ہوم << اُمت پر مسلط سیکولر قیادت کی تباہ کاریاں.. مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

اُمت پر مسلط سیکولر قیادت کی تباہ کاریاں.. مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

UMMAH1LogowithSlogan
۱۹۶۷ء میں اسرائیل سے عربوں کی شکست کے بعد مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے عالمِ عرب کے مختلف شہروں میں اہم تقریبات سے خطاب کیا، مولانا نے ان تقاریر میں عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے حقیقی المیہ اور اس کے اسباب کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرمائی، مولانا کی یہ تقاریر ’’عالمِ عربی کا المیہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں موجود ہے۔
مولانا کی یہ تقاریر آج بھی سیکولر اور روشن خیال حکمرانوں کی نفسیات کے مطالعہ و تجزیہ اور اُمت کی بیداری کے سلسلہ میں اہم نوعیت کی حامل ہیں۔ ہم مولانا کی صرف دو تقاریر کی تلخیص پیش کر رہے ہیں۔
واقعات سے سبق حاصل کرنے کی نفسیات
حالیہ واقعات جو کسی توضیح و تشریح یا کسی حاشیہ آرائی کے محتاج نہیں، ہم میں سے ہر ایک اس کو اچھی طرح جانتا ہے، اس کی تلخی کو محسوس کرتا ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے میں بھی آپ لوگوں کے تمام مصائب و تکالیف میں شریک ہوں، ان حادثات کی اگر کوئی قیمت ہو سکتی ہے تو یہی کہ ہم ان سے سبق حاصل کریں اور ان سے صحیح، یقینی، صاف اور بے غبار نتائج اخذ کریں۔ یہ المناک حادثہ جس کی ہم نے اپنی عزت و وقار اور اپنے علاقہ سے بڑی سے بڑی قیمت ادا کی ہے، اس کا کوئی فائدہ اگر ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی روشن پہلو نکل سکتا ہے تو یہی کہ ہم اس سے عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کریں، میں اس کے اسباب کی تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا، نہ اس موضوع پر کوئی لمبی بات کرنا چاہتا ہوں، یہ بہت پامال اور مشہور و معروف موضوع ہے، ممکن ہے اس سے اُکتاہٹ پیدا ہو جائے۔
ان المناک حادثات کا سب سے پہلا نتیجہ جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا ضروری ہے، یہ ہے کہ لادینی اور ملحدانہ قیادتیں ناکام ہو چکی ہیں۔
لادینی اور ملحدانہ قیادتوں کی ناکامی
ان حادثات نے روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ لادینی قیادتیں جو عربوں و مسلم اقوام پر مسلط ہو گئی تھیں، اپنے تجربہ میں ناکام ہو گئیں۔ اگرچہ میں اس کو تجربہ نہیں سمجھتا بلکہ یہ طے شدہ پروگرام، سوچے سمجھے منصوبے، دانستہ اور ارادی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ ہے۔
یہ قیادت صرف فلسطین کا مسئلہ حل کرنے ہی میں ناکام نہیں ہوئی ہے بلکہ اپنی قوم کی سلامتی، اس کی حفاظت اور ملک کی عزت و وقار اور ان کے حدود کی حفاظت میں بھی ناکام رہی۔
لادین قیادتوں کی طرف سے اپنے ترکش کے آخری تیر کا استعمال
کہا جاسکتا ہے کہ ان ترقی پسندانہ نظریات پر مبنی قیادتوں کو کچھ رعایت ملنی چاہیے جو ترقی یافتہ، متمدن اور انقلابی عہد کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی کی کوشش کر رہی ہیں اور غیرمرئی اور غیبی عوامل کو تسلیم نہیں کرتیں بلکہ صرف موجود اور مرئی حقائق پر یقین و اعتماد رکھتی ہیں، ان کو اس کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ درپیش مسائل اور عرب قوم کی قیادت کے میدان میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ تو یہ بھی ہو چکا، اﷲ نے ان کو میدان میں آنے اور اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا پورا پورا موقع دیا، دانا و بینا پروردگار کی اس میں بھی ایک حکمت ہے کہ یہ قیادتیں اپنے ترکش کا آخری بہترین، تیز ترین اور قوی ترین تیر بھی استعمال کر کے دیکھ لیں، اﷲ کی مشیت یہ رہی کہ یہ قیادتیں ان تمام بہتر سے بہتر وسائل سے مستفید ہوں جن کا ذکر تاریخ کے کسی زمانہ میں بھی ملتا ہے یا جن تک فکرِ انسانی کی رسائی ہو سکتی ہے اور جن کا وجود روئے زمین پر ممکن ہے اور ان تمام اسلحہ سے لیس ہوں جن سے روئے زمین کی کوئی بھی طاقت بہرہ ور ہو رہی ہے، قدرت نے کسی چیز میں بخل نہیں کیا، ان کی آرزوئوں میں رکاوٹ نہیں ڈالی، رائے عامہ کی تشکیل، ادب و صحافت کے استعمال، اداروں کی تنظیم اور نظریات و خیالات کی ترویج و اشاعت کے لیے ان کو جدید، بہتر اور موثر ذرائع و وسائل مہیا کیے گئے، اﷲ کی حکمت بالغہ جس کی گہرائی اور گیرائی کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، کا تقاضا یہی تھا کہ وہ طاقتیں جو اپنے کو اس عہد کی قیادت کا اہل سمجھتی تھیں اور قوم کی رہنمائی کی دعوے دار تھیں، اس زمانہ کی بہترین ایجادات و اختراعات ان کی دسترس میں ہوں اور وہ ان کو استعمال کر کے بھی دیکھ لیں، قیادت کا میدان ان کے لیے خالی ہو اور بغیر کسی خطرہ یا رکاوٹ کے پورے ساز و سامان، ذہن و دماغ اور اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ ان کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملے لیکن اس کے باوجود ان کو انتہائی شرمناک شکست ہو۔ یہ مثال اگر انسانی تاریخ نہ کہا جائے تو بھی، کم از کم مسلم تاریخ میں نہیں ملتی۔
امت پر جبراً غلبہ حاصل کرنے اور اپنے سردارﷺ سے رشتہ توڑنے والوں کا حشر
محمدﷺ کے پیغام کی مخالفت کرنے والوں، آپ کی عالمی اور ابدی قیادت کو چیلنج کرنے والوں اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کا ہمیشہ یہی انجام ہوا ہے، قرآنِ کریم میں ہے کہ:
ان شانئک ھو الابتر ’’بیشک آپؐ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہونے والا ہے‘‘۔
اس آیت کو میں رسول اﷲﷺ سے بغض و حسد رکھنے والے اور آپ کی قیادت سے اختلاف کرنے والے قریش کے کسی اُجڈ اور اکھڑ شخص کے لیے مخصوص نہیں مانتا، اسی طرح ’’ابتر‘‘ میرے خیال میں صرف نسلی اور نسبی انقطاع ہی کا نام نہیں بلکہ اس کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے، اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ:
’’اے محمد(ﷺ) جو بھی آپ کا مخالف ہو، آپ سے دشمنی رکھے، آپ کی عالم گیر قیادت کو چیلنج کرے، آپ کی قیادت سے قوم کا تعلق منقطع کر کے ان کی گردنوں پر خود مسلط ہو جائے اور قوم کے ذہن و دماغ سے روحانیت کے مبارک عنصر کو خارج کرنا چاہے، اس کا انجام ہے بدتوفیقی ناکامی، ذلت، گمنامی اور بے نشانی‘‘۔
یہی انجام ہوا مسلیمہ کذاب کا، اسود عنسی کا، طلیحہ اسدی کا، سجاح کا، ابو طاہر جنابی کا، عبید بن میمون کا، حسن بن صباح کا، بہاء اﷲ ایرانی اور غلام احمد قادیانی کا اور اسلام سے بغض و عداوت رکھنے والے انتہا پسند قوم پرست لیڈروں کا بھی ہر زمانہ میں یہی انجام ہوا ہے اور جو شخص بھی اس اُمت پر ناجائز طور سے اور زبردستی غلبہ حاصل کرے گا اور اُمت کو محمدﷺ کی ابدی قیادت سے الگ کرنے کی کوشش کرے گا، اس کا انجام بھی وہی ہو گا، قرآن نے جس کی خبر دی ہے اور تاریخ سے جس کی ابدیت ثابت ہے۔
مفسرین کو اﷲ تعالیٰ جزاے خیر دے، انھوں نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے، اس کے اعتراف و احترام کے ساتھ میں اس آیت کے مفہوم کو اس قدر محدود نہیں سمجھتا، میرے نزدیک اس کا مفہوم وسیع ہے اور یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ ’’محمدﷺ کے ہر حریف و رقیب اور آپ کی قیادت کو چیلنج کرنے والے ہر بدنصیب کا یہی انجام ہو گا‘‘۔
تاریخ، عقلِ سلیم اور حوادث سے صحیح نتائج اخذ کرنے والا باشعور ذہن ان رہنمائوں کو اس ناکام تجربہ کو دوبارہ دہرانے کی اجازت اور اس کا موقع ہرگز نہیں دے سکتا، انسان کی انفرادی زندگی میں بھی ناکام تجربات کا دہرانا خطرناک ثابت ہوا کرتا ہے اور قوم کے قائدین کی غلطیوں کا اعادہ تو قوم کے مستقبل اور اس کے انجام کے لیے انفرادی زندگی کے محدود نقصان سے کہیں زیادہ مضرت رساں اور تکلیف دہ ہو گا۔
چکنی چپڑی باتیں کرنے والے سیکولر حکمران اور ان کی سرگرمیوں کا نتیجہ
خود غرض اور مفاد پرست رہنمائوں کا یہ طریقہ جو اپنے نفس کی پرستش اور اقتدار کی اونچی کرسیوں کے سامنے سجدہ ریزی کو اپنا شعور بنائے ہوئے ہیں جو اپنے اغراض اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں کسی بھی چیز کو معیوب نہیں سمجھتے، جنھیں نہ دین و مذہب کا خیال ہے، نہ انسانیت کا پاس، نہ افراد کی آزادی کا لحاظ، نہ آخرت پر یقین، نہ اپنے ذاتی فوائد کے سامنے کسی قومی و ملکی مصلحت کی فکر، نہ دوسروں کے خیالات و نظریات اور اصول و ضوابط پر اعتماد، نہ ان کا لحاظ جو خود ’’اعلیٰ اقتدار‘‘ اور افکار و نظریات کے بت تراشتے ہیں، پھر انہی کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں اور ان کے سامنے رائے، کسی نظریہ کو خاطر میں نہیں لاتے، اس قسم کے رہنما اور سربراہ اپنی قوم کے گناہوں کا نتیجہ ہیں اور اس کی پاداش میں ان پر مسلط کر دیے گئے ہیں، قرآن ان کی صحیح اور سچی تصویر کشی کرتا ہے:
ترجمہ: ’’بعض انسان ایسے ہیں جن کی بات دنیا کی زندگی میں بڑی بھلی لگتی ہے، وہ اپنے دل کی باتوں پر اﷲ کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہیں اور جب وہ قابو پاتے ہیں تو زمین میں ان کی سرگرمیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ اس میں فساد پھیلائیں اور جانوں اور کھیتوں کو برباد کریں اور اﷲ فساد پسند نہیں کرتا اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ سے ڈرو تو غرور ان کو گناہ پر آمادہ کرتا ہے، ان کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے‘‘۔ (البقرۃ:۲۰۴۔۲۰۶)
ان لیڈروں کی اس سے بہتر اور سچی تصویر اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا ایک ایک جزو ان پر منطبق ہو رہا ہے، ان کی چکنی چپڑی باتیں سنیے، انسانیت، آزادی، جمہوریت، اشتراکیت، انسانی حقوق اور معاشرتی انصاف جیسے موضوعات پر ان کی، ان کے حواریوں اور ان کے گرگوں کی رواں اور فصیح و بلیغ عبارتیں پڑھیے، عرب ممالک کے کسی بھی مرکز سے بہترین اور دل نواز نشریات سنیے، اخبارات میں شائع ہونے والی ان کی وجیہہ و شکیل تصویریں دیکھیے، آپ تعجب کریں گے کہ یہ وجیہہ اور بارعب سورما کیا اسرائیل سے شکست کھا سکتے ہیں؟
اگر آپ قرآن کی تصدیق اور اس کی عملی تفسیر چاہتے ہیں تو ذرا اخبارات میں گذشتہ واقعات کی تفصیل پر ایک نظر ڈال لیجیے اور ان حادثات سے ان رہنمائوں کے دل و دماغ پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، اُن پر غور کیجیے اور اسی طرح قرآن کی یہ آیت پڑھیے:
ترجمہ: ’’اگر تم ان کو دیکھو تو ان کے جسم تم کو بھلے لگیں گے اور وہ کچھ کہیں تو تم ان کی باتیں سنو گے جیسے وہ ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہر آواز ان ہی کے خلاف ہے، وہی دشمن ہیں، ان سے محتاط رہو‘‘۔ (المنافقون:۴)
قرآن کی اس آیت میں ان کی صحیح اور حقیقی تصویر پوری طرح اور مجسم شکل میں آجاتی ہے، یہ قرآن کا ابدی معجزہ ہے۔
حالیہ واقعات سے ملنے والا یہ دوسرا سبق ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ ’’جب یہ قابو پاتے ہیں تو ان کی ساری سرگرمیاں زمین میں فساد پھیلانے اور جان و مال برباد کرنے کے لیے ہوتی ہیں‘‘۔ ذرا ان ملکوں میں جان و مال کی بربادی پر نظر ڈالیے جہاں یہ خود سر اور خوفِ خدا سے آزاد حکمرں مسلط ہو گئے ہیں جو جدید فلسفوں اور شیطانی نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، انھوں نے اپنے ملکوں کو بالکل خالی کر دیا ہے جیسے موسمِ خزاں میں سرسبز و شاداب درخت پھولوں اور پتیوں سے بالکل خالی ہو جاتے ہیں، مصیبت کے مارے یہ ممالک بالکل ویران ہو گئے ہیں، تمام دینی و دنیاوی نعمتوں سے خالی ان میں نہ بڑے بڑے علما رہ گئے ہیں، نہ وہ ماہرین جن پر علاقہ فخر کرتا تھا۔ ان ممالک میں نہ آزادی ہے، نہ خود اعتمادی۔
روشن خیال قیادت کا کارنامہ، قوم کو اس کی خوداعتمادی سے محروم کرنا
خوداعتمادی جو انسان کی بہترین دولت ہے اور ہر زمانہ میں انسان اس سے متمتع ہوتا رہا ہے، یہاں تک کہ قدیم فرمانروائوں اور ظالموں نے بھی ان سے یہ دولت نہیں چھینی لیکن نام نہاد ’’جمہوریتوں‘‘ اور ’’ترقی پسند قیادتوں‘‘ نے مسلم اور عرب اقوام کو اس دولت سے بھی محروم کر دیا، ان کی خوداعتمادی جاتی رہی، ان کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے، نہ اپنی عقل پر، نہ اپنی کارگزاریوں پر۔ طالب علم میں اگر خوداعتمادی نہ ہو تو کتنا ہی ذہین ہو، امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا، فوج کا ایک سپاہی اگر تلوار نہ رکھتا ہو تو کوئی زیادہ فکر کی بات نہیں، بندوق نہ ہو، کوئی حرج نہیں، گولیاں ختم ہو جائیں، جب بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں لیکن اگر اسے اپنے اوپر اعتماد نہ ہو، اپنے اصول و نظریات پر اعتماد نہ ہو، اپنے دین پر اعتماد نہ ہو تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔
اس قوم کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان یہی ہے جس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔
اقوام و ملل کی مثال رواں دواں نہروں جیسی ہے، اس میں جھاگ اٹھتا ہے، پتھر آتے رہتے ہیں، لکڑیاں بھی بہتی رہتی ہیں اور نہر کی روانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔
ترجمہ: ’’جھاگ خشک ہو کر اڑ جاتا ہے اور جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین پر ٹھہر جاتا ہے‘‘۔ (الرعد:۱۷)
زندگی میں نہ مصائب و آلام کی چنداں اہمیت ہے، نہ شکست و ناکامی کی۔ اہمیت ہے قوم کی خودشناسی اور خوداعتمادی کی، ضمیر کی بیداری کی اور گرد و پیش کے صحیح شعور و ادراک کی۔
لیکن جب قوم کا احساس اتنا مردہ ہو جائے کہ اسے فتح و شکست کا فرق ہی نہ محسوس ہو، اس کا شعور اتنا خام ہو کہ دوست و دشمن میں تمیز نہ کر سکے، اسے نہ دشمن سے عداوت ہو، نہ دوست سے محبت تو ایسی قوم خود ہی اپنے لیے خطرہ اور اپنے آپ کی دشمن بن جاتی ہے۔
ہماری موجودہ قیادت نے ہم کو اس صلاحیت اور اس قوت کے خزانہ سے عاری اور بے بہرہ کر دیا ہے حالانکہ اسی کی بدولت ہم نے تاریخ کے ہر دور میں ایسے حملوں اور مصیبتوں کا سامنا کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کو ان سے سابقہ پڑتا تو وہ صرف تاریخ کے صفحات کی زینت بن کر رہ جاتی لیکن اس امت نے پختہ ایمان، زندہ شعور اور اسی خوداعتمادی ہی کی وجہ سے تاریخ کے ہر موڑ پر بڑے بڑے مہیب اور مہلک حملوں کا مقابلہ کیا ہے، ایک شکست خوردہ فوج بھی اگر ایمان اور ایمانی و نبوی تربیت کے پیدا کردہ اسلحہ سے عاری نہ ہو تو اس کی اہمیت پست نہیں ہو سکتی اور بالآخر کامیابی اس کے قدم چومے گی، کیا آپ نے غزوۂ حمراء الاسد کا واقعہ نہیں پڑھا؟ رسول اﷲﷺ اور آپ کے اصحاب (رضوان اﷲ اجمعین) زخموں سے چور غزوۂ احد سے واپس ہوتے ہیں، انھوں نے ابھی میدانِ جنگ کی گرد بھی نہیں جھاڑی ہے، اسی کٹھن موقع پر رسول اﷲﷺ آگے بڑھ کر قریش سے دوبدو ہونے کا حکم دیتے ہیں، کامیابی کے نشہ میں جن کے دماغ آسمان پر پہنچ رہے تھے۔
دنیا کی کسی بھی فوج کو اتنے زخم لگے ہوئے ہوں تو وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی لیکن وہ لوگ دوبارہ مقابلہ کے لیے بڑھے، اگرچہ مقابلہ نہیں ہوا کیونکہ قریشی الٹے پیروں واپس ہو گئے۔
کشتی کے سوراخ کی صورت میں بچائو کی واحد صورت
ان حوادث سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری زندگی غلط پٹری پر پڑ گئی ہے اور ضروت اس امر کی ہے کہ پہلی فرصت میں اس غلطی کو تلاش کر کے اس کی تلافی کریں۔ جب تک یہ غلطی باقی ہے، جب تک کشتی میں کوئی سوراخ ہے جس سے پانی اُبل رہا ہے، زندگی کی کشتی خطرہ سے باہر نہیں آ سکتی۔ آج عرب اقوام اور ان قیادتوں کی مثال اسی
کشتی کے سواروں جیسی ہے جس کے پیندے میں سوراخ تھا اور پانی آرہا تھا لیکن کشتی کے سوار خیالی بحری قزاقوں سے بچنے کی فکر میں تو پریشان رہے لیکن اس سوراخ سے غافل رہے، ایسی کشتی اور ایسے سواروں کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟
حکومتوں اور انسانی معاشرہ کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے، ایک قوم اٹھتی ہے اور ایک طاقتور اور شان و شوکت کی حکومت قائم کرتی ہے۔ ابتدا میں اُن کی طبائع پر جرأت، بہادری، استقلال اور متانت کا اثر غالب رہتا ہے، وہ دھن کے پکے اور محنت و مشقت کے عادی ہوتے ہیں، پھر ان میں کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے، ان کی ہمتوں اور ان کے عزائم میں گھن لگ جاتا ہے، رفتہ رفتہ یہ روگ رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے، یہ قومیں ہوا و ہوس اور خواہشاتِ نفسانی کو چھوٹ دے دیتی ہیں، عیش و تنعم اور تفریحات کے وسائل و اسباب بہت زیادہ ہو جاتے ہیں، موسیقی، رقص و سرود، تصویریں و جنسی جذبات کو تسکین دینے والی دوسری اشیا کی کثرت ہو جاتی ہے، یہ انکی حکومت اور قومی عزت و شرف کا آخری وقت ہوتا ہے۔ اقبال نے اسی تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
آ تجھ کو بتائوں میں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طائوس و رباب آخر
جب پورا معاشرہ، پوری قوم اور حاکم طبقہ اس فساد کا شکار ہو جائے، وہ لہو و لعب، رقص و سرود اور عیش و عشرت میں ڈوبا رہے، ہنسی مذاق کو سنجیدگی اور متانت اور دل بہلانے والے کاموں کو بہادری، مردانگی، عزیمت اور استقلال پر ترجیح دینے لگے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