ہوم << پاگل نہ ہووے تے - صبور احمد

پاگل نہ ہووے تے - صبور احمد

اس کی نظریں مریض کے زرد چہرے پر جمی تھیں، جس پر اب غشی طاری ہو چکی تھی۔ گاڑی اسّی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سیاہ تارکول سے بنی سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی اور اسے امید تھی کہ بہت جلد وہ لاہور شہر کے میو اسپتال پہنچ جائیں گے۔ اسے یاد تھا ابھی کچھ عرصہ قبل تک اسی سڑک کی حالت اتنی خراب تھی کہ قریب دو سو کلومیٹر کا یہ سفر کئی گھنٹوں میں بمشکل طے ہو پاتا مگر آج صورتحال یکسر مختلف تھی۔ وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اچانک ڈرائیور کی آواز پر چونک پڑا جو بتا رہا تھا کہ وہ شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور چند منٹ تک اسپتال پہنچ جائیں گے۔ مگر یہ کیا؟ اسپتال کی جانے والی بڑی سڑک کا حال ایسا تھا گویا دشمن ملک نے بمباری کر دی ہو۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آج کل یہاں اورنج ٹرین منصوبے پر کام جاری ہے جس کی وجہ سے سفر میں مشکلات درپیش ہیں۔
خیر، خدا خدا کر کے مزید ایک گھنٹے بعد منزل تک پہنچنا ہو پایا۔ مگر مشکلات ابھی کم نہ ہوئی تھیں، مریض کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل تو کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی بتا دیا گیا کہ گزشتہ کئی گھنٹوں سے اسپتال میں بجلی کی ترسیل منقطع ہے (کچھ لوگ اس کی وجہ بھی اورنج ٹرین منصوبہ بتا رہے تھے)۔ ادھر مریض کی حالت ہر لمحہ مسلسل بگڑتی جا رہی تھی، اور پھر بالآخر اس نے وہیں بستر پر آخری سانس لیا اور خود کو زندگی کی تمام مشکلات سے آزاد کر گیا۔ آس پاس لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جہاں کچھ لوگ اظہار ہمدردی کرنے لگے، وہیں بعض شریروں نے حکومت اور انتظامیہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا جس میں حکومت کی ترجیحات اور میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے سر فہرست تھے۔
ممکن تھا اپنے عزیز کی موت کے صدمے سے دوچار چند لمحے کے لیے وہ بھی ان کی اس زہر افشانی کا قائل ہو جاتا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور آنکھوں کے سامنے تیز روشنی پھیل گئی۔ آہستہ آہستہ اس روشنی میں ایک شبیہہ ظاہر ہوئی۔ چمکدار گندمی رنگت، میانہ قد، روشن آنکھیں، فراخ پیشانی، قدرے مختصر ترشی ہوئی مونچھیں، چوڑا سینہ، شانوں پر دائیں بائیں دو نورانی پَر۔ شبیہہ کےہاتھ میں پریوں جیسی چھڑی تو نہیں تھی، مگر دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت خاصی طویل تھی جس کے سرے پر ایک ستارہ تھا۔ انگشت شہادت کو زور زور سے حرکت ہوتی تو ستارے سے روشنی کے ذرات کی بارش ہونے لگتی۔ اس شبیہہ کے سر کے عین اوپر دائرے کی شکل میں روشنی کا ایک حالہ بھی موجود تھا جس کا عکس شبیہہ کے سر کے بالکل درمیان چمکتا نظر آ رہا تھا (کیونکہ سر پر بال نہیں تھے) بلکہ روشنی کی کرنیں اس حالے سے کم، سر پر موجود اس کے عکس سے زیادہ خارج ہو رہی تھیں۔ سب کچھ بھول کر وہ اس منظر کے سحر میں کھو گیا کہ تبھی شبیہہ پرجلال لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی
”بیوقوف! ان شیطانوں کے کہے میں آ کر ہم سے بدگمان ہوا جاتا ہے؟ ذرا نظر گھما کر دیکھ۔“
اس نے جونہی نظر گھمائی وہ تمام ناقد اسے واقعی شیطان دکھائی دینے لگے۔ لمبی لمبی لٹکتی ہوئی زبانیں، سرخ انگارہ آنکھیں، دہانوں سے نکلتے شعلے۔ اس نے فوراً ہر برے خیال کو ذہن سے جھٹک ڈالا اور سوچنے لگا، میں بھی کیسا احمق ہوں؟ ابھی تو خود سوچ رہا تھا کہ راستے کی سڑک اتنی شاندار نہ ہوتی تو کتنے ہی گھنٹے لگتے سفر میں اور مریض یہاں پہنچنے سے قبل راستے ہی میں کہیں دم توڑ چکا ہوتا۔ باقی جو شہر کی سڑکوں یا بجلی کا معاملہ ہے تو یہ عارضی مسائل ہیں جو آنے والے اچھے دنوں کی نوید سنا رہے ہیں۔ ابھی اسے کچھ اطمینان حاصل ہوا ہی تھا کہ ایک زوردار قہقہے کی آواز سن کر چونک پڑا۔ سر گھما کر دیکھا تو سامنے ایک مجذوب اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بےتحاشا ہنسے چلا جا رہا تھا۔ میلے کچیلے کپڑے، کھچڑی بال جو شاید کئی سال سے دھوئے نہیں گئے تھے، چہرے پر میل کی تہیں جمی ہوئیں۔ تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا
”اوئے جھلّیا، اے کیوں نئیں سوچدا کہ جے تیرے شہر وچ کوئی چنگا اسپتال ہندا تے تینوں ایتھے آنا کیوں پیندا؟ پاگل نہ ہووے تے۔“
اس نے گھبرا کر روشن شبیہہ کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا، مگر وہاں اب روشنی تھی نہ ہی کوئی شبیہہ، لوڈ شیڈنگ کے باعث صرف اندھیرا تھا، مکمل اندھیرا۔

Comments

Click here to post a comment