ہوم << ہیلری کلنٹن کی شکست یا صنفی امتیاز - مزمل فیروزی

ہیلری کلنٹن کی شکست یا صنفی امتیاز - مزمل فیروزی

مزمل احمد فیروزی ہیلری کی شکست امریکہ میں بسنے والے لوگوں کی سوچ کی عکاس ہے لہذا گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کی عوام سوچ کے لحاظ سے کسی طور آزاد نہیں. ایک خاتون کو بطور حکمران قبول کرنا ان کے ہاں بھی منظور نہیں، شاید یہ لوگ اب بھی خاتون کی ماتحتی کے قائل نہیں۔ ایک شخص جس کے بیانات خواتین کے لیے انتہاپسندانہ تھے، اسے امریکی عوام نے منتخب کرلیا اور ایک خاتون امیدوار کو مسترد کردیا۔ اس تاریخی الیکشن کے فیصلے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا جس میں سے ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ایک خاتون امریکہ کی صدر کیوں نہیں بن سکتی؟
مغرب ہمیشہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کااستحصال کیا جاتا ہے اور انہیں یہاں آزادانہ نقل و حرکت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں ایک خاتون صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئی تھی اور پھر 80 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو وطن عزیز کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں جبکہ امریکی عوام نے خاتون امیدوار کو مسترد کر دیا۔ امریکہ میں جہاں خواتین کے مساوی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، وہاں 1920ٰء تک خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق تک حاصل نہیں تھا، 1920ء کے بعد سے اب تک کوئی خاتون صدر کے الیکشن تک نہیں پہنچ سکی تھی، اب جبکہ ایک صدی بعد ایک خاتون اس مقام تک پہنچی تو امریکی عوام نے اسے مسترد کر کے یہ بات ثابت کردی کہ کہ امریکیوں کے ہاں بھی عورت حکمرانی کے قابل نہیں۔ امریکہ میں صنف نازک تا حال مسائل کا شکار ہے اور آج بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ نام نہاد آزادی اور حقوق نسواں کا علمبردار امریکہ نسل پرستی اور صنفی امتیاز میں کسی طور پیچھے نہیں ہے۔ یہ فرق اور ظلم وستم کسی رنگ، نسل معاشرے یا نظریے تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک جو ساری دنیا کو انسانیت، تہذیب اور برابری کا درس دیتے ہیں، ان کے ہاں خواتین پر ظلم و ستم کی شرح باقی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
امریکہ میں عورتوں کی حالت زار کے متعلق نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے، ان میں سے ایک تہائی خواتین کو زیادتی کے دوران تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتاہے، اس رپورٹ کے مطابق ہر سال 13لاکھ امریکی خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، ان میں سے 12فیصد لڑکیوں کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان کی عمر 10سال سے بھی کم ہوتی ہے. ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال کالج جانے والی ہر چار میں سے ایک لڑکی پر جنسی حملہ کیا گیا جبکہ 27 فیصد کالج خواتین کو ہراساں کیا گیا، اور ایک سروے کے مطابق ہر 16میں سے 15 زیادتی کے نشانے بنانے والے مجرم آزادانہ گھوم رہے ہیں۔گزشتہ 15 سالوں میں امریکہ کی 13 ہزار سے زائد خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ (شوہر کہنا غلط ہوگا کیونکہ یہ لوگ تو بغیر شادی کے ساتھ رہتے ہیں) پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہونا پڑا، اسی ترقی یافتہ دیس میں ہی تقریبا 5 کروڑ خواتین ہر سال اپنے پارٹنر کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں جبکہ ہر 3 میں سے ایک امریکی عورت کو اس کا شوہر تشدد کا نشانہ بناتا ہے جبکہ ہر روز خواتین کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سچی کہانی پر مبنی ایک فلم The General's Daughter دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس فلم میں جس طرح ایک امریکی فوجی خاتون کے حقوق پامال ہوتے دکھائےگئے اور کس طرح اس کے باپ نے عہدے کی خاطر اپنے آپ کو خاموش رکھا، اس کا اندازہ آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی ہوگا۔ عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق کا راگ الاپنے والے امریکہ میں اس وقت کام کرنے والی خواتین کا معاوضہ مردوں سے کم ہے، یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی وڈ میں کام کرنے والی اداکاراؤں کا معاوضہ بھی مرد اداکاروں سے بہت کم ہے۔
آج خاتون امریکی امیدوار کی شکست پر مہم میں شامل خواتین ہی آنسو بہاتی نظر آتی ہیں جبکہ مرد حضرات جشن مناتے نظر آ رہے ہیں، دوسری جانب امریکی کانگریس میں بھی خواتین کی نمائندگی مردوں کی نسبت کم ہے۔ امریکن خواتین بہت پر امید تھیں کہ اس بار ان کی نمائندگی تسلیم کی جائے گی مگر افسوس کہ امریکن ایوان صدر میں ان کے اندر کے احساسات اور جذبات نتائج آنے کے بعد ان کے آنسوؤں میں یکسر دُھل گئے ہیں۔ اگرچہ امریکی سیاست میں امریکی خواتین ہمیشہ سے متحرک رہی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی خواتین کو کلیدی عہدوں سے آج تک دانستہ دور رکھا گیا ہے، جس کی زندہ مثال حالیہ الیکشن میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ایک متحرک خاتون کی شکست ہے۔