ہوم << امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

ابومصعب اگر آپ یہاں واشنگٹن پوسٹ کے دیے گئے لنک پر کلک کریں گے تو بالکل حیران نہیں ہوں گے کیوں کہ ویڈیو میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ ہم اور آپ بارہا اپنے ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں۔ دوکانوں کے شیشے لاٹھیوں سے توڑے جا رہے ہیں، سڑک کے درمیان چیزوں کو رکھ کر نذرآتش کیا جا رہا ہے، ایک شخص کو آپ درخت کو آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مظاہرین کا بس ایک ہی نعرہ ہے:
Not my President
یعنی ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے۔
امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سے لوگ اتنے اپ سیٹ ہیں کہ کئی لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹ توڑتے، لیپ ٹاپس کے اوپر ڈنڈے برساتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دکھایا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو صدر ٹرمپ بھی بڑی حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور جیت کی خوشی میں ان کی کھلی باچھیں ابھی اپنی جگہ پر بھی نہ آئی تھیں کہ ہنگاموں کے پھوٹنے پر حیران و پریشان ہیں۔ لوگ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کے خلاف نہ صرف مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ غم و غصہ میں بھرے لوگ ہنگامے بھی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی ریاستوں میں ان کی فلک بوس عمارتیں ہیں۔ لوگوں نے ان عمارتوں کے باہر جمع ہو کر بھی اپنی نفرت اور غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے نو منتخب صدر ٹرمپ نے تازہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اس قدر واضح جیت کے باوجود جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے، وہ میڈیا کے مقرر کردہ لوگوں کی ایما پر ہو رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے الفاظ:
Just had a very open and successful presidential election. Now professional protesters, incited by the media, are protesting. Very unfair!
یہ سب کیوں ہوا؟ جمہوری ملک میں جمہوری مزاج رکھنے والے عوام کو آخر ٹرمپ کی جیت کیوں ہضم نہیں ہوئی؟ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ امریکہ میں چاہے صدر جو بھی آئے، بادشاہ گروں کی طرف سے اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ لابنگ کرنے والی فرموں کو اپنا اپنا گھوڑا جتوانے کے لیے ہائر کیا جاتا ہے، مہمات لانچ کی جاتی ہیں اور میڈیا کے ذریعہ ملک کے اندر ایک عمومی فضا بنا دی جاتی ہے کہ فلاں تو آیا ہی آیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میڈیا ٹاکس، صحافیوں کے تجزیے اور سروے، مس کلنٹن کی جیت کی خوشخبری سنا رہے تھے، مگر الیکشن کے رزلٹ نے عوام کو حیران و پریشان کر دیا، اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ آج سے بارہ تیرہ سال قبل کسی فلم میں یا ویڈیو گیم میں مسٹر ٹرمپ کو امریکی صدارتی دوڑ میں شامل دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اویں ای تھا؟
آخر میں یہ بات کہ امریکی عوام کی اکثریت نے مس کلنٹن پر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں ترجیح دی؟ اس کا جواب ہے کہ امریکی عوام کے ساتھ جارج بش کے بعد اوبامہ کی صورت میں ہاتھ ہو چکا ہے۔ لوگ جارج بش کی امریکی فارن پالیسی سے خوش نہیں تھے جبکہ وہ قوتیں جو اسی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی تھیں، جانتی تھیں کہ اگر کوئی ایسا شخص امریکہ کا صدر بن گیا جس پر ان کا ہاتھ نہ ہو تو کھیل کا پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے عوام کو ایک تبدیلی دکھانے کے لیے اوبامہ کو میدان میں اتارا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ملک جس میں کالوں کے ساتھ ہر سطح پر تھوڑا بہت امتیاز برتا جاتا ہے، وہاں کیا کوئی گورا میسر نہیں تھا جو مسٹر اوبامہ کو آگے لایا گیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے یہ محض ایک چال تھی۔ گوری چمڑی کے بجائے جب لوگ کالی چمڑی کو دیکھیں گے تو پچاس فیصد تو نفسیاتی طور پر ویسے ہی ’’تبدیلی‘‘ آنے کا ذہن بنا لیں گے۔ مگر ثابت ہوا کہ یہ سب دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور عوام نے دیکھ لیا کہ امریکی فارن پالیسی سے لے کر گوانتانامو بے تک، اوبامہ نے جتنے وعدے کیے تھے، وہ سب سراب ثابت ہوئے، اور پالیسیاں جوں کی توں چلتی رہیں۔
اب کی بار اسی شکاری نے ایک بار پھر ’’تبدیلی‘‘ کا تاثر دینے کے لیے جنس کا انتخاب کیا اور کسی مرد کے بجائے عورت کو آگے کیا، تاکہ لوگ ’’تبدیلی‘‘ کو نفسیاتی طور پر محسوس کریں۔ مگر اس بار عوام نے جان لیا کہ انہیں ایک بار پھر ماموں بنایا جا رہا ہے، اور مس کلنٹن کٹھ پتلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، جو اسی فارن پالیسی کو جاری رکھیں گی جو پچھلے سولہ سالوں سے چل رہی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں ایک مختلف پروگرام رکھنے والے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نومنتخب صدر اپنے وہ وعدے پورے کر سکیں گے جو انہوں نے امریکی عوام سے الیکشن مہم کے دوران کیے تھے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو آسان بھی نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں ان کو کئی قانونی پیچیدگیوں اور ’’بادشاہ گروں‘‘ کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اصل ’’بادشاہ گروں‘‘ کی قوت کو بھی خوب جانتے ہیں۔ کیا انہیں چار امریکی صدور کا علم نہ ہوگا جن کو ان کی حکومت ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ہیں: ابراہام لنکن، جیمس اے گارفیلڈ، ولیم مکین لی اور صدر جان ایف کینیڈی۔ یوں اب تک امریکہ کے 44 صدور میں سے چار کو مار کر جان چھڑائی گئی ہے۔
ٹرمپ کے خلاف احتجاج کی ویڈیو

خبریں
https://www.washingtonpost.com/news/post-politics/wp/2016/11/10/not-my-president-thousand-protest-trump-in-rallies-across-the-u-s/
http://www.dailymail.co.uk/news/article-3922098/The-backlash-begins-Disgruntled-anti-Trump-protesters-refuse-accept-election-result-gather-New-York-cities-country.html

Comments

Click here to post a comment