ہوم << بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب - انعا م الحق اعوان

بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب - انعا م الحق اعوان

انعام الحق اعوان ہرصبح اس امید کے ساتھ اخبارات دیکھتا ہوں کہ شاید آج پولیس کے ہاتھوں کوئی ظلم کا شکارنہ ہوا ہوگا، آج اشرافیہ کی سرپرستی میں حواکی بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہوگی، جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے مزدور اور مزارعے کے ہاتھ اورکان نہ کاٹے گئے ہوں. عابداقبال! آپ پازیٹو پاکستان کے سفیر ہو لیکن کیا کروں کہاں سے لاؤں وہ امید کہ جو مسجد جیسی پاک دھرتی پر پھول بکھیر دے. معصوم زین کے قتل کی فریاد کروں، حافظ آباد کے ابوبکرکے لیے انصاف کی بھیک مانگوں یا لاہورکی 15 سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے بااثرحکومتی درندوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بات کروں. 69 برسوں سے پاکستان کے باسی اس اسلامی فلاحی ریاست کا انتظار کر رہے ہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کو تعبیر محمدعلی جناح نے دی تھی.
لیکن درندوں کی طرح چیر پھاڑ کرنے والے کھوٹے سکے آج بھی یہاں بڑے سے بڑا جرم کر کے سکھ چین کی زندگی گزارتے ہیں اور جرم نہ کرکے بھی ایک 6 سالہ بچہ ’’بیگم صاحبہ‘‘ کے ہاتھوں اذیت سہتا ہے. کبھی خبرملتی ہے کہ اس معصوم کوگرم استری سے جلا دیا گیا اور کبھی یہ صدا دماغی توازن کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے کہ اس معصوم کو ہنٹر سے مار مار کر اس لیے لہولہان کر دیا گیا کہ اس نے ’’چھوٹے بابا‘‘ کے کھلونوں کو ہاتھ لگا کر اپنا بچپن محسوس کرنا چاہا تھا۔ لیکن شاید وہ بھول گیا تھا کہ غریب تو کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں، ان کا بچپن ہوتا ہے نہ جوانی اور نہ ہی بڑھاپا، ان کی زندگی کا ہر لمحہ موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔
انھیں اس سے کیا غرض جن کے کندھوں پر اس اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، ان کے بلاول، حمزہ، سلیمان وقاسم اور حسن و حسین تو شہزادوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے گھوڑوں اور کتوں کو وی آئی پی رومز اور مربع میسر ہیں، غریب کا کیا ہے؟ یہ تو گندگی کے ڈھیر سے اپنے پیٹ کا جہنم بھر ہی لے گا، اسے کپڑوں کیاضرورت ہے؟ اس نے کون سا فارن وزٹ پرجانا ہے؟ انہی گلی محلوں میں ہی تو رہنا ہے۔
مایوسی ہی مایوسی ہے، لیکن، ہاں ایک راستہ ہے جس سے غریب ہاری اور محنت کش کے حالا ت بدل سکتے ہیں کہ وہ بلٹ اور استحصال کے مقابلے میں اپنے بیلٹ کی طاقت ان کے حق میں استعمال کر دے جو کرپٹ اور بددیانت نہیں ہیں اور جن کا دامن صاف ہے. وہ جب سٹی ناظم کراچی کی حیثیت سے اقتدار کی مسند سنبھالتے ہیں تو اپنی دیانتداری اور قابلیت کے باعث 4 ارب کے بجٹ کو 42 ارب تک پہنچا دیتے ہیں، وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ بدترین جانی دشمن بھی ان کی کارکردگی کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نعمت اللہ خان جیسا حکمران آج تک کراچی کونصیب نہیں ہوا، جو اقتدارکی مدت مکمل ہوتے ہی مدت اقتدار کے دوران لی گئی تنخواہ کا چیک کاٹ کر صدقہ کرتا اور دامن جھاڑ کر خالی ہاتھ گھر روانہ ہوجاتا ہے۔ جب انھیں خیبرپختونخوا کے خزانے سونپے جاتے ہیں تو بھی ان کے رہن سہن میں فرق نہیں آتا، گھر کے دروازے پر لٹکا اور کپڑے کی بوری سے بنا ایک پردہ ہی سراج الحق کی بلٹ پروف سیکورٹی کا کام کرتا ہے. سرکاری فارن وزٹ کے دوران عالیشان ہوٹلز میں عوام کے کروڑوں روپے پھونکنے کے بجائے یہ جامع مسجد میں قیام کرتے ہوئے اپنے عوام کی امانتوں کا پاس کرتے ہیں، یہ بظاہر فقیراور درویش نظرآتے ہیں لیکن جب وہ ایک صوبے کے بدحال مالی حالات کواس کی صحیح ڈگر پر لاتے ہیں تو ورلڈ بنک اور عالمی ادارے ان کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ پھرجب ان کے ایک پارٹی رکن عنایت اللہ خان کو خیبرپختونخوا میں بلدیات کی منسٹری ملتی ہے تو وہ اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہے، اپنی قابلیت اور بے لوث پارٹی ایڈوائزرز کے ساتھ مل کر دنیا بھر کے
تجربات کا نچوڑ نکال کر ایسے لوکل گورنمنٹ انتخابات کرواتا ہے کہ فائلوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں ویلج کونسل کی صورت عوام کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچا دیتا ہے. وزارت سنبھالتے وقت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا جو محکمہ 26 کروڑ خسارے میں ہوتا ہے، دوسالوں میں ہی اسے 7ارب کے منافع پر لاکھڑا کرتا ہے۔
عوام کواپنی تقدیر بدلنی ہے تو ان درویشوں کا دامن تھامنا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹی قائد نہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ کوماننے والوں کو اللہ کی ماننے کی دعوت دیتے ہیں، دن رات اسی کےلیے قائل کرنے میں مصروف ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ جس دن اللہ کی ماننے والوں کی تعداد قابل ذکر ہوئی، یہ تمام مسائل از خود حل ہوجائیں گے. اب فیصلہ عوام کے پاس ہے کہ وہ 69 برسوں سے اپنا خون چوسنے والے کرپٹ اور بددیانت سیاستدانوں کو خود پر مسلط رکھتی ہے یا اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت پر اعتماد کرتی ہے.

Comments

Click here to post a comment