ہوم << ''دلیل'' کے ساتھ - طلحہ سیف

''دلیل'' کے ساتھ - طلحہ سیف

ٹرینڈ اٹھایا گیا کہ سوال کی حرمت کا سوال ہے اور کہا گیا کہ
'بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی'
ہم نے سوچا شاید واقعی مکالمہ مکالمہ کھیلنے کی دعوت دینے والے احباب سنجیدگی سے اس کام پر راضی ہوگئے ہیں تو کیوں نہ شروع کردیا جائے. پھر یوں ہوا کہ سوالات کی ہانڈی رکھی رکھی باسی ہوگئی مگر کوئی جواب نہ آیا اور بہت سے ایسے افراد نے سوالات ہی مٹادیے کہ نام لیا جائے تو یقین نہ آئے. معلوم ہوا لوگ بات تو کرتے ہیں مگر"دلیل" سے چڑتے ہیں.
سنا ہے اب "دلیل" آگئی ہےاور اسے تو آنا ہی ہوتا ہے، کوئی چاہے یا نہ چاہے. "ہم سب" کو "دلیل" کی حاجت تھی اور سخت حاجت تھی. 'ہم سب' اب تک اپنی باتیں کیے چلے جا رہے تھے. باتیں جو اکثر کچی ہوتی ہیں کیونکہ ہم سب کی عقل ناقص، شعور محدود اور فطرت کج روی کا شکار ہوچکی ہے. ہم سب اپنی عینک سے دنیا کو دیکھنے کے عادی ہیں. ہم سب نہ تو تھوڑا پیچھے جھانک پا رہے ہیں اور نہ تھوڑا آگے دیکھ رہے ہیں بس وہ حال نظر آتا ہے جو کہ ناپائیدار اور ناقابل انضباط ہے. ماضی پر گرد ڈالیے اور مستقبل کو ہم سب کی آنکھ سے دیکھیے. خلاصہ دعوت یہ ہے. حالانکہ ماضی ایک مستحکم دلیل ہے اور مستقبل کو بھی وقتی ضرورت کی نہیں، دلیل کی آنکھ سے دیکھنا ہوتا ہے، اور دلیل کبھی حادثاتی نہیں ہوتی، محکم اصولوں پر قائم ہوتی ہے، ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں ضابطے پر طے کی جاتی ہے، وہ ہم سب کی مرضی اور رائے پر نہیں آفاقی اصولوں پر مشتمل ہوتی ہے. حق دلیل لاتا ہے اور جواب میں دلیل مانگتا ہے. ہاتوا برھانکم ان کنتم صادقین
یہ رہی ہماری دلیل جو کبھی آفاقی ہے، کبھی انفسی ہے اور کبھی روایتی ۔ مکالمے کا ادب یہ ہے کہ جواب میں اسی درجے کی دلیل آئے نہ کہ چند لوگ یہ کہہ دیں کہ ہم سب کی رائے یہ ہے اور یہی حق ہے اسے مان لیجیے.
"دلیل" کا سورج چمکا ہے اور دیکھتے ہیں شپرہ چشم اس کی تاب لا پاتی ہے یا نہیں۔
وہ لائے یا نہ لائے، دلیل رہنمائی کا نام ہے اور رہنمائی کی حاجت ہر راہ نورد کو ہوا کرتی ہے. سو حق کی منزل کو جانے والے تو دلیل کی روشنی میں جائیں گے.
دلیل دینے والے ایک اہم ترین بات یاد رکھیں. دلیل منوانے کا نہیں دکھا دینے کا نام ہے. دلیل کا حق کچھ اسی پر موقوف نہیں کہ اسے مان لیا جائے ورنہ انبیائے کرام علیہم السلام کی ہر دلیل مان نہ لی جاتی اور قرآن کی ہرحجت پر ایمان نہ آجاتا؟ مگر اٹل حقیقت اور کلی سچائی یہ ہے کہ دلیل رد کردی گئی. کبھی فرد نے "میں" کی بنا پر رد کی اور کبھی معاشرے نے "ہم سب" کی رائے کی بنیاد پر. دلیل دینے والے اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہونے لگے تو تسلی دی گئی کہ مقصد منوانا نہیں بلکہ یہ تھا
"لیہلک من ھلک عن بینة ويحي من حي عن بينة"
حق پر آنے والا دلیل کے ساتھ آجائے اور باطل پر رہنے والا بھی دلیل سن کر اس پر رہے.
"ان علیک الاالبلاغ"
کو یاد رکھیے ورنہ دلیل نہ مانے جانے پر
"لعلک باخع نفسک الا یکونوامومنین"
والی کیفیت میں مبتلا کرکے مایوسی دلیل دینے کے کام سے ہٹانے لگتی ہے.
یاد رکھیے دلیل بارش کی طرح ہے.
نرم اور زرخیز زمین پر پھل پھول اور کھیت کھلیان اگاتی ہے، اور
کچرا کنڈی کی بدبو میں اضافہ کردیتی ہے، جوہڑ کو اور زیادہ متعفن بنا دیتی ہے.
آپ کی دلیل یہ دونوں کام کرے تو سمجھیے آفاقی ہے، الہی ہے اور اصولی ہے.
آئیے!
دلیل کا دامن تھام کر چلتے ہیں، دلیل پیش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟
دل افگندیم بسم اللہ مجرھا ومرسہا