بوڑھے کی آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک آگئی. اس کی آواز بڑی نحیف تھی اور اس میں لڑکھڑاہٹ بھی تھی. اپنے جسم کی پوری قوت جمع کرکے وہ گویا ہوا :
"کیا تم لوگ میری آخری خواہش پوری کرو گے؟"
مجلس میں موجود تمام لوگ، جو اس کی عیادت کے لیے آئے تھے، سراپا گوش بن گئے
سالارِ لشکر تھوڑا اور قریب ہوا. اس نے اپنا کان اس کے منہ سے قریب کرتے ہوئے کہا :
"آپ فرمائیں، ہم اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے"
بوڑھے کے چہرے پر رونق آگئی. اس نے کہا :
"میری خواہش ہے کہ جب میرا انتقال ہو تو شہ سواروں کی ایک جماعت میری نعش کو لے کر دشمنوں کی سرزمین میں گھس جائے اور جہاں تک اس کے لیے ممکن ہو، گھستی چلی جائے، پھر جس جگہ سے آگے بڑھنا اس کے لیے ممکن نہ ہو، وہاں نعش کو دفن کرکے واپس آ جائے"
"ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا." سالارِ لشکر نے اس خواہش کی تکمیل کا وعدہ کیا تو بوڑھے کے چہرے پر طمانینت پھیل گئی_
یہ بزرگ مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے اور موقع تھا روم کے دار الحکومت قسطنطنیہ پر فوج کشی کا. چنانچہ ویسا ہی ہوا جیسا وعدہ کیا گیا تھا. حضرت ابو ایوب کی تدفین فصیل بند شہر کے بالکل قریب کی گئی (اسد الغابۃ، ابن الاثیر، دار الشعب، قاہرہ، 2/96)
یہ وہی ترکی ہے. حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر آج بھی وہاں موجود ہے. بس فرق یہ ہے کہ تدفین کے وقت وہ دشمنوں کی سرزمین تھی، لیکن آج اسلام کی عظمت و شوکت اس سے وابستہ ہے
ترکی کے بہادر عوام اور بیدار مغز قیادت کو سلام کہ وہ اس کی اسلامیت کو بحال رکھنے کی جی توڑ کوشش کر رہے ہیں
اے اللہ! ان لوگوں کو سرخ رُو رکھ اور اسلام دشمنوں کو ان کی سازشوں میں ناکام کر
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
تبصرہ لکھیے