ہوم << نیشنلزم اور اسلام - حماد احمد

نیشنلزم اور اسلام - حماد احمد

FB_IMG_1458723917121-1-1نیشنلزم کے کھوکھلے نعرے ایک بار پھر کانوں میں پڑ رہے ہیں لیکن نعرے لگانے والوں میں بڑی تعداد ان کی بھی ہے جن کے اذہان نیشنلزم کی حقیقت کے اصل تصور سے بھی محروم ہیں. اس ناواقفیت کی وجہ سے انسانی خیالات میں انتہا روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے
یہ ضروری ہوتا ہے کہ اندھیروں سے نکل کر روشنیوں کی طرف کوچ کر جانے کے لیے انسانی کثرت میں اخوت کی ایسی شان پیدا ہو جس کی وجہ سے مشترکہ انسانی، معاشی، معاشرتی مفادات کی طرف مثبت انداز میں سفر ہو اور ہر باشعور انسان اخوت کی اس گاڑی کو آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے. بےشک قومیت کی ابتدا دراصل انسانی جذبے سے اس مقصد کے لیے ہوتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ اپنے مشترکہ مفادات کے لیےایک قوم بن کر رہے لیکن اس میں خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب قومیت قوم پرستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور عصبیت قومیت کو زنگ آلود کر دیتی ہے. اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مشترکہ مفادات کے لیے ایک گروہ کی شکل اختیار کرنے والے انسان نسل، وطن، یا زبان کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کے قابل نہیں سمجھتے.
ایسا کہا جاسکتا ہے کہ نیشنلزم کے نعرے لگانے والوں نے انسان کو ترقی کے راہ پر گامزن کیا ہے لیکن یہ نعرے اور انھی نعروں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انسانیت کو ہمیشہ
مصیبتوں کے سامنے لا کھڑا کرنے میں اس کا کردار انتہائی افسوسناک ہے. انسانیت کو سینکڑوں حصوں میں تقسیم کرکے کچھ گروہوں کو اونچ اور کچھ کو نیچ کا درجہ دیا گیا اور ایسے قوانین بنائے گئے کہ “اقوام متحدہ” یعنی متحدہ اقوام میں بھی امریکی و مغربی اور دوسری اقوام میں فرق رکھا گیا. المیہ یہ ہے کہ ایک ہی آدم کی اولاد کئی گروہوں میں تقسیم ہونے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف مصروف ہوگئی ہے اور اپنے گروہ کو بچانے کے لیے دوسرے گروہوں کو ختم کرنے کی ایسی کوششیں ہوئیں جن کے شکار وہ معصوم بچے بھی ہوئے جو ابھی اس دنیا میں آ بھی نہیں چکے ہوتے۔
وطنیت کے نشے میں دھت گروہ اس بات کے لیے راضی ہی نہیں کہ جو لکیر انھوں نے کھینچی ہے اس کے دوسری طرف کا انسان بھی وہی درجہ رکھتا ہے جو اس لکیر کے اندر کے انسان کا ہے. اگر یہ گروہ کچھ مدت کے لیے اس بات پر راضی ہو بھی جاتا ہے کہ لکیر کے باہر کا انسان لکیر کے اندر موجود گروہ کا حصہ بن سکتا ہے تو اس پر ایسے قوانین نافذ کرتا ہے کہ اس کا جسم یہاں موجود ہوتا ہے لیکن روح باہر.
یہ اور اس جیسے دیگر نظریات عقل کے بالکل متصادم ہیں. مثال کے طور پر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں، پھر ان بچوں کے بچے اور سلسلہ یہاں تک چلا جاتا ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچے کو دو سو سال پہلے کے خونی رشتہ دار کا علم نہیں ہوتا اور اگر علم ہو بھی جائے تو یہ اس کا وارث ہونے کا دعوٰی محض اس لیے نہیں کرسکتا کہ وہاں سے کچھ اور بھی انسان آئے ہیں جو تقسیم در تقسیم ہوچکے. یوں نسل خود انسان ہی کے ہاتھوں ایسے تقسیم ہوجاتی ہے کہ جہاں پھر ہر گروہ کے لیے الگ اصول الگ قوانین بنا دیے جاتے ہیں حالانکہ یہ بنیادی طور پر ایک ہی والد اور والدہ سے ہوتے ہیں.
جس طرح قرآن میں فرمایا گیا
خلقکم من نفس واحدہ وخلق منھا زوجها وبث منهما رجالا کثیرا ونساء۔
خدا نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔
بالکل اسی طرح وطنیت بھی ہے. یہ وطن، یہ ممالک، یہ لکیریں خود انسانوں نے خود ہی کے لیے بنائی ہیں، یہ جاننے کے باوجود کہ یا تو یہ ساری زمین میری ہے یا پھر صرف وہی دو تین گز ز جہاں میری پیدائش ہوئی تھی اور زمین پر آیا تھا۔
یعنی انسان ، انسانی گروہ یا کوئی پوری قوم و وطن یہ دعوی کیسے کرسکتا ہے کہ مشرق کے فلاں حصے سے لے کر مغرب کے فلاں حصے تک میری سرزمین ہے. یہ دعوی کس بنیاد پر جاتا ہے؟ حالانکہ انسان جس جگہ پر پیدا ہوتا ہے وہ دو تین گز زمین کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ ایک الگ لکیر کھینچ لیتا ہے کہ وہاں سے یہاں تک میرا وطن ہے ؟ آخر کیسے ؟
یہ تو محض انسانی تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں. اگر دو گز زمین پھیل کر ہزاروں میل پر مشتمل ہوکر ایک ملک کی شکل اختیار کرسکتی ہے تو پھر یہی دو گز زمین پوری دنیا پر پھیل کر ایک ہی ملک کیوں نہیں بن سکتا، جہاں انسانی اخوت ہو
بہرحال یہ نیشنلزم ہی ہے جس کی وجہ سے آئن سٹائن جیسے انسان سے جرمن صرف اس لیے نفرت کرتے رہے کہ وہ اسرائیلی تھا. اس نیشنلزم نے مولانا عبیداللہ سندھی جیسے عظیم علمائے دین کو بھی اس طرح کی سطحی باتوں پر مجبور کردیا کہ سندھی اپنے وطن کا بنایا ہوا کپڑا پہنے گا. یا یہ کہ اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے تو جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے، اور روز بروز چھاتا جا رہا ہے تو اسے یورپین اصولوں پر نیشنلزم کو ترقی دینا ہوگی. گویا اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے سرنڈر کے سوا کوئی چارہ نہیں. اور یہ کہ نیشنلزم کسی کو بھی بہا کر لے جاسکتا ہے لہذا نقصان سے بچنے کا مجبورا یہی طریقہ ہے کہ اہل طوفان کے ہاتھ پر بعیت کر لی جائے.
اس کے مقابلے میں اسلام کا نظریہ نہ صرف واضح بلکہ بہت مفید اور آزاد و روشن ہے. خالق حقیقی کا قران کریم میں فرمان ہے
یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر وانثی وجعلنکم شعوبا و قبائلی لتعارفو ان اکرمکم عنداللہ اتقکم. (اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ مگر درحقیقت معزز تو تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے.)
بالکل واضح کر دیا گیا کہ یہ قوم قبیلہ گروہ محض برائے پہچان ہیں کیونکہ انسانوں کی تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے پہچان کا عمل پیچیدہ ہوجاتا ہے. اور یہ بھی کہ کوئی کسی قومیت کی بنا پر معزز نہیں ہوگا بلکہ یہ اعزاز اس کے حصے میں‌ آئے گا جو زیادہ پرہیزگار ہوگا
دراصل نیشنلزم تو عذاب کی ایک شکل ہے. اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
یا تم کو گروہ بنا دے اور تمھیں ایک دوسرے کی قوت کا مزہ چکھائے۔ القرآن
یعنی اگر قومیت کو پہچان کے بجائے نیشنلزم کا لباس پہنایا جائے تو یہ عذاب بن جاتا ہے، جس میں پھر طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور اقوام ایک دوسرے پر مسلط ہونے کے لیے
ہر حد تک جا سکتی ہیں. اگر اسلامی نظریہ قومیت اور نیشنلزم کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ دونوں ایکدوسرے کی ضد ہیں. اسلام انسان کے ساتھ “من حیث الانسان” مخاطب ہوتا ہے. یہ ایک ایسی دنیا کا خواہشمند ہے جس میں قومی تعصبات کی زنجیر توڑ کر انسانوں کو ایسے مساوی حقوق مل جائیں جس سے وہ آپس میں دوستانہ تعلقات قائم رکھیں نہ کہ مخالفانہ کشمکش میں مبتلا ہو جائیں. یہ صرف اس لیے کہ ہر انسان دوسرے انسان کی مادی ترقی و خوشحالی میں اس کا مددگار ہو اور یہ سلسلہ محبت اور امن و سلامتی کے ساتھ آگے بڑھتا رہے. جبکہ نیشنلزم انسانوں کے درمیان قومیت کے لحاظ سے تفریق کرتا ہے.
انفرادی سوچ اجتماعی بنتے دیر نہیں لگتی لہذا انفرادی طور پر سوچ اگر مثبت ہو تو اجتماعیت کی طرف اس کا جانا انسانیت کے لیے مفید ہوتا ہے. لیکن نیشنلزم اور قومیت پرستی کی وجہ سے انسان اس ظلم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے گروہ کے غلطی پر ہونے اور ظلم کرنے کے باوجود مخالف ملک، قوم اور افراد کے مقابلے میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے. نیشنلزم دراصل انسان کو مدنیت سے دوبارہ وحشت کی طرف دھکیلنے کا نظریہ ہے

Comments

Click here to post a comment