ہوم << اب اقبال سب کا نہیں - رضوان الرحمن رضی

اب اقبال سب کا نہیں - رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی گذشتہ سال اسی دن یہ تحریر لکھی گئی تھی لیکن نہ جانے اپنی روایتی سستی تھی یا کوئی اور وجہ کہ یہ شائع ہونے سے رہ گئی۔ آج جب ٹی وی پر دیکھا کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے یومِ اقبال پر چھٹی دے دی ہے اور پنجاب ، وفاق اور کے پی کے حکومت اس پر چپ ہیں، تو نہ جانے کہاں سے یہ تحریر نکل کر سامنے آ کھڑی ہوئی کہ اسے چھاپ دیا جائے۔ اگرچہ اس تحریر کے ایک کردار اپنی حرکتوں کے باعث وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، اور کچھ چموٹہ برداری کے باعث اعلیٰ عہدوں (یعنی سرکاری ٹی وی کی سربراہی ) سے متمکن ہو چکے ہیں لیکن ہمیں نہ جانے کیوں اپنی یہ تحریر ابھی تک موثر لگ رہی ہے۔ اس لئے کچھ تھوڑی بہت قطع و برید کے بعد آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ امید ہے لطف اندوز ہوں گے۔
’’لاہور میں یومِ اقبال کی تقریب قیامِ پاکستان سے پہلے سے ہی ایک خاص اہمیت کی حامل رہا کرتی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی بہت عرصے تک شورش کاشمیری مرحوم اس تقریب کی نقابت کے فرائض سرانجام دیا دیتے رہے ۔ اس تقریب کی خاص بات یہ ہوتی کہ دور بھلے مارشل لاء کا ہو یا جمہوری ، صدر یا وزیرِ اعظم یا پھر گورنر یا وزیر اعلیٰ پنجاب اس تقریب کی کرسی صدارت کو رونق بخشا کرتے ہیں۔ کئی دفعہ تو ہم نے دونوں میاں صاحبان کو بطور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس تقریب میں براجمان دیکھا۔ صحافت میں آنے سے پہلے ہم ایک طالب علم کے طور پر اور بعد میں ایک عامل صھاٖی کے طور پر اصرار کر کے اپنی ڈیوٹی اس تقریب پر لگوا کر جایا کرتے تھے ۔ جناب مجید نظامی مرحوم کی زندگی کے آخری دنوں میں اس دن کے حوالے سے دو دو تقاریب ہونے لگیں ۔ ایک تو وہی شورش کاشمیری والی مرکزیہ مجلسِ اقبال والی جس کو ان کے ہونہار بھتیجے نے اُچک لیا ہوا تھا اور دوسری ایوانِ کارکنانِ پاکستان میں کہ جناب مجید نظامی مرحوم کی زیرصدارت، اور یہ سلسلہ کوئی دو تین سال ہی چلا او ر پھر نظامی صاحب کی رحلت کے بعد اب یہ دونوں تقریبات یکجا ہو گئی ہیں او ر ایک ہی تقریب منعقد ہوتی ہے۔
’’اب کی بار لاہور میں مرکزیہ مجلسِ اقبال کا جلسہ تو ہوا لیکن اس میں وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم موجود نہ تھے۔ تا ہم گورنر پنجاب اور وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نے اس کی رونق بڑھائی۔ جب وفاقی وزیرِ اطلاعات خطاب کرنے کھڑے ہوئے تو اس سے قبل مجیب الرحمن شامی کے پی کے صوبہ کے علاوہ ملک میں ۹ نومبر کی چھٹی منسوخ کرنے پر میاں برادران کی حکومت پر تنقید کے ڈونگرے برسا چکے تھے۔ جب پرویز رشید صاحب نے اس کا جواز دینے کی کوشش کی تو حاضرین نے ان کا خطاب سننے سے انکار کر دیا۔ جب حاضرین میں سے چند بزرگوں نے اپنی نشستوں پرکھڑے ہو کر احتجاج کرتے ہوئے تقریر کرنے کھڑے وزیرِ اطلاعات کوسننے سے انکار کیا تو سکول کے بچوں نے جو تقریب کی رونق بڑھانے کے لئے لائے گئے تھے، انہوں نے ان ناقد بزرگوں کو خوب خوب ساتھ دیا۔
