ہوم << مِری تعمیر میں مُضمَر ہے اک صورت خرابی کی - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

مِری تعمیر میں مُضمَر ہے اک صورت خرابی کی - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

ہر تعمیر کسی تخریب کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہر تعمیر مستقبل کی تخریب کی جھلک بھی رکھتی ہے.
عجیب بات ہے نا .. لیکن آزمودہ بات ہے. ذرا سوچیے. جب بھی کوئی غلطی (تخریب) ہوئی، اس کے نتیجے میں اصلاح (تعمیر) ہوئی، آپ تاریخ کی مثال لے لیجیے.
شجر ممنوعہ کا چکھنا، بہکنا، ورغلایا جانا اگر تخریب ہے تو اس کے نتیجے میں دنیا کا آباد ہونا تعمیر ہے اور نوع انسانی کا دنیا میں بسنا اگر تعمیر ہے تو اس کی نافرمانی کے نتیجے میں آنے والے عذاب اس تعمیر نوع انسانی کے منطقی نتیجے میں بپا ہونے والی تخریب ہے.
بنیادی اکائی انسان/فرد کی بات لیجیے. جب بھی انسان ٹوٹتا ہے، ذہنی یا جسمانی ٹوٹ پھوٹ کچھ بھی ہو، پہلے سے مضبوط تر، ایک نیا انسان اس سےایک جنم لیتا ہے. جیسے بیج کو مٹی میں کھو دینے کو اگر تخریب مانیں تو اس بیج کا پھوٹ پڑنا اور نئے شجر کی نمو ہونا تعمیر ہے. زچگی کے درد سے نڈھال ہونا اور اس کے نتیجے میں خیر و عافیت سے دو جانوں کا ایک دوسرے سے الگ ہونا تخریب و تعمیر کی عمدہ مثال ہے. انسان مٹی سے بنا ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ پے کی جب حالات اسے توڑتے ہیں تو ٹوٹی کھنکتی مٹی خدا کی رحمت کے پانی سے دوبارہ گندھ کر نیا انسان بنتا ہے جسے مصائب سے نمٹنے کے لیے نیا وجدان بھی ودیعت کیا جاتا ہے.
کلوننگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ڈولی (بھیڑ) پر بہت بحث ہوئی. حلال و حرام کے علاوہ اخلاقی و غیر اخلاقی (ethical /non ethical ) کے ساتھ ساتھ جینیٹک ایجنگ (genetic aging ) اور ارلی ڈیتھ (early death ) کو بھی زور و شور سے سوچا گیا. کلوننگ نظام فطرت میں مداخلت بھی لگی. لیکن پھر اس کا مثبت نتیجہ بھی دنیا کے سامنے آیا. یعنی اگر ڈونر میسر نہ ہو تو نیا دل،گردہ، جگر حاصل کرنے کے لیے خود انسان اپنا ہی کلون کروا سکتا ہے. اپنے خون سے حاصل کردہ اعضا کا ٹرانسپلانٹ کامیاب ہونے کے امکانات دوسرے ڈونر سے لیے گئے عضو کے مقابلے میں بدرجہا روشن ہیں.
اسی جینیٹک انجینئرنگ کی ترقی نے عجیب و غریب تعمیر نما تخریب کا در بھی وا کر دیا ہے. انسانی دھڑ پر شیر یاگھوڑے کا سر یا کتے،گدھے یا باز کے جسم پر انسانی سر. ابھی تک ایسی تصاویر خیالی تھیں مثلا ابوالہول کا مجسمہ جس کے شیر کے جسم پر انسانی چہرہ ایک انسانی تخیل کا نتیجہ ہے. لیکن عنقریب یہ سب بھی صفحہ ہستی میں لکھا جانے والا ہے. اور بہت دور نہیں. ان سب تجربات کی اجازت مہذب دنیا اور مذاہب نہیں دیتے، جس سے نوع انسانی، انسان و حیوان کا مرکب بن کر رہ جائے. اس لیے ایسے تجربات ان تجربہ گاہوں میں عمل میں لائے جاتے ہیں جو کسی ملک کی حد میں قائم نہیں. جی جناب! کھلے سمندروں میں تیرتے بحری جہازوں میں ایسی عظیم الشان لیبارٹریز قائم ہیں جہاں ایسے غیر حقیقی تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے دن رات کام ہو رہا ہے. خدا جانے اس تعمیر نما تخریب میں کون سی اور کتنی تعمیر یا تخریب پنہاں ہے.

Comments

Click here to post a comment