلام ۔
پس تحریر: پاکستان کا میڈیا کاپی پیسٹ کی حکمت عملی کا مظاہرہ بار ہا کرتا رہا ہے، اس مسئلے میں بھی اس نے اس کا مظاہر ہ کیا اور بغیر تحقیق کے ہی اس نے ادھر کی خبر ادھر لگا کر مزید بدنامی مول لی۔ اس وقت بھی غیر ملکی میڈیا کی سازشی تھیوریز کی ترجمانی کے فرائض پاکستانی میڈیا سر انجام دے رہا ہے ، جو کہ اس کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ یہاں اردگان کے زوال کے تمام خواہشمندوں کو خبر ہو کہ ترکی کے عوام نے آپ کے ارمانوں پر اوس ڈال دی ہے اور طیب اردگان مزید قد آور لیڈر بن کر سامنے آیا ہے ۔

Comments

Click here to post a comment