’’بہت سے لوگوں کے لئے حیرت کی بات تو یہ تھی کہ شہر کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے خادمِ اعلیٰ نے اقبال کے متعلق کسی تقریب کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ نہ تو وہ اپنے والد کی روائت کے عین مطابق اقبال کے خاندان کے ساتھ مزارِ اقبال پر پھولوں کی چادر چڑھانے کی تقریب میں شریک ہوئے اور نہ ہی مرکزیہ مجلسِ اقبال کی تقریب میں تشریف لائے۔ شائد ان کے روئیے ہیں کہ اقبال کی اولاد کو اپنے دادا کی سیاسی پارٹی میں کوئی جگہ نظر نہیں آئی اور ن لیگ کا ایک اور ڈاکٹر کرمانی بننے کی بجائے پی ٹی آئی کی طرف سدھار گئے ہیں۔ اور ان کا یہ سیاسی فیصلہ اپنی روائت کے عین مطابق میاں صاحب سے برداشت نہیں ہوپارہا۔
’’اس کے برعکس لاہور چھاونی کا علاقہ شروع ہوتے ہی محسوس ہوتا تھا کہ یہاں پر یومِ اقبال منایا جا رہا ہے۔ ایک دن پہلے ہی اس دن کے حوالے سے کینٹ اور فورٹریس سٹیڈیم کے علاقے میں اقبال کے بڑے بڑے ہورڈنگز اور پوسٹر لٹکا دئیے گئے تھے۔ ایسے لگا کہ جیسے سیاسی حکومت اقبال کے ’’بنیاد پرستانہ‘‘ خیالات سے فاصلہ پیدا کر رہی تھی تو فوج اقبال کو اپنانے کی طرف رواں دواں تھی۔اپنے امیج کی بحالی کا یہ سفر کوئی اتنا کٹھن بھی نہیں تھا۔ فوج نے اقبال کے مزار پر آنے والوں کو کچھ یوں پروٹوکول دیا کہ پھول چڑھانے اور فاتحہ پڑھنے کے لئے آنے والے ہرگروپ کو پاکستان نیوی کے باوردی پائلٹ اسکارٹ کرتے ہوئے مزار کے اندر تک لے کرجاتے، پھولوں کے گلدستے سلیقے سے مرقد پر رکھواتے اور ساتھ میں سلیوٹ بھی مارے۔ اسلام آباد میں راحیل شریف کے دورہ امریکہ کی تفصیلات اکٹھا کرتے ہوئے چہرے پر پریشانیوں کی انجمن سجائے بیٹھے وزیرِ اعظم کے لئے نیوی کے ان جوانوں کو پیغام بہت واضح تھا۔ امید ہے کہ یہ پیغام دیگر جگہوں پر بھی پہنچ گیا ہوگا اور سمجھ لیا گیا ہوگا۔
’’ آج کے اخبارات نے بھی اقبال کے دن کی مناسبت کی تقریب کی خبر کو حکومتی روئیے کے پس منظر میں دیکھا۔ یومِ اقبال کی خبر چپکے سے جنگ، اور روزنامہ دنیا کے آخری صفحے پر سرک گئی جب کہ نوائے وقت جس میں یہ خبر کسی زمانے میں اُس سے اگلے دن کی شہ سرخی ہوا کرتی تھی، وہاں یہ خبر سرے سے جگہ نہ پا سکی۔ جب کہ روزنامہ نئی بات نے میاں صاحبان سے اپنی وابستگی کا ثبوت سرکاری نیوز ایجنسی کی خبر لگا کر اپنا فرض ادا کردیا جس میں پرویز رشید صاحب کی اس تقریب میں ہونے والی ’عزت افزائی ‘کا ذکر تک نہ تھا۔انگریزی میڈیا سے تو ویسے بھی توقع نہ تھی کہ وہ پہلے اس حوالے سے کوئی گرم جوشی نہیں دکھایا کرتا تھا، اس لئے پاکستان کے انگریزی میڈیا نے بھی ’’بنیاد پرستی اور دہشت گردی ‘‘ کے مبلغ اس شخص کو منہ لگانا گوارا نہیں کیا۔
’’پنجاب کو سرزمین کو فخر رہے گا کہ اس نے اقبال جیسا مردِ مومن پیدا کیا، لیکن کچھ لوگ اپنے لبرلزم کے شوق میں اقبال سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور بدقسمتی سے وہ نظریاتی بیساکھیوں کے محتاج میاں محمد نواز شریف جیسوں کے آنکھ ،کان اور دماغ ہو گئے ہیں۔ نصاب سے اقبال کو نکال کر وہ ایسا پہلے ہی کر چکے ہیں لیکن رحم آیا میاں برادران کے اُس ’’چموٹہ برداردسترخوانی ٹولے‘‘ پر جو شام کو ٹی وی چینلز پر بیٹھے نواز شریف کے لبرلزم اور یومِ اقبال پر حکومتی بے حسی کے جواز تراش رہے تھے۔ اپنے کراچی ، بلوچستان اور کے پی کے قارئین کے لئے ’’چموٹا ‘‘چمڑے کا بنا ہوا وہ جوتا نما ہتھیار ہوتا ہے جو پنجاب کے روائتی ’بھانڈ ‘ایک دوسرے پر برساتے ہوئے عوام الناس میں قہقہے بکھیرتے ہیں۔ لیکن مشرف کے لبرلزم پر اُچھل اُچھل کر تنقید کرنے والے یہ بھانڈ تو اس یومِ اقبال پرقوم کے دلوں پر چرکے لگا کر اسے مزید اداس کر گئے۔‘‘

Comments

Click here to post a comment