ہوم << سیالکوٹ کا ستارا - نعیم الدین جمالی

سیالکوٹ کا ستارا - نعیم الدین جمالی

نعیم الدین موتی سمجھ شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
لاہور کے ایک عام سے مشاعرے میں جب ایک طالب علم نے یہ اشعار پڑھے تو مجمع جھوم اٹھا، کلام کی شوخی اور بے ساختہ پن دیکھ کر دور اندیش شعراء بھانپ گئے کہ اردو کو ایک نیا شاعر ملنے والا ہے، جو آگے چل کر بڑا نام پیدا کرے گا، یہ پہلی دفعہ تھا کہ لوگ اقبال سے باقاعدہ واقف ہو رہے تھے. نام کا اقبال اردو کے لیے بڑا اقبال مند ثابت ہوا، غالب کے بعد اردو کو ایسا شخص میسر ہو رہا تھا جس نے آگے چل کر اردو شاعری میں ایک نئی روح پیدا کر دی، جس کے کلام میں غالب کا تخیل، نرالا انداز پھر سے وجود پائے، اردو کی ترقی کا پھر ایک نیا باب رقم ہوا، اور دنیا نے دیکھا کہ کلام اقبال کا ڈنکا دنیا بھر میں بجنے لگا، اور باز گشت ایران و انگلستان تک سنائی دینے لگی.
علامہ اقبال 9نومبر 1877 سیالکوٹ میں شیخ نورمحمد کے گھر پیدا ہوئے، والدین نے آپ کا نام اقبال رکھا، آپ کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے سیالکوٹ آئے تھے، جب آپ عمر حصول تعلیم کو پہنچے تو آپ کی بسم اللہ کی رسم علاقہ کے عالم مولانا غلام حسن نے کی. ایک دفعہ وہاں سےوقت کے ایک مایہ ناز استاذ میر حسن کا گزر ہوا، آپ نے اقبال میں ذکاوت اور مستقبل میں ایک بڑے انسان کی جھلک دیکھ لی تھی، والد بزرگوار صرف دینی تعلیم دینا چاہتے تھے، لیکن میر حسن سے راہ و رسم تھی، ان کے مطالبہ پر بیٹا ان کے حوالہ کردیا. آپ کے زیر سایہ رہ کر اقبال نے عربی، فارسی اور دیگر ابتدائی علوم میں مہارت حاصل کی. استاذ کے پورے رنگ میں رنگ گئے تھے، استاذ کی محنت نےمزید پڑھنے پر مجبور کیا، آپ نے اسکاچ مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور لاہور کالج سے ایف اے اور لاہور کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا. بی اے اختیاری مضامین میں فلسفہ اور عربی کا انتخاب کیا، اسی سے آپ کو فلسفے کا شوق ہوا اور آپ نےایم اے فلسفہ میں پاس کیا اور پنجاب بھر میں اول آئے. سر آرنلڈ کے زیرسایہ آپ کے مطالعہ اور جدید فلسفہ کا شوق بڑھا تو مزید تعلیم کے لیے انگلستان کا رخ کیا، وہاں کیمبریج یونیورسٹی میں اعلی تعلیم کے حصول کے بعد جرمنی تشریف لے گئے. قیام یورپ کے زمانے میں آپ نے فارسی کتب اور فلسفے کا مزید باریک بینی سے مطالعہ کیا، اس پر ایک کتاب ”فارس میں ماوراء الطبعیات کا ارتقا“ نامی لکھی ،جسے فلسفہ ایران کی مختصر تاریخ کہنا مناسب ہوگا، اسی کتاب کو دیکھ کر جرمنی والوں نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی.
اقبال کو اپنی علمی منازل طے کرنے میں اچھے اچھے رہبر اور مشاہیر علما میسر ہوئے، ان میں کیمبریج کے ڈاکٹر میک ٹیگریٹ، براؤن ،نکلس اور سارلی قابل قدر ہیں، اسی طرح ہندوستان کی علمی دنیا کے جتنے نادر روزگار اس زمانہ میں موجود تھے، مثلامولانا شبلی نعمانی مرحوم، مولانا حالی مرحوم، اکبر مرحوم، ان سے ملاقات اور خط وکتابت رہی. داغ جیسے نابغہ روزگار شاعر سے شاعری کی اصلاح کا انہیں موقع ملا.
وطن واپسی کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ اور عربی پڑھانے لگے، ساتھ بیرسٹری اور شاعری کو بھی مستقل اپنا لیا. ہندوستان میں سیاسی تحریکیں جنم لے چکی تھیں، آپ نے بھی ان میں بھرپور انداز میں شرکت کی، اور جلسے جلوسوں میں حصہ لینے لگے. برصغیر میں سیاسی اکھاڑ بچھاڑ، افتراق و انتشار نے آپ کو اکثر جماعتوں سے بد دل کر دیا، ہر جماعت اپنا راگ الاپ رہی تھی، بالاخر مسلم لیگ سے جڑ گئے. آپ کو غلامی کی زندگی پر بڑا افسوس تھا، لہذا امت میں آزادی اور بیداری کی مہم شروع کی اور اسی دور میں الہ آباد مسلم لیگ کے جلسےکی صدارت کرتے ہوئے دو قومی نظریہ پیش کیا، یوں آپ کی محنت سے ریاست اسلامی کی تصویر بن کر پاکستان معرض وجود میں آیا، اسی وجہ سے آپ کو مصور ریاست اسلامی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے.
آپ کی شاعری کی وجہ سے دنیا آپ کو شاعر مشرق کے نام سے جانتی ہے، آپ کی زندہ شاعری امت مسلمہ کے لیے ایک مشعل راہ بنی رہے گی، اس نے نوجوان نسل میں جذبہ، ولولہ اور انقلابی روح پیدا کردی تھی. آپ کی شاعری میں حساسیت، رفعت و تخیل، رومانویت، کلاسیکیت، سوز وگداز، مصوری، تشبیہ واستعارات، جدید تراکیب اور جذبہ ایمانی و احیائے امت اسلامیہ کے پہلو بہت نمایاں ہیں. آپ کی شاعری میں امت مسلمہ کے لیے درد دل اور کڑھن تھی، اس کی حالت زار کا جابجا ذکر کیا ہے، آپ اردو شاعری کے ساتھ فارسی شاعری پر یکساں عبور رکھتے تھے.
آپ کی تصانیف میں تاریخ ہند، آئینہ عجم، جاوید نامہ، پیام مشرق، فارس میں ماوراءالطبعیات کا ارتقا، ضرب کلیم، بانگ درا، ارمغان حجاز، علم الاقتصاد مشہور ومعروف ہیں. آپ کی گراں مایہ شخصیت امت مسلمہ کے لیے عظیم تحفہ تھی. آپ ایک عظیم مفکر، فلسفی، شاعری، اور صوفی کی حیثیت رکھتے تھے. آ پ کی علمی وعملی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ دلوں میں زندہ ہیں، لیکن دنیا میں جو آتا ہے اس نے جانا بھی ہے، اسی اجل کے قاعدے کے مطابق آپ نے بھی اس فانی دنیا سے کوچ کرنا تھا، یوں21اپریل 1938ء کودنیا کا عظیم شاعر، دمکتا چمکتا یہ سیالکوٹ کا ستارا داعی اجل کو لبیک کہہ گیا.