من اے میرِ امم داد از تو خواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمردند
(یا رسول اللہ! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں کہ میرے احباب مجھے صرف ایک غزل گو شاعر ہی سمجھتے ہیں)۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
جز نالہ نمی دانم، گویند غزل خوانم
ایں چیست کہ چوں شبنم بر سینہء من ریزی
(میں تو صرف آہ و فغاں جانتا ہوں، جس کی وجہ سے مجھے شاعر کہا جاتا ہے۔ اگر میں صرف شاعر ہی ہوں تو پھر یہ کیا ہے جو میرے دل پر شبنم کی طرح گرتا ہے؟)۔
حقیقت تو یہی ہے کہ علامہ اقبالؒ صرف ایک شاعر نہیں تھے بلکہ وہ تو دانائے راز، مصلحِ قوم، فلسفی، اسلامی اور مغربی علوم کے ماہر، اور سب سے بڑھ کر ایک سچے عاشقِ رسول تھے۔ اپنے زمانے میں علامہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو احساسِ کمتری سے نجات دلانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اور اس کا عروج ان کا وہ خواب تھا جو پاکستان کی تشکیل کا باعث بن گیا۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے انہوں نے قائدِ اعظم جیسے رہنما کو مسلمانوں کی رہبری کے لیے آمادہ، قائل اور تیار کیا۔ یوں دنیا کی تاریخ میں مدینہ منورہ کے صدیوں بعد ایک اور اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
اقبالؒ نے مغرب کی نام نہاد شرافت ، جمہوریت اور ترقی کا پردہ بھی چاک کیا۔ خود مغرب سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اس تعلیم کو اور اس تعلیمی نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
یورپ میں بہت روشنیء علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہء حیواں ہے یہ ظلمات
مغرب اور یورپ کی نام نہاد جمہوریت کے بارے میں فرمایا
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
برصغیر کے مسلمانوں میں پائی جانے والی بے عملی، غفلت، بے کاری پر بھی ضرب لگائی۔
تھے وہ آباء تو تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
علمائِ سوء، دنیادار پیروں، گدی نشینوں، بے ذوق اماموں، فتنہ پرور خطیبوں، جاہل واعظوں پر آسمانی بجلی بن کر برسے۔
صوفی کی طریقت میں فقط مستیء احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستیء گفتار
بد عمل، کج عمل اور بے عمل مسلمانوں کے بارے میں کہا
کافرِ بیدار دل پیشِ صنم
بہ ز دیں دارے کہ خفت اندر حرم
(کہ وہ کافر جو اپنے بت کے سامنے بیدار دل کے ساتھ کھڑا ہے، وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو حرم کے اندر بھی مردہ دل ہو)۔
ایسے درجنوں بلکہ سینکڑوں اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ علامہ اقبالؒ صرف ایک شاعر نہیں تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے دلوں پر لگے زنگ کو اتارنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات پر پڑی گرد کو جھاڑنے کی جرات کی تھی۔ انہوں نے مذہب میں مقدس گائے سمجھے جانے والوں کو بے نقاب کیا تھا۔ انہوں نے نام نہاد جمہوری سیاست دانوں کی سازشوں کا پردہ چاک کیا تھا۔ انہوں نے نوجوانوں کو ذلت کی پستی سے اٹھ کر، شاہین بنا کر، آسمانوں میں اڑانے کی تلقین کی تھی۔ انہوں نے بچوں کی تربیت کے لیے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو استعمال کیا تھا۔ انہوں نے غلامی پر تبرا کیا تھا۔ انہوں نے شیر کی ایک دن کی زندگی کی تشریح و تبلیغ میں ساری زندگی گذاری تھی۔ وہ مسلمانوں اور اسلام کے عروج کے خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے۔ اور جب ان کے دکھائے ہوئے ایک خواب نے پاکستان کی صورت میں تعبیر حاصل کر لی تو ہم پاکستانیوں نے ان کے ساتھ بڑا ظلم کیا۔
ہم نے علامہ اقبالؒ کے ساتھ یہ ظلم کیا کہ انہیں اپنا قومی ’شاعر‘ قرار دے دیا۔ چناں چہ اب ان کے نام پر چھٹی منا کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اقبالؒ کا حق ادا کر دیا۔ قومی لباس، قومی زبان ، قومی ترانے اور قومی کھیل کی طرح پاکستان میں قومی شاعر ’اقبالؒ‘ کو بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ اور اب مجھے اقبالؒ کے شعر کا ایک بالکل ہی مختلف مفہوم سمجھ میں آیا ہے:
اقبالؒ تیرے عشق نے سب بل دیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
آپ بھی اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے گا۔ اور ہاں! علامہ اقبالؒ کو صرف شاعر سمجھنا چھوڑ دیجیے، وہ تو ہمارے محسن ہیں۔
علامہ اقبال کے ساتھ ظلم - جاویدالرحمن قریشی

تبصرہ لکھیے