ہوم << کیا ہوا تیرا وعدہ ؟ مبشر اکرام

کیا ہوا تیرا وعدہ ؟ مبشر اکرام

مبشر اکرام مجھے نواز شریف کا پچھلا جلسہ خوب یاد ہے کہوٹہ گرلز ہائی سکول کے سامنے ہوا تھا۔ آج سے کم از کم آٹھ دس سال پہلے۔ نوازشریف نے اس وقت بھی یہ اعلان کیا تھا کہ کہوٹہ کو موٹروے سے جوڑ دوں گا۔ سڑکوں کا مسئلہ حل کردوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کہوٹہ کی سڑکوں کا حال اس سے بھی بدترین ہے۔ کہوٹہ روٹ پر اب بھی وہی ٹوٹے پھوٹے چھکڑے چلتے ہیں۔ کاک پل سے کہوٹہ کی عوام بھیڑ بکریوں کی طرح پرانی ترین بسوں پر لادی جاتی ہے۔ ٹرانسپورٹ پر کہوٹہ کے چند ایک خاندانوں کا قبضہ ہے جو نہ خود اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں نہ ہی کسی اور کو اس روٹ پر چلنے دیا جاتا ہے۔ چوہدری نثار نے کچھ عرصہ قبل اس روٹ پر ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی لیکن پھر کیا ہوا؟ اس سکینڈل کا سب کو پتا ہے۔ اس روٹ پر کشمیر کی گاڑیوں کے ساتھ ہونے والی بدمعاشی سے بھی سب واقف ہیں۔ ان کو روکنا، ہراساں کرنا، مار پیٹ کرنا اور سواری بٹھانے پر پریشان کرنا معمول۔ کلر چوک پر کوئی شریف آدمی کسی کو لفٹ نہیں دیتا کیونکہ لفٹ دینے پر بھی بدمعاشی سے پرچی وصول کی جاتی ہے۔ یہ سب سنا سنایا نہیں بلکہ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ راجہ محمد علی صرف الیکشن والے مہینے میں کہوٹہ کی عوام کے درمیان نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد تو کون اور میں کون۔ آفرین ہے کہوٹہ کی عوام پرجو ان جھوٹے وعدوں پر پھر یقین کیے بیٹھے ہیں۔
کہوٹہ کی عوام کو دو طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ کے آر ایل اور معاشی طور پر مضبوط لوگوں کے پاس سرکار کی مہیا کردہ یا ذاتی ٹرانسپورٹ موجود ہے۔ باقی غریب عوام جیسے پہلے ذلیل ہو رہی تھی ویسے اب بھی ہو رہی ہے۔ کہوٹہ میں ٹرانسپورٹ کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ رش کا بھی ہے۔ پچھلے ایک سال میں رش اچانک بڑھا ہے۔ قدیر لائبریری کے سامنے والا صحن آپ نے دیکھ رکھا ہوگا۔ قدیر لائبریری کی عمارت اپنی اصل جگہ پر تعمیر ہے۔ اس کے سامنے کا جو صحن خالی پڑا ہے، وہ دراصل سڑک کا حصہ ہے اور آگے بڑھی ہوئی دکانیں ناجائز تجاوزات ہیں۔ جب بھی رش کی بات اٹھتی ہے، اسے رکشے والوں کے ذمے لگا کر اصل ایشو سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔ پچھلے دوسالوں سے کہوٹہ میں رکشے چلنے شروع ہوئے ہیں۔ ان کی وجہ سے ’’ٹرانسپورٹر‘‘ الگ پریشان ہیں کہ ان کے ان ’’شہزادوں‘‘ کے روزگار میں خلل واقع ہو رہا ہے جن کی کل قابلیت ایک کیری ڈبہ چلانا ہے۔ رش کی وجہ بائی پاس والی روڈ بھی ہے۔ اس روڈ کو ہمیشہ میں نے خستہ حالت میں ہی دیکھا ہے۔ جولوگ آدھے کلومیٹر کی روڈ کو اچھی حالت میں تعمیر نہیں کرسکے ان سے کسی بڑے منصوبے کی توقع رکھنا بالکل بیوقوفی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ کہ ہمیں الیکشن میں امیدوار ہی وہی ملتا ہے جو یا تو لکڑ چور ہوتا ہے یا وہ خاندان جو عرصہ تیس سال سے سیاست میں ہونے کے باوجود سٹیج پر چڑھ کر یہ اعلان کردیتا ہے کہ ’’مجھے راجہ برادری ہی صرف ووٹ دے دے، کمیوں کے ووٹوں کی مجھے ضرورت نہیں‘‘۔